غیر قانونی طور پر بیرون ممالک جانے کی کوشش کے دوران پیش آنے والے بحری حادثات کے متاثرین کے رشتہ داروں کے انٹرویوز سے معلوم ہوا ہے کہ سمگلروں نے بحیرہ روم اور شمالی افریقہ میں سخت سرحدی کنٹرول اور پالیسیوں کے سبب پاکستان سے سپین جانے کے لیے اپنے راستے بدل لیے ہیں اور اب وہ طویل اور زیادہ خطرناک راستوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔
رواں برس جنوری میں موریطانیہ کے ساحل سے سپین کے جزائر کنیری کی جانب 10 دن تک جاری رہنے والے ایک ناکام سفر کے دوران 44 پاکستانی تارکین وطن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
بچ جانے والوں میں ایک 21 سالہ پاکستانی عامر علی بھی تھے، جن سے سپین کا ویزا اور طیارے کا ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن چھ مہینے، چار ممالک اور 17 ہزار ڈالر خرچ کرنے کے بعد، انہوں خود کو بحر اوقیانوس میں ماہی گیر کشتی کے اندر، 85 دوسرے افراد کے ساتھ پھنسا ہوا پایا۔ سمندر کا پانی مسلسل کشتی میں داخل ہو رہا تھا اور ہر شخص اپنی جان بچانے کے لیے چیخ رہا تھا۔
اس جان لیوا سفر نے مغربی افریقی ساحلوں اور خاص طور پر موریطانیہ میں سرگرم انسانی سمگلروں کے عالمی اور منظم نیٹ ورکس پر روشنی ڈالی۔
سفر جس کا آغاز پانچ ہزار میل کے فاصلے سے ہوا
عامر علی کا یہ کٹھن سفر گذشتہ برس جولائی میں شروع ہوا۔ چھ لاکھ پاکستانی روپے (2127 ڈالر) کی ابتدائی رقم جمع کروانے کے بعد وہ کراچی کے ہوائی اڈے پہنچے، جہاں انہیں بتایا گیا کہ امیگریشن کاؤنٹر پر شفٹ تبدیل ہونے تک انتظار کریں۔
عامر نے بتایا کہ ’سمگلروں کے پاس ایئرپورٹ کے اندر مددگار لوگ موجود تھے۔‘ پھر انہیں اور دیگر تارکین وطن کو تیزی سے ایتھوپیا کے شہر ادیس ابابا جانے والی پرواز پر بٹھا دیا گیا۔
وہاں سے عامر دوسری پرواز کے ذریعے سینیگال کے شہر ڈاکار پہنچا، جہاں انہیں بتایا گیا تھا کہ کوئی شخص ان کے استقبال کے لیے موجود ہوگا۔
لیکن وہاں پہنچنے پر ان سے کہا گیا کہ وہ سات گھنٹے ٹیکسی میں سفر کر کے دریائے سینیگال تک جائیں، جو موریطانیہ کی سرحد پر ہے۔ یہاں انہوں نے دوسرے پاکستانیوں کے ساتھ مل کر موریطانیہ کے دارالحکومت نواکشوط تک کا سفر کیا۔ عامر کے مطابق ہر ملک میں داخل ہوتے وقت ان سے ویزے کے لیے رشوت لی گئی۔
42 سالہ عمران اقبال نے بھی ایسا ہی سفر اختیار کیا۔ عامر کی طرح وہ بھی کراچی سے ایتھوپیا کے راستے سینیگال اور پھر موریطانیہ پہنچے۔ عمران کے مطابق دیگر پاکستانی کینیا یا زمبابوے کے راستے موریطانیہ پہنچے تھے۔
مہینوں پر محیط انتظار
موریطانیہ پہنچنے کے بعد تارکین وطن کو تنگ اور خفیہ ٹھکانوں میں رکھا گیا جہاں سمگلروں نے ان کا سامان چھین لیا اور انہیں کھانے پینے سے محروم کر دیا۔ عمران نے بتایا: ’ہمارے پاسپورٹ، رقم، سب کچھ لے لیا گیا۔‘ جبکہ عامر نے بتایا: ’مجھے تو بالکل یرغمال بنا کر رکھا گیا۔‘
عمران اور عامر چھ ماہ موریطانیہ میں رہے، اس دوران سمگلر انہیں بار بار جگہ بدلتے رہے اور مزید رقم نکلوانے کے لیے ان پر تشدد بھی کرتے رہے۔
عمران نے کسی طرح پاکستان سے کچھ رقم منگوا لی، لیکن انہوں نے اپنے گھر والوں کو اس سنگین صورت حال کے بارے میں نہیں بتایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران نے کہا: ’ہمارے والدین، بچے اور بہن بھائی، ان پر تو قیامت ٹوٹ پڑتی۔‘
عامر نے کہا کہ سمگلر پاکستان میں ان کے گھر والوں سے جھوٹ بولتے تھے، جو مسلسل ان کا حال پوچھتے اور سوال کرتے کہ انہوں نے سپین پہنچ کر رابطہ کیوں نہیں کیا؟
آخرکار دو جنوری کو عمران اقبال، عامر علی اور دوسرے پاکستانی تارکین وطن کو ایک کھچا کھچ بھری کشتی میں منتقل کر کے سپین کے جزائر کنیری کی جانب روانہ کر دیا گیا۔
عامر نے بتایا کہ ’روانگی والے دن 64 پاکستانیوں کو مختلف خفیہ ٹھکانوں سے بندرگاہ لایا گیا۔ موریطانیہ کی پولیس اور بندرگاہ کے افسران سمگلروں سے ملے ہوئے تھے اور انہوں نے ہمیں کشتیوں میں بٹھانے میں مدد دی۔‘
عمران کے بقول: ’اس کے بعد میری زندگی کے 15 سخت ترین دن شروع ہوئے۔‘
میڈرڈ میں تعینات ایک موریطانی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ موریطانیہ کے حکام نے سمگلنگ نیٹ ورکس کے خلاف کئی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور گذشتہ دو ماہ کے دوران ملک کی بندرگاہوں اور سرحدوں پر نگرانی سخت کر دی گئی ہے۔
دنیا کا ’سب سے جان لیوا‘ نقل مکانی کا راستہ مزید پھیل رہا ہے
اگرچہ یورپ کی جانب نقل مکانی میں مسلسل کمی واقع ہوئی لیکن مغربی افریقہ سے سپین کے جزائر کنیری کی طرف بحر اوقیانوس کے راستے کا استعمال 2020 سے دوبارہ بڑھنے لگا ہے۔
سپین کی وزارتِ داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق 2024 میں تقریباً 47 ہزار لوگ کنیری جزائر پہنچے، جب کہ 2023 میں یہ تعداد 40 ہزار کے قریب تھی۔
کچھ عرصہ پہلے تک اس راستے کو زیادہ تر مغربی افریقی ممالک سے غربت یا تشدد کے باعث فرار ہونے والے تارکین وطن ہی استعمال کرتے تھے، لیکن گذشتہ سال سے پاکستان، بنگلہ دیش، یمن، شام اور افغانستان جیسے دور دراز ممالک کے تارکینِ وطن نے بھی ان ماہی گیر کشتیوں کا استعمال بڑھا دیا ہے، جن کے ذریعے وہ یورپی جزائر تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سمگلر پاکستان سمیت کئی ممالک میں مقامی طور پر یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے تارکین وطن سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ تارکین وطن اپنے سفر کی ویڈیوز ٹک ٹاک پر پوسٹ کرتے ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ خطرات سے بھی آگاہ کرتے ہیں لیکن کئی افراد یورپ کی خوبصورت زندگی کی ویڈیوز بھی شیئر کرتے ہیں، جن میں کنیری جزائر کے ساحلوں سے لے کر بارسلونا اور میڈرڈ کی مصروف گلیاں شامل ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے سپین صرف فرانس، اٹلی یا دیگر یورپی ممالک پہنچنے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔
یورپی سرحدی ایجنسی فرنٹیکس کے ترجمان کرس بورووسکی کے مطابق پاکستانی اور دیگر جنوبی ایشیائی تارکین وطن کو کنیری جزائر کے راستے لانے والے سمگلر ابھی تک یہ جانچ رہے ہیں کہ یہ راستہ کتنا منافع بخش ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب گلوبل انیشی ایٹیو اگینسٹ ٹرانس نیشنل کرائم کے ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ راستہ اب مستقل استعمال میں رہنے والا ہے۔
ادارے کے مطابق: ’علاقے کے تنازعات میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے، اس لیے کنیری جزائر کے راستے سے نقل مکانی میں اضافہ ہو گا، کیوں کہ یہ دنیا کا سب سے خطرناک راستہ ہے، اس کے انسانی اثرات انتہائی تشویش ناک ہیں۔‘
بحر اوقیانوس کے اس سفر میں کئی دن یا ہفتے لگ سکتے ہیں اور کئی کشتیاں غائب ہو چکی ہیں۔
اگرچہ درست اعداد و شمار تو دستیاب نہیں لیکن ’انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن‘ کے مطابق گذشتہ سال اس راستے میں سفر کے دوران کم از کم 1142 افراد کی اموات ہوئیں یا وہ لاپتہ ہوئے، تاہم تنظیم کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
سپین کے انسانی حقوق کے گروپ ’واکنگ بارڈرز‘ نے گذشتہ سال کنیری جزائر کے راستے تقریباً 9800 اموات کا اندازہ لگایا، جس سے یہ راستہ دنیا کا سب سے مہلک راستہ بن جاتا ہے۔
بہت کم لاشیں کبھی ملتی ہیں۔ کچھ تباہ حال کشتیاں ہزاروں میل دور کیریبین اور جنوبی امریکا کے ساحلوں تک پہنچ گئی ہیں۔
جس کشتی میں عامر اور عمران سوار تھے، اس میں گنجائش 40 لوگوں کی تھی لیکن اس پر دگنے لوگوں کو سوار کر دیا گیا۔ دونوں نے بتایا کہ سفر کے آغاز سے ہی پاکستانیوں اور افریقی شہریوں کے درمیان لڑائیاں شروع ہو گئیں۔
خبر رساں ادارہ ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) اس سفر میں شریک غیر پاکستانی مسافروں سے ان الزامات کی تصدیق نہیں کر سکا لیکن جزائر کنیری کے اس سفر کے دوران تشدد کی خبریں اکثر ایک ہی قومیت اور نسل کے افراد کے درمیان بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے مسافروں کو خیالی چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جس سے جھگڑے بڑھ جاتے ہیں۔
عامر نے بتایا کہ ’موسم انتہائی خراب تھا۔ جب پانی کشتی میں داخل ہونے لگا تو عملے نے کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے ہمارا سامان اور کھانا سمندر میں پھینک دیا۔‘
عامر اور عمران نے بتایا کہ پانچویں دن ایک شخص دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا۔ اس کے بعد روزانہ مزید افراد کی موت ہوتی گئی اور ان کی لاشیں سمندر میں پھینک دی گئیں۔ کچھ لوگ بھوک اور پیاس سے مرے لیکن زیادہ تر کو قتل کیا گیا۔
عامر نے بتایا: ’عملے نے ایک رات ہتھوڑوں سے حملہ کر کے 15 لوگوں کو مار دیا۔‘ دونوں نے زخمیوں کی تصاویر بھی دکھائیں، لیکن اے پی ان تصاویر میں زخموں کی اصل وجہ کی تصدیق نہیں کر سکا۔
عمران نے بتایا کہ ’لوگوں کو زیادہ تر سر پر اتنا بری طرح مارا گیا کہ وہ ذہنی توازن کھونے لگے۔ ہم موت کی دعا کرنے لگے کیوں کہ ہمیں زندہ بچنے کی امید نہیں تھی۔‘
10 ویں رات، جب درجنوں افراد مر چکے تھے، اچانک سمندر میں روشنیاں نظر آئیں۔ انہوں نے چیخ چیخ کر مدد مانگی۔ صبح ہوتے ہی ایک ماہی گیر کشتی ان کے قریب آئی، جس نے انہیں کھانا اور پانی دیا اور دو دن بعد انہیں واپس مغربی افریقی ساحل تک کھینچ کر لے گئی۔ اس سفر میں 44 پاکستانی جان سے گئے۔
عامر نے بتایا: ’صرف 12 افراد کی لاشیں پاکستان پہنچ سکیں۔ باقی سب سمندر میں کھو گئے۔‘
پھر وہیں واپسی، جہاں سے سفر شروع کیا تھا
اس ناکام سفر کی خبر عالمی سطح پر سامنے آنے کے بعد پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے سمگلروں کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا۔
پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے کئی مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے، تاہم زیادہ تر گرفتار ہونے والے چھوٹے اہلکار ہوتے ہیں، جن سے سمگلروں کے بڑے نیٹ ورکس پر معمولی اثر پڑتا ہے۔
عامر نے اپنے گاؤں ڈیرہ باجوہ میں اپنے سادہ سے گھر کے گرد بننے والی شاندار کوٹھیوں کو دیکھتے ہوئے کہا: ’یہ گھر ان لوگوں کے ہیں جو بیرونِ ملک پہنچ گئے۔ میرے جیسے لوگ خواب دیکھتے رہتے ہیں، سوچے سمجھے بغیر۔‘