وفاقی بجٹ 2025-26 پیش ہونے کے بعد سے زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد خوش ہونے کی بجائے مایوسی کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور اسے کسان دشمن بجٹ قرار دے رہے ہیں۔ بعض ماہرین اقتصادیات کے خیال میں بھی اس بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
وفاقی بجٹ 2025-26 میں کسان برادری کے سب سے بڑے مطالبات میں سے ایک کو قبول کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تجاویز میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے نفاذ کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر میں کہا کہ ’زراعت کا ملکی معیشت میں حصہ تقریباً 24 فیصد ہے جس سے ملکی معیشت کے لیے زراعت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ زراعت ایک صوبائی سبجیکٹ ہے، مگر اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر وزیراعظم نے ایک نیشنل کمیٹی تشکیل دی ہے جو زراعت کے فروغ کے لیے صوبوں کے ساتھ بامقصد مشاورت کرے گی۔
’زرعی شعبے کو قرض کی فراہمی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم پچھلے مالی سال کے لیے پہلے 10 مہینوں میں ایک ہزار 785 ارب روپے سے بڑھ کر اس مالی سال کے لیے پہلے دس مہینوں میں دو ہزار 66 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’زراعت کے شعبے میں خصوصاً چھوٹے کسانوں کو قرض کی فراہمی کے لیے کئی نئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ایک نیا کلین فنانسنگ فیسلٹی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے، جس کے تحت بینک چھوٹے کسانوں کو بغیر کسی ضمانت کے ایک لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کریں گے۔
’یہ رقم ڈیجیٹل نظام کے ذریعے کسانوں کے ای-والٹس میں ٹرانسفر کی جائے گی۔ چھوٹے کسانوں کو دیے جانے والے قرضوں پر حکومت بینکوں کو پورٹ فولیو پر 10 فی صد فرسٹ لاسٹ رسک کوریج دے گی۔ یہ سہولت ایسے علاقوں میں فراہم کی جائے گی جہاں فنانسنگ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اس سکیم سے ساڑھے سات لاکھ کسان فائدہ اٹھائیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کپاس کی فصل کی بحالی کے لیے مربوط کوششیں کی گئی ہیں، جو پاکستان کی معیشت اور ٹیکسٹائل صنعت کا ستون ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں کپاس کی پیداوار میں کمی ہوئی، تاہم 2023 میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی، اور 2021 میں حکومتی کوششوں کے باوجود موسمی مسائل کے باعث پیداوار متاثر ہوئی۔ حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی کہ کپاس کی کاشت کے اعتبار کو بحال کیا جا سکے۔‘
مایوسی کیوں؟
پاکستان کسان اتحاد کے سربراہ خالد محمود کھوکھر کا کہنا ہے کہ ’بجٹ میں زراعت کا کوئی نام نہیں سنا گیا، کہیں کوئی ہماری پیداواری لاگت کم کی گئی ہو یا کہیں کوئی نظام وضع کیا گیا ہو کہ کاشت کار کو قیمت کیسے ملے گی، کوئی اس قسم کی بات نہیں کی گئی، یا کاشت کار کو اور کچھ نہیں تو اس کی پیداواری لاگت بمع 25 فی صد منافع کے ساتھ کیسے واپس مل سکتی ہے؟ کہیں ایسی کوئی بات نہیں کی گئی۔‘
خالد محمود کھوکھر کا کہنا تھا کہ ’بجٹ میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی کہ زراعت کے شعبے میں تحقیق پر کیا کرنا ہے؟ کوئی مستقبل میں مارکیٹنگ کے اوپر بات ہوئی ہو کہ کاشت کار کو کوئی دو سال کا پلان دیا جاتا کہ وہ دو سال میں کوئی فصل کاشت کرے اور اس کی یہ پیداواری لاگت ہو گی، اس کا یہ نرخ ہو گا۔ کہیں تحقیق کے بجٹ کی بات ہوئی؟
ان کا کہنا تھا: ’آپ کی دو ہی سیکیورٹیز ہیں: ایک فوڈ سکیورٹی، دوسری بارڈر سکیورٹی۔ بارڈر سیکیورٹی کے لیے بجٹ کے ساتھ ساتھ فوڈ سکیورٹی کے لیے بھی بجٹ دینا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جتنی مرضی ہماری پیداواری لاگت رکھ لیں، اس کے بعد جب ہم کاشت کریں اور ہماری فصل آئے تو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کاشت کار کو اس کی پیداواری لاگت اور 25 فیصد منافع مل جائے۔ اس پر عمل درآمد ہو اور اسے یقینی بنا دیا جائے۔ اس کے علاوہ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔‘
ان کا اصرار تھا کہ اگر انہیں فصل کا دام ہی نہ ملے تو انہوں نے ان چھوٹے موٹے پیکجز کا کیا کرنا ہے؟ ’یہ تو بس سرخی پاؤڈر لگانے والی بات ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ سے کسان کیا خوش ہو گا، اس وقت تو کسان مرا پڑا ہے۔ ہم تو یہ اپیل کر رہے ہیں کہ ہمیں سزائے موت سے نکال کر عمر قید کی سزا میں لے آئیں۔‘
’کسان کا دو سال میں برا حال ہو گیا ہے، آئندہ آنے والے سالوں میں ہم دیکھیں گے کہ یہاں فوڈ سکیورٹی کا کتنا بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری تمام فصلوں کا انجن گندم ہے: ’ساڑھے چار کروڑ ایکڑ زیر کاشت رقبے میں سے ڈھائی کروڑ ایکڑ پر گندم کاشت ہوتی ہے۔ گندم کا نرخ کاشت کار کو اچھا مل جائے تو باقی فصلیں اچھی ہو جاتی ہیں، گندم کا ریٹ اچھا نہ ملے تو باقی فصلیں بھی ٹھیک نہیں ہوتیں۔‘
’ہمیں دو سال پہلے گندم کی قیمت 3900 روپے ملی، جس کے بعد ہم نے آپ کو 6.25 گروتھ ریٹ دیا۔ پچھلے سال ہمیں ریٹ نہیں ملا تو ترقی آ گئی 0.56 پر، جس سے کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ آپ کی درآمدات اور برآمدات کا خسارہ پانچ سے چھ ارب روپے تک بڑھ گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گندم کی وجہ سے ہی کاشت کاروں کو سبزیوں میں بھی مار پڑی اور وہ یوں ہوا کہ جب 10 فیصد گندم کی کاشت میں کمی آئی، اس وقت تک سبزیاں کاشت ہو گئیں۔ رسد زیادہ ہو گئی، طلب کم ہو گئی، کاشت کار کا سبزی کا ریٹ دو روپے، تین روپے فی کلو بن گیا، جس کی وجہ سے کاشت کار کو وہاں بھی نقصان اٹھانا پڑا۔
’پیاز کے کاشت کار کی پیداواری لاگت 30 سے 35 روپے فی کلو تھی، جبکہ اسے ملا آٹھ روپے فی کلو، اس سے اس کا نقصان ہو گیا۔ اب مکئی آئی ہے، ملوں نے تین ملین ٹن گندم سستی خرید لی ہے۔ اب جونہی مکئی آئی ہے، 3600 ریٹ تھا جو ڈیڑھ سے دو ہزار روپے پر آ گیا ہے۔ یعنی ہر لحاظ سے گندم کی وجہ سے کاشت کار مارا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم مسلسل یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کپاس پر جی ایس ٹی ختم کیا جائے، لیکن نہیں ہوا۔ کھاد کی قیمت میں کمی نہیں کی گئی، زراعت کے لیے بجلی ٹیرف کم نہیں ہوئے، گندم اور گنے کی امدادی قیمت خرید کا پرانا نظام تو ختم کر دیا گیا ہے، لیکن کسانوں کے معاشی تحفظ کے لیے قیم متعین کرنے کا نظام متعارف نہیں کروایا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسانوں کے لیے فصلوں کی قیمت فروخت نصف ہو چکی ہے، جس سے کھربوں روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ انھوں نے زرعی شرح نمو 4.5 فی صد مقرر کی ہے، لیکن خطرہ ہے کہ یہ منفی میں نہ چلی جائے۔
حکومت کے جاری کردہ قومی اقتصادی سروے کے مطابق گذشتہ برس زرعی شعبے میں ترقی کی شرح اشاریہ پانچ فیصد رہی یعنی ایک فیصد سے بھی کم۔
دوسری جانب ماہرین اقتصادیات اور ماہرین معاشیات کو بھی زراعت کے حوالے سے بجٹ میں کوئی خوش آئند چیز دکھائی نہیں دی۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’زراعت پر حکومت نے کبھی بھی سرمایہ کاری نہیں کی۔ پانی کے بھی مسائل ہیں، اگر ڈیمز بن جائیں تو پھر شاید حکومت زراعت کی طرف بھی توجہ دے دے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بیج بھی مہنگا کریں گے، کھادیں بھی، اور پیسٹی سائیڈ تو ویسے بھی باہر سے آتے ہیں۔
’میرا یہ خیال ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ جب تک آپ انڈسٹری اور زراعت کو یہاں بٹھا لیں، تو پھر باہر سے بڑے کسان آئیں اور یہاں کارپوریٹ فارمنگ کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے تو کوئی ٹیکس نہیں لگایا، لیکن انہوں نے صوبوں کو کہہ دیا ہے کہ وہ زرعی ٹیکس لگائیں، تو ٹیکس تو لگے گا، اس سے فرق کیا پڑے گا؟
ماہر معیشت ڈاکٹر فہد علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس بار نہ صرف ہماری فصلوں کا آؤٹ پٹ کم تھا بلکہ پیداوار بھی کم تھی۔ اسی طرح پچھلے سال جو گندم کے ساتھ ہوا، جب حکومت نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے گندم سپورٹ پرائس پر نہیں خریدنی، جس سے اندازہ تو تھا کہ اس سال گندم کی پیداوار کم ہو جائے گا، لیکن چونکہ گندم ایک اہم فصل ہے کاشت کاروں کے لیے، تو وہ اس کی کاشت پر طرح طرح سے متاثر ہوئے، جس کا اثر باقی فصلوں پر بھی آیا۔‘
’کپاس کی پیدوار کم ہوا اور پیداوار کم ہو گئی، چاول کی پیداوار کم ہوئی، چنے کی بھی کم ہوئی اور پیداوار بھی کم ہوئی، اور یہ پاکستانی معیشت کے لیے کوئی اچھے آثار نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’زراعت ایک ایسی چیز ہے جس کے اندر سپورٹ پرائس کا نظام جب تک متعارف نہیں کروائیں گے، تب تک پیداوار میں اضافہ مشکل ہو جائے گا۔
’اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ گندم کی کمی کتنی زیادہ ہے۔ پچھلے سال بمپر فصل ہوئی تھی، اس سال پیداوار گذشتہ برس سے تقریباً آٹھ فیصد کم ہے۔ زیادہ اثر کپاس پر ہوا، اس کی پیداور 21 فیصد کم ہو گئی ہے۔ اسی طرح چاول ہے، شاید وہ ہماری ضرورت کے لیے تو کافی ہو گا، لیکن یہ ایک ایسی فصل ہے جسے ہم برآمد کرتے ہیں، اس لیے اس میں کمی سے ہماری برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔‘
ڈاکٹر فہد کے مطابق: ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گندم چونکہ کاشت کار کے لیے ایک بہت اہم فصل ہے اور سب سے بڑا آمدنی کا ذریعہ بھی، یہاں سے جو پیسہ آتا ہے، کاشت کار اسے باقی فصلوں کو کاشت کرنے میں لگاتا ہے۔ ہم نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر جو سپورٹ پرائس کم کی ہے، یہ کوئی بہت اچھا فیصلہ نہیں ہے، اور اس کے دور رس نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
’اس لیے ہمیں کسی نہ کسی طرح بات چیت کر کے اس میں تبدیلی لانی ہو گی، تاکہ ہماری فصلوں کی پیداوار بہتر ہو سکے۔‘