برطانیہ میں سفید فام اقلیت بن جائیں گے؟

بکنگھم یونیورسٹی کے تجزیے کے مطابق نقل مکانی، پیدائش اور اموات کی شرحوں کی بنیاد پر سفید فام برطانوی آبادی موجودہ 73 فیصد سے کم ہو کر 2050 تک 57 فیصد رہ جائے گی اور 2063 تک اقلیت بن جائے گی۔

 سینٹ جارج ڈے کی تقریبات کے ایک حصے کے طور پر 23 اپریل 2025 کو لندن کی لیڈین ہال مارکیٹ میں برطانوی شہری ڈانسرز کو پرفارم کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں (جسٹن ٹیلس/ اے ایف پی)

زبان بھی عجیب چیز ہے۔ رواں ہفتے ایک نئی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں سفید فام برطانوی آبادی اگلے 40 برس میں اقلیت بن سکتی ہے۔ یہ صورت حال ہم میں سے کچھ لوگوں کا بدترین رویہ سامنے لے آئی۔

بکنگھم یونیورسٹی کے تجزیے کے مطابق نقل مکانی، پیدائش اور اموات کی شرحوں کی بنیاد پر سفید فام برطانوی آبادی موجودہ 73 فیصد سے کم ہو کر 2050 تک 57 فیصد رہ جائے گی اور 2063 تک اقلیت بن جائے گی۔

ایک اخبار کی رپورٹ میں کچھ عجیب انداز میں وضاحت کی گئی کہ سفید فام برطانوی کی تعریف ’وہ لوگ ہیں جن کے والدین میں سے کوئی بھی تارک وطن نہ ہو‘۔ یہ ان تمام غیر سفید فام بچوں کی بدقسمتی ہے جن کے والد یا والدہ آئرش، فرانسیسی یا جرمن ہیں۔ اسی اصول کی زد میں کنگ چارلز، ونسٹن چرچل اور بورس جانسن بھی آ جاتے ہیں۔ اس پیمانے سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ وہ بھی اب سفید فام برطانوی نہیں رہے۔

اس کھلی حماقت کے علاوہ یہاں معاملہ کچھ اور بھی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی نسل پرستی نہیں بلکہ صاف اور واضح اشتعال انگیزی ہے۔ ناقص مفروضوں کو پیش گوئی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

شاید ہی کسی کو بخشا گیا ہو۔ ہمیں یہ بتاتے ہوئے، غالباً افسوس کے ساتھ، مطلع کیا گیا کہ غیرملکی نژاد اور دوسری نسل کے تارکینِ وطن کی تعداد میں اضافہ ہوگا، حالاں کہ یہ سب بہت اچھی طرح برطانوی ہو سکتے ہیں۔ مزید آگے چل کر رپورٹ کے مصنف میتھیو گڈوِن ایک بار پھر اپنا موقف بدلتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اس صدی کے آخر تک، ان جزائر کے بیشتر باشندے اپنی جڑیں ایک یا دو نسلوں سے آگے جا کر اس ملک میں تلاش نہیں کر سکیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور پھر، یقیناً ’بیرون ملک پیدا ہونے والوں اور مسلم آبادی‘ کو برابر ٹھہرا دیا گیا ہے، جس کا غالباً مطلب یہ ہے کہ اگر آپ مسلمان ہیں تو چاہے آپ کہیں بھی پیدا ہوئے ہوں، آپ یہاں کی کسوٹی پر پورا نہیں اتر سکتے۔

اگر اس ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سفید فام لوگ کافی تعداد میں نہیں تو بہتر ہو گا کوئی صاف صاف یہ بات کہہ دے۔ کیوں کہ واضح ہے کہ یہاں اصل مسئلہ برطانوی ہونے یا نہ ہونے کا نہیں۔

نہ صرف امیگریشن بلکہ انضمام کے حوالے سے بھی سنجیدہ مباحثے کی ضرورت موجود ہے۔ خوش قسمتی سے ہم میں سے زیادہ تر لوگ جس ملک میں رہتے ہیں، وہاں لاکھوں خاندانوں کے لیے مذہبی اور نسلی انضمام روزمرہ کی حقیقت ہے، جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل ہے۔

میرا خیال ہے کہ ہم برطانیہ میں اس حوالے سے کئی مغربی ملکوں سے کہیں بہتر ہیں، تاہم ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور کیا جا سکتا ہے۔ اس بات پر بھی بحث ہونی چاہیے کہ امیگریشن کی قابلِ انتظام سطح کیا ہو سکتی ہے اور کیا ہماری امیگریشن پالیسی آج کے تقاضوں کے مطابق ہے بھی یا نہیں؟

لیکن ایسی بحث کا طریقہ یہ ہرگز نہیں۔ مختلف برادریوں کے درمیان عدم اعتماد اور ناپسندیدگی کو ہوا دینا یقیناً کوئی سمجھدار شخص نہیں چاہے گا، خاص طور پر جب رپورٹ خود کہہ رہی ہے کہ اس کا مقصد ’تقسیم کرنا نہیں بلکہ آگاہی فراہم کرنا ہے۔‘

اس پوری لاپروائی سے میں یہی نتیجہ اخذ کر سکتا ہوں۔ کیوں کہ اگر واقعی مقصد آگاہی ہوتا تو یہ لوگ زیادہ وقت اس بات پر لگاتے کہ پیش گوئیاں یقینی نتائج نہیں ہوتیں۔ یہ بھی واضح کیا جا سکتا تھا کہ اچھی خاصی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تارکین وطن کے ہاں شرحِ پیدائش وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ اور یہ کہ گڈوِن نے آبادی کے حوالے سے جو اندازے لگائے، وہ پیدائش، موت اور نقل مکانی کے مفروضوں پر مبنی ہیں۔ یہ مفروضے پہلے ہی انتہائی پرانے ہو چکے ہیں اور جتنا آگے بڑھ کر ان کی بنیاد پر اندازے لگائے جائیں گے، اتنا ہی ان کے غلط ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔

لیکن یہاں ایسی کوئی باریک بینی نہیں ۔ صرف اس بات کا یقین ہے کہ اس قسم کے نتائج سے ان لوگوں میں ’شدید بے چینی، تشویش اور سیاسی مخالفت‘ جنم لے گی جو امیگریشن کے مخالف ہیں۔

اب اس بات کو ذرا عالمی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے، طاقت کا توازن مسلسل مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ آبادیاتی لحاظ سے بھی اور معذرت چاہتا ہوں کہ دنیا زیادہ نہیں بلکہ کم سفید فام ہو رہی ہے۔

برطانیہ جیسے نسبتاً چھوٹے ممالک کو اس نئے عالمی نظام میں مقابلے اور قابل افراد کو متوجہ کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ کیا ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ ایسے غیر سفید فام غیرملکیوں کی موجودگی کے منفی اثرات کا رونا، جو اپنی نسلوں کا تعلق کئی نسل پیچھے تک ثابت نہیں کر سکتے، اس کام میں ہماری کوئی مدد کرے گا؟

لیکن جو بات میں ضرور جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نہ صرف سفید فام نہیں بلکہ بظاہر اب برطانوی بھی نہیں ہوں۔

آنند مینن کنگز کالج لندن میں یورپی سیاست اور خارجہ امور کے پروفیسر اور ’یو کے ان اے چینجنگ یورپ‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر