بارسلونا کے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور: شاعر، ڈاکٹر، گلوکار

پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور سپین کے شہر بارسلونا میں پاکستانی کمیونٹی کا ہراول دستہ ہیں۔

(اے ایف پی)

پڑھے لکھے پاکستانیوں کی سب سے بڑی اور پڑھی لکھی تعداد اِس دشتِ گُماں، شہر بارسلونا میں جس سیکٹر سے تعلق رکھتی ہے وہ یہاں پر ٹیکسی سیکٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

اِس سیکٹر میں کام کرنے والوں کی علمی نوعیّت ایسی ویسی نہیں۔ ایسے اِس لیے نہیں کہ ہسپانوی اور کاتالان زبان کے امتحانات پاس کرنے کے بعد یہ احباب ٹیکسی کے اصول و ضوابط، شاہراہیں ناپنے کا علم، بِل پاس کرنے کا طریقہ، سوار اور سواری کے آداب و فرائض ازبر کر کے سیکٹر کا حصہ بنتے ہیں۔

سیکٹر میں آنے کے بعد زبان میں ترقی کرتے جاتے ہیں، چنانچہ ہسپانوی روایات، ثقافت، رنگ برنگے تہوار، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کر میلے ٹھیلوں کے علوم تک ان کی رسائی براہ راست ہوجاتی ہے۔

زبان پہ عبور حاصل ہوا تو سیکٹر کے اندر سیاست اور باہر سیاحت کو فروغ ملا۔ اندرونی سیاست پہلے پہل پاکستانی طرز پر شروع ہوئی پھر پاکستانی ہسپانوی امتزاج اپناتے ہوئے اُس مقام تک پہنچی کہ بارسلونا میں سی جی صاحب کو کہنا پڑا کہ پاکستانی ٹیکسی سیکٹر پاکستانی برادری اِن بارسلونا کا ہراول دستہ ہے۔

سی جی صاحب کون ہیں؟ فی الحال اتنا ہے کہ قونصل جنرل آف پاکستان جن کے خواصِ خمسہ اور اجزائے ترکیبی پہ کبھی الگ مضمون باندھا جائے گا۔ کیوں کہا، یہ اس مضمون میں قارئین پڑھ لیں گے۔

اب بات ہو جائے بیان کی تو عرضِ حال یہ ہے کہ نثر نگار اور شعرا تک اس سیکٹر میں موجود ہیں۔ مضامین نویسی اور حالاتِ حاضرہ پر تبصروں سے لے کر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ۔

اب سّید شیراز کا ’چاند نگر کا تارا‘ ہو جس کی داد وہ بڑے افسانہ لکھنے والوں سے وصول کر چُکے ہیں یا فلسفہ کا دشت ہو جس کی نوردی بلکہ آوارہ گردی میں فیاض ملک نے وقت برباد کیا۔

دو سال قبل جب ہماری کتاب ’دشتِ گماں‘ جو ایک تارکِ وطن کی آنکھ سے تارکینِ وطن کا حال دیکھا، اُس سے متعلق ہے اور بقول فیاض ملک شاید بارسلونا کی پہلی تاریخ ہے، ہمارا دڑلا موصوف نے اُس وقت نکالا جب غالب کی ایک غزل کا اپنے موبائل پر تِیا پانچا فرما رہے تھےعروض سیکھنے کی غرض سے۔

پھر اُن کی بارسلونا دیاں شاناں اور لا رمبلہ روال کا بِلا بہت مشہور ہوئیں۔ سیّد شیراز نے بھی شاعری میں ’گھبرانا نہیں‘ کا تڑکا لگا کر محافل لُوٹیں۔ فیاض اردو زبان کے آن لائن دیا ٹی وی میں ہیڈ ماسٹر نما شخصیّت ہیں مگر خود کو سیّد شیراز کی طرح کہلواتے ’تاکسیستا‘ (ٹیکسی ڈرائیور) ہیں کہ دونوں ٹیکسی سیکٹر کا متحرک چہرہ ہیں اور بارسلونا کے ادبی ماحول کے ’پندار کا صنم کدہ‘ آباد کیے ہوئے ہیں۔

بوں یہاں پر پروفیسر طاہر اعظم صاحب ہیں جن سے غالب و شیکسپیئر اگلی ملاقات کا واسطہ دے کر چُھڑوانا پڑتا ہے۔ اس احقر پر اُن کی نظر اور دستِ خاص ہے۔ افضال احمد بیدار، ڈاکٹر ارم بتُول ہیں، ارشد نذیر ساحل ہیں اور ان ہی شعرا کی فہرست میں اردو پنجابی شاعر اپنے شیخِ بارسلونا شیخ آفتاب صاحب ہیں پھر بُلھے دے پنجاب والا پنجابی شاعر ارشد اعوان ہے۔ مضمون نگاری میں ڈاکٹر انعام حسین شاہ صاحب ہیں جن کے مضامین بادلوں سے 35 ہزار فُٹ کی بُلندی پر سفر کرتے قاری کے ذہن میں لینڈ کر جاتے ہیں، شاہ جی اُچے بندے نیں مگر ہمارے ساتھ دل کو دل سے راہ والا معاملہ ہے۔

ٹیکسی سیکٹر میں غزل اور گیت گائیک ایسے ہیں کہ محافل میں ہونا لازم ہے۔ جناب قدیر خان صاحب اصل میں بڑے گلوکار ہیں اوربارسلونا کی رنگین شاموں کے ذمہ دار مگر کہلواتے وہ بھی ’تاکسیستا‘ (ٹیکسی ڈرائیور) ہیں۔ کہتے ہیں کہ اُن کے سُروں میں اصل قصور وار ریاض ہے مگر یہ ریاض اتنا رگڑا کھا چُکا ہے کہ ہمارا کہنا ہے کہ بندے کی اپنی قابلیّت اصل ہے مگر خان صاحب مانے نہیں دیتے۔

پاکستانی جہاں پائے جاتے ہیں چاہے جیلیں ہوں یا میلے ہوں، تقاریب ہوں، عاشُور ہو یا مذہبی محافل، ہر جگہ قدیر خان صاحب اپنی آوازسے اہلِ دشت گُماں کو اپنا گرویدہ کر چُکے ہیں۔

پاکستانی کمیونٹی کی نیک نامی سے لے کر پاکستان کی مدد کرنے تک ٹیکسی سیکٹر پیش پیش ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کی ڈیم بناؤ اپیل پر 80 ہزار سے زائد یورو تین گھنٹے میں اکٹھا کر کے پاکستان بھجوائے جا چُکے ہیں جن کی رسیدیں گاہے بگاہے سید شیراز فیس بُک پر ’چسپاں‘ کرتے رہتے ہیں۔

فیاض اور شیراز سے ہماری قُربت ہے اور رقابت کی حد سے ڈیڑھ دو انچ اِدھر تک ہے کہ بندہ چِٹا رقیب بھی بُرا ہی لگتا ہے۔ پاکستانی ثقافت، ہسپانوی سیاست کو قلم کی نوک پر بزبان اُردو رکھنا مُشکل کام ہے مگر یہ احباب بااحسن نبھا رہے ہیں۔

ہم نے میلوں میں جانا صرف اِس لیے چھوڑا کہ جاتے ہم ہیں لُوٹ کر یہ احباب لے جاتے ہیں۔ اب لُوٹا ہوا مال برآمد کیسے ہوتا ہے اُس چکر میں پڑنے کی بجائے بہتر ہے ٹھیلے کی تیاری کی جائے تاکہ کُچھ سنجیدہ بلکہ رنجیدہ بزنس ہی ہاتھ آ جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ