سپریم کورٹ کا حکومت کو عدالتی معاملات میں ’مداخلت‘ ختم کرنے کا حکم

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے 25 مارچ کو عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر اس معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی جج کے کام میں مداخلت کی جارہی ہے تو وہ خود توہین عدالت کی کارروائی کر سکتے ہیں، اس معاملے میں انہیں سپریم کورٹ یا سپریم جوڈیشل کونسل کی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔‘

بدھ کو عدلیہ کے معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت پر چھ ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے مزید کہا کہ ’توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار ججز کو آئین اور قانون دیتا ہے، شوکت صدیقی کیس کا عدالتی فیصلہ ہائی کورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جب سے میں چیف جسٹس بنا ہوں تب سے مجھے کسی جج نے ایسی شکایت نہیں کی کہ ان پر کسی قسم کا دباؤ ہے۔ اب جب شکایت آئی ہے تو ہم نے یہ معاملہ ٹیک اپ کر لیا ہے۔‘

سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دے دیا اور کہا کہ اس وقت اسلام آباد میں سات جج ہی میسر تھے اس لیے سات رکنی لارجر بینچ بنایا گیا۔ اگلی مرتبہ ججوں سے مشاورت اور ان کی دستیابی پر فل کورٹ بنا دیں گے۔

سماعت 29 اپریل تک ملتوی

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، یحییٰ خان آفریدی، جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہو گا تو دفاع کریں گے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ’عدلیہ کی آزادی پر اگر کوئی حملہ ہوگا تو ہم سب اس کے دفاع کے لیے آئیں گے، ہم کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے۔‘

بدھ کو چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ ’میں اس بات پہ چلتا ہوں کہ پہلے خود پہ انگلی اٹھاؤ پھر دوسروں پہ، اب ایسا نہیں ہوتا کہ چیمبر میں چلے گئے اور مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہو گیا، وکیل کہہ رہے ہیں کہ از خود نوٹس لیں ایسے وکیلوں کو وکالت چھوڑ دینی چاہیے، آج کل پٹیشن بعد میں دائر ہوتی ہے اخبار میں پہلے چھپ جاتی ہے یہ بھی دباؤ ڈالنے کا طریقہ ہے، ہم پتہ نہیں گوئبلز کے زمانے کو واپس لے کے آ رہے ہیں۔ جس دن خط آیا اسی دن ہائی کورٹ ججز سے ملاقات ہوئی، اس سے زیادہ چستی سے شاید کسی نے کام کیا ہو، ہم اس معاملے کو اہمیت نہ دیتے تو کیا یہ میٹنگ رمضان کے بعد نہیں ہو سکتی تھی۔‘

 

سماعت کا آغاز کیسے کریں؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سماعت کا آغاز کیسے کریں، پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو فل کورٹ کے بعد جاری پریس ریلیز پڑھنے کی ہدایت کی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’جب وزیراعظم سے کہا کہ آپ ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہو وہ ملیں گے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے فل کورٹ میٹنگ کی، اس سے پہلے چار سال فل کورٹ میٹنگ نہ ہوئی، اس وقت وکلا کہاں تھے؟ مداخلت کبھی برداشت نہیں کرتے، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو یا چیف جسٹس بن جائے یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے، وزیر اعظم وزیر قانون اٹارنی جنرل سے انتظامی طور پر ملاقات کی، چھپ کر یا گھر میں بیٹھ کر نہیں ملاقات کی، وزیر اعظم کو زیادہ ووٹ حاصل ہیں اس لئے وہ انتظامیہ کے سربراہ ہیں۔‘

چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کہ ’کیا سپریم کورٹ خود کسی مسڑ ایکس کو مداخلت کا ذمہ دار قرار دے سکتی ہے؟ ہم کیسے تفتیش کریں گے کسی نہ کسی سے انکوائری کرانا ہو گی۔‘

صدر سپریم کورٹ بار نے عدالت سے کہا کہ اسی لیے سپریم کورٹ بار انکوائری کمیشن کی حامی تھی، کسی اور نے کوئی متبادل راستہ بھی نہیں بتایا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ ’الزام ایگزیکٹو پر لگ رہا ہے کیا ایگزیکٹو تحقیقات کرے گی؟ اس معاملے میں جانے سے بہتر تجویز جسٹس منصور علی شاہ نے دی ہے، آئین کو ناقابل عمل بنایا جا رہا ہے، اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے، کیا آج انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟ یہ تاثر کیسے دیا جا سکتا ہے کہ آج کچھ نہیں ہو رہا۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا ہے اب کچھ تو کرنا ہی ہے، ججز اپنے چیف جسٹس کو بتائیں اور وہ کچھ نہ کرے تو اس کا بھی کچھ کرنا چاہیے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ماضی میں جو ہوا اس سے سبق سیکھیں لیکن مستقبل کیلئے لائحہ عمل تو بنائیں، ججز کے اس خط کو عدلیہ کی آزادی کے لیے سنہری موقع سمجھنا چاہیے۔‘

کمیشن کی تشکیل پر سوشل میڈیا پر بے جا تنقید ہوئی: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’سابق چیف جسٹس ناصر الملک اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے نام سپریم کورٹ نے ہی تجویز کیے تھے، وزیر قانون لاہور میں جسٹس تصدق حسین جیلانی سے ملے تو انہوں نے کہا کہ آپ شرائط و ضوابط طے کریں پھر مجھے بتائیں۔ 2017 انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن کی پاورز بہت زیادہ ہوتی ہیں وہ توہین عدالت کی کارروائی کر سکتا ہے، میڈیا پر ایسا تاثر بنایا گیا کہ کہ جیسے وفاقی حکومت اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہ رہی ہے، سوشل میڈیا پر انکوائری کمیشن سے متعلق غلط باتیں کی گئیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’انکوائری کمیشن بنا تو تصدیق جیلانی صاحب پر ذاتی حملے کیے گئے، تصدق جیلانی صاحب پیسوں کے لیے نہیں کر رہے تھے، سوشل میڈیا پر جو باتیں ہوئیں مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا، تصدیق جیلانی پر بے جا تنقید سن کر مجھے شرم آئی، جو کچھ تصدیق جیلانی بارے سوشل میڈیا پر کہا گیا اس کے بعد انھوں نے معذرت کر لی، کون ایسے ماحول میں کوئی خدمت انجام دے سکتا ہے شریف آدمی پر حملے ہوں گے تو وہ تو چلا جائے گا وہ کہے گا آپ سنبھالیں، ایسے ایسے الزامات لگے کہ ہمیں انہیں نامزد کر کے شرمندگی ہوئی، پتہ نہیں ہم نے اس قوم کو تباہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے تصدق حسین جیلانی کا کمیشن سے الگ ہونے والا خط پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’میں نے اکیلے نے تصدق حسین جیلانی کو مقرر نہیں کیا، اپنے ساتھی جج صاحبان سے مشورے کے بعد ان کا نام تجویز کیا، یہ تاثر کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات وفاقی حکومت یا کمیشن کو دے دئیے یہ تاثر ہی غلط ہے۔‘

چیف جسٹس نے سوشل میڈیا کو وبا قرار دے دیا انہوں نے کہا کہ ’ججز کو دباؤ ساتھی ججز، اہلخانہ، بچوں اور دوستوں سے بھی آ سکتا ہے، آج کل نئی وباء پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا اور میڈیا کا بھی پریشر ہوتا ہے۔‘

وفاق عدلیہ کی آزادی کے ہر قسم کی معاونت فراہم کرے گی: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اس عدالت سے مانیٹرنگ جج لگے، آپ کو مرزا افتخار احمد نامی شخص نے قتل کی دھمکیاں دیں، آپ چیف جسٹس کی اہلیہ ایف آئی آر درج کرانے گئیں لیکن ہوا کچھ نہیں، آج وفاقی حکومت کم سے کم وقت میں سپریم کورٹ کے پاس پہنچی اور عمل درآمد کیا، ہمیں تقابلی جائزہ لینا پڑے گا کہ پہلے سپریم کورٹ معاملات پر حکومت کس طرح سے ری ایکٹ کرتی تھی، خلاف قانون مانیٹرنگ جج تعینات کئے گئے، 2017سے 2021کے دوران جو کچھ ہوتا رہا وہ سب کے سامنے ہیں، یہ یاد ضرور کروانا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے یہاں پر ، ججز معاملے کو حل کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی جو مدد چاہیئے دیں گے، ہم عدلیہ کی آزادی کے لئے ہر قسم کی مدد فراہم کریں گے، ایک طرف عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے تو دوسری طرف انتظامیہ کی ساکھ کا معاملہ بھی ہے۔‘

یہ درست ہے کہ سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے: جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی، ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’اٹارنی جنرل صاحب ایک ریفرنس دائر ہوا جس کے بارے میں اس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ غلطی تھی، اس پر کیا کارروائی ہو؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ’غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں لیکن ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے مرزا افتخار کیس کی بات کی  تھی، آپ کی حکومت کب سے ہے آپ اس کیس کو منطقی انجام تک لے کر گئے، باتیں سب کرتے ہیں کوئی کرنا نہیں چاہتا، آپ کی حکومت اس کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی تو آپ بات کرتے۔ ہم آنکھیں بند کر کے یہ تاثر نہیں دے سکتے ہمیں کچھ پتہ نہیں۔‘

جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’ایم پی او کا سہارا لے کر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی آپ کی حکومت کر رہی ہے۔‘

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

لاہور بار کے وکیل حامد علی خان وکیل نے کہا کہ ’ہم نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اب وہ زمانے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی ہے، ہم نے  کیسز فکس کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے، آپ سے بہتر کون قانون جانتا ہے، آپ کی درخواست ابھی ہمارے پاس نہیں آئی، جب درخواست آجائے تو انتظامی کمیٹی اس پر فیصلہ کرتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد چیف جسٹس اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ میں آپ کو وکلا کے نمائندے کے طور پر نہیں لے سکتا، وکلا کے نمائندے کے طور پر بار کے صدر موجود ہیں۔‘

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کے وکیل احمد حسین کو بھی بولنے سے روک دیا۔‘

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ ’آپ تو کہہ رہے ہیں کہ نہیں ہوئی لیکن ہم آپ کو حکم دیتے ہیں کہ عدالتی امور میں مداخلت بند کر دیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان