جب ’بیٹا‘ کے اہم کردار کے لیے ارونا ایرانی کی سفارش کی گئی

کردار منفی تھا اس لیے ارونا ایرانی سمیت تقریباً سبھی سینیئر اداکاراؤں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

فلم ’بیٹا‘ ایک تمل فلم کا ری میک تھی جس نے باکس آفس پر دھوم مچا دی (ماروتی انٹرنیشنل)

 ہدایت کار اندر کمار کو بڑی بہن ارونا ایرانی سے یہ توقع نہیں تھی جنہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ بھائی کی پہلی فلم ’بیٹا‘ میں کم از کم وہ کردار تو ادا نہیں کریں گی جس کی پیش کش کی جا رہی ہے۔

اندر کمار نے ارونا ایرانی کو ’بیٹا‘ میں انوپم کھیر کی اہلیہ کے کردار کی پیش کش کی تھی جسے یکسر ٹھکرا کر ارونا ایرانی نے لکشمی کے کردار کو ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی۔

یہ کردار سوتیلی ماں اور پھر دوسرے ہاف میں ساس کا بنتا ہے، مگر اندر کمار نے معذرت کر لی۔ اب یہی وجہ ہے کہ ارونا ایرانی نے کہہ دیا کہ پھر ان کی جانب سے بھی معذرت قبول کی جائے۔

ارونا ایرانی نے انتہائی بےرخی اور بےمروتی سے اندر کمار کو یہ جواب دیا تھا جبھی ان کا دل ٹوٹ گیا۔ اندر کمار ’بیٹا‘ فلم سے پہلے محبت اور قسم جیسی فلم کے پروڈیوسر رہے تھے اور جاوید اختر کے مشورے پر اب ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھنے جا رہے تھے۔

90 کی دہائی کی بالی وڈ فلم ’بیٹا‘ دراصل 1987 میں آنے والی تمل فلم کا ری میک تھا جس کے ہندی زبان کے رائٹس بونی کپور نے خرید لیے تھے۔

جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ اندر کمار ہدایت کار بننے کے لیے پرتول رہے ہیں تو انہوں نے یہ رائٹس بلامعاوضہ اندر کمار کو دے دیے۔

شرط یہی تھی کہ ہیرو کوئی اور نہیں ان کے بھائی انیل کپور ہوں گے۔ یہ اتفاق ہی ہے کہ اندر کمار نے اب تک جو فلمیں ’محبت‘ اور ’قسم‘ بنائی تھیں، ان کے ہیرو بھی انیل کپور تھے۔ اسی لیے ان کے ساتھ اندر کمار کی زبردست ذہنی ہم آہنگی تھی۔

ہیروئن کے لیے پہلے سری دیوی کا انتخاب کیا گیا لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر انہوں نے فلم سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان کی جگہ مادھوری ڈکشٹ کو ہیروئن بنایا گیا۔

اندر کمار کے ’بیٹا‘ کی کہانی کیا تھی؟

اندر کمار کی’بیٹا‘ کی کہانی سوتیلی ماں اور اس کی باتوں پر آنکھ بند کر کے بھروسے کرنے والے بیٹے کے گرد گھومتی تھی، جسے سوتیلی ماں نے جان بوجھ کر ان پڑھ رہنے دیا تاکہ اس کی دور تک پھیلی جائیداد اور مال دولت پر وہ اپنی من مانی کرتی رہے۔

اب ایسے میں اس بیٹے کی زندگی میں تعلیم یافتہ بیوی آتی ہے جو ساس کی ساری چالاکیاں اور داؤ پیچ سمجھ جاتی ہے۔ اب یہاں سے ساس اور بہو کی جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔

درحقیقت ساس اور بہو کی گھریلو سیاست پرہی ’بیٹا‘ کی کہانی گھوم رہی تھی۔

منفی کردار ہونے پر کئی اداکاراؤں کی معذرت

اب مادھوری ڈکشٹ کے مقابلے پر اندر کمار کی آرزو تھی کہ کسی منجھی ہوئی اداکارہ کو شامل کریں۔

یہی وجہ ہے کہ اندر کمار نے بذات خود اور پھر قریبی فلمی شخصیات کے ذریعے وحیدہ رحمان، شرمیلا ٹیگور، مالا سنہا اور ہیما مالنی تک سے رابطہ کیا لیکن ہر اداکارہ کی جانب سے انکار کر دیا گیا۔

وجہ صرف یہ تھی کہ کوئی بھی منفی نوعیت کے اس کردار کو ادا کرکے اپنے کیریئر کو داؤ پر نہیں لگانا چاہتا تھا۔ اب یہ بات مشہور ہو چکی تھی کہ اندر کمار کو اہم ترین کردار کے لیے کوئی اداکارہ نہیں مل رہی۔

اب ایسے میں بہن نے بھی فلم میں کام کرنے سے منع کر دیا تو اندر کمار کو اپنا ہدایت کار بننے کا سپنا بکھرتا ہوا محسوس ہوا۔

اندر کمار، ارونا ایرانی کو ساس والا کردار دینے سے اس لیے کترا رہے تھے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب ارونا ایرانی، شکتی کپور، اسرانی اور قادر خان کی ایک ٹیم بنی ہوئی تھی.

یہ چاروں کے چاروں ہر مزاحیہ فلم میں کام کرتے یا پھر کسی اور تخلیق کا حصہ ہوتے اور فلم کے بوجھل ٹیمپو کو اپنی کامیڈی سے خوشگوار کرنے کی کوشش کرتے۔

اندر کمار کو یہ ڈر تھا کہ ارونا ایرانی کا یہ امیج ان کی فلم کو تباہ برباد نہ کر دے۔

جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کا سفارشی فون

گھر پہنچ کر وہ سوچ بچار میں ہی مصروف تھے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب جاوید اختر تھے۔

حال احوال کے بعد ان کا کہنا تھا کہ بھئی تم ارونا کو کیوں اس کردار کے لیے سائن نہیں کر رہے؟

اس سے پہلے اندر کمار کوئی جواب دیتے، جاوید اختر سے ریسیور شبانہ اعظمی نے لے لیا اور کم و بیش ڈانتے ہوئے کہا کہ اگر ارونا کو ساس والے کردار میں شامل نہیں کیا تو یہ اندر کمار کی بہت بڑی غلطی ہو گی۔

اندر کمار نے وعدہ کر ہی لیا کہ وہ وہی کریں گے جو جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کہہ رہی ہیں۔ انہیں احساس ہوا کہ اگر دو بڑی فلمی شخصیات ایک ہی بات کر رہی ہیں تو یقینی طور پر اس میں کچھ وزن ہو گا۔

فون بند کرنے کے بعد اندر کمار عجیب شش و پنج کا شکار تھے۔ اندر ہی اندر جھینپ رہے تھے کہ اب کیسے بہن سے سامنے کریں گے۔

ارونا ایرانی سے ملے اور ان کے مطلوبہ کردار کی پیش کش کو قبول کیا تو اب یہاں ارونا ایرانی نے اپنے نخرے دکھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ گھر کے لوگ دوسروں کے کہنے پر انہیں فلم میں شامل کریں گے تو اس کا تو یہی مطلب ہوا کہ انہوں نے ساری عمر جھک ہی ماری ہے۔ بہرحال وہ راضی ہو ہی گئیں۔

اندر کمار کی پہلی فلم سے پہلے دوسری فلم ہٹ

اب فلم کی عکس بندی کا آغاز ہوا۔ اسی دوران اندر کمار کو ایک اور فلم ’دل‘ کی ہدایت کاری کا موقع ملا۔

عامر خان اور مادھوری ڈکشٹ کی اس میوزیکل فلم میں اندر کمار کی دلچسپی کچھ زیادہ ہو گئی۔ ہوا کچھ یوں جو فلم ’بیٹا‘ پہلے شروع ہوئی تھی، وہ تعطل کا شکار ہو گئی اور ’دل‘ سینیما گھروں میں سج کر سپر ہٹ ہو گئی۔

چاروں طرف اندر کمار کا بطور ہدایت کار ڈنکا بجنے لگا۔ ’دل‘ کی کامیابی کے بعد اندر کمار نے فلم ’بیٹا‘ پر توجہ دینا شروع کی جو ان کے کیریئر کی پہلی فلم بنتے بنتے رہ گئی تھی۔

ارونا ایرانی سب پر بازی لے گئیں

اور آخر کار 1992 کا وہ اپریل آ ہی گیا جب ’بیٹا‘ بھی پرستاروں کے لیے پیش کر دی گئی۔

یہ وہی سال تھا جب ’بیٹا‘ کے علاوہ ’خدا گواہ،‘ ’جو جیتا وہی سکندر،‘ ’راجو بن گیا جنٹلمین‘ اور ’دیوانہ‘ جیسی تہلکہ خیز فلمیں سینیما گھروں میں لگائی گئیں لیکن ان سب کے درمیان ’بیٹا‘ کی چاروں طرف دھوم مچی تھی۔

ہر ایک کی زبان پر ارونا ایرانی کی اداکاری کا چرچا تھا جنہوں نے اس منفی کردار میں حقیقت کے رنگ بھر دیے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری فلم میں ارونا ایرانی کے مکالمات انتہائی کم تھے لیکن انہوں نے چہرے اور آنکھوں کے تاثرات سے ایسی اداکاری دکھائی کہ یہ کردار امر ہو گیا۔

جہاں جہاں ارونا ایرانی کے مکالمات نہیں تھے وہاں ان کی آنکھوں اور چہرے نے دل کا حال بیان کیا۔

ہر کوئی دنگ رہ گیا کہ وہ اداکارہ جو قادر خان، اسرانی اور شکتی کپور کے ساتھ مزاحیہ اداکاری کرتی آ رہی ہے، اس نے اس کردار کو ایسے ادا کیا کہ جیسے یہ صرف ان کے لیے ہی تھا۔

وہ مکالمات جو دل میں ادا کیے گئے

 ارونا ایرانی کا کہنا تھا کہ جہاں جہاں فلم میں ان کے مکالمات نہیں تھے اور وہاں انہوں نے نفرت اور زہریلے مکالمات خود ہی بنائے اور انہیں دل ہی دل میں ادا کرتی رہیں جس کی وجہ سے ان کے چہرے کے تاثرات بھی مکالمات کے مطابق بدلتے گئے۔

گو کہ ارونا ایرانی کے مقابل مادھوری ڈکشٹ تھیں لیکن اس کے باوجود کئی مناظر میں ارونا ایرانی کا پلڑا ہی بھاری رہا۔ بالخصوص کلائمکس میں جب انیل کپور، سوتیلی ماں یعنی ارونا ایرانی کا دیا ہوا زہر پی لیتے ہیں۔

اس منظر میں ارونا ایرانی کے مکالمات نہ ہونے کے برابر تھے لیکن ان کی آنکھوں کی نفرت اور چہرے کے تاثرات نے وہ کام کر دکھایا کہ آج بھی یہ منظر فلم کی جان تصور کیا جاتا ہے۔

دھک دھک گرل کی کامیابی

اندر کمار نے دو سال کے عرصے میں ’دل‘ کے بعد ’بیٹا‘ کے ذریعے ایک اور بلاک بلاسٹر فلم پیش کر دی تھی۔ کمائی کے اعتبار سے ’بیٹا‘ نے دیگر سبھی فلموں کو پچھاڑ دیا۔

فلم کے گانوں نے بھی دھوم مچائی بلکہ ’دھک دھک کرنے لگا‘ پر مادھوری ڈکشٹ کے ہوشربا رقص پر واویلا بھی مچا۔ بہرحال اسی گیت کی بدولت مادھوری ڈکشٹ کو ’دھک دھک گرل‘ کا ٹائٹل بھی ملا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایوارڈز کے لیے نو نامزدگیاں

اگلے سال جب فلم فیئر ایوارڈز ہوئے تو ’بیٹا‘ کی مختلف شعبوں میں نو نامزدگیاں ہوئیں۔ انیل کپو ر اور مادھوری ڈکشٹ کو بہترین اداکار اور اداکارہ کا اعزاز ملا.

جبکہ جس گانے یعنی ’دھک دھک کرنے لگا‘ پر اعتراض ہوا تھا، اسے گانے پر انورادھا پوڈول کو بہترین گلوکارہ اور اسی گیت کی کوری گرافری پر سروج خان کو بہترین ڈانسر کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نفرت سے بھری سوتیلی ماں جو فلم کے کلائمکس میں رشتوں کی قدر جان جاتی ہے اوراس کردار کو اس کے تمام ترفنی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر ارونا ایرانی کو بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ ملا۔

اندر کمار کے لیے تو ’بیٹا‘ ایک لاٹری ثابت ہوئی جس کے بعد انہوں نے کئی اور کامیاب فلموں کی ہدایت کاری دی.

 لیکن یہ ضرور ہے کہ ارونا ایرانی جنہیں باصلاحیت ہوتے ہوئے بھی یہ کردار جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کی سفارش سے ہی ملا۔ یہی وہ کردار ہے جس نے ارونا ایرانی کو ہر فن مولا فنکارہ ثابت کرا دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ