کیا کراچی ٹیسٹ نتیجہ خیز ثابت ہوسکے گا؟

نیشنل اسٹیڈیم کی وکٹ اگرچہ بیٹنگ وکٹ ہے لیکن ریورس سوئنگ کے لیے بھی آئیڈیل ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان سری لنکا سیریز کا دوسرا اور آخری ٹیسٹ جمعرات سے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں شروع ہوگا۔ یہ پینتیسواں ٹیسٹ ہو گا جو کراچی میں کھیلا جائے گا۔ اس سے قبل سترہ میچوں میں پاکستان فتح حاصل کرچکا ہے جب کہ واحد شکست اسے انگلینڈ کے خلاف ہوئی جب میچ کا فیصلہ تقریباً اندھیرے میں ہوا تھا۔ 

کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم نے آخری بار ٹیسٹ کرکٹ کی میزبانی سری لنکا کے خلاف ہی کی تھی جب یونس خان نے شاندار ٹریپل سنچری بنائی تھی۔ ٹیسٹ تو اگرچہ ڈرا ہوگیا تھا لیکن یونس کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔  گزشتہ دس سال سے ٹیسٹ کرکٹ نہ ہونے کے باعث گراؤنڈ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی البتہ گذشتہ پی ایس ایل کے فائنل سے پہلے کچھ رنگ روپ سنوارنے کی کوشش کی گئی تاکہ ٹی وی اسکرین پر جب گراؤنڈ دکھایاجائے تو رنگ برنگ نظر آئے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اسٹینڈز کی حالت جوں کی توں ہے۔ جنرل اسٹینڈ میں نشستیں کسی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کی مانند ہیں اور چاروں طرف چوہوں کی آماجگاہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی سی بی کی غفلت کے باعث کرکٹ کی تاریخ میں کئی معرکتہ الآرا ٹیسٹ میچوں کی میزبانی کرنے والا کراچی شہر اپنے دامن میں محض ایک آثار قدیمہ کا شاہکار نیشنل اسٹیڈیم لیے ہوئے ہے جس کو اگر یونیورسٹی روڈ کی طرف سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اب گرا کہ تب گرا۔ پھر ان بے رنگ و بے نور دیواروں کے سائے میں کتنے تماشائی اس ٹیسٹ کو دیکھیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیوں کہ اب تک چند سو ٹکٹ ہی فروخت ہوسکے ہیں۔

پاکستان کے کوچ اور سلیکٹر مصباح الحق نے آخری ٹیسٹ میں بھی فواد عالم کی شمولیت کے حوالے سے کوئی نوید دینے سے انکار کیا ہے اور مصر ہیں کہ حارث سہیل ہی کھیلیں گے کیوں کہ وہ وننگ کمبینیشن خراب نہیں کرنا چاہتے۔ اگرچہ ٹیم نے راولپنڈی سے قبل پچھلے پانچ ٹیسٹ مسلسل ہارے ہیں اور حارث سہیل کو آسٹریلیا میں ڈراپ کیا گیا تھا لیکن اچانک پھر سے کھلا دیا گیا۔

مصباح کی حکمت عملی کسی کلب کرکٹ کوچ سے بھی کمتر نظر آتی ہے۔ راولپنڈی میں چار فاسٹ بالروں کی شمولیت پر پہلے ہی وہ تضحیک کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اپنی خفت کو چھپانے کے لیے انھوں نے محمد عامر اور وہاب ریاض کو تنقید کا نشانہ بنایا جنھوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔

کراچی میں بھی وکٹ سلو ہی ہوگی لیکن سمندری ہوا کے باعث یہاں ریورس سوئنگ ضرور ہوتی ہے اور ماضی میں وقار یونس اور وسیم اکرم خاصے کامیاب رہے ہیں۔ لیکن، آج پاکستان ٹیم میں ریورس سوئنگ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا کوئی باؤلر نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے بری خبر ہے کہ عثمان شنواری بخار اور انفیکشن میں مبتلا ہوکر باہر ہوچکے ہیں اس لیے پاکستان یاسر شاہ کو شامل کرے گا جبکہ بقیہ ٹیم وہی رہے گی جس نے راولپنڈی ٹیسٹ کھیلا تھا۔

سری لنکا بھی راجیتھا سے محروم رہے گاجو مکمل فٹ نہیں ہیں۔ سری لنکا ممکن ہے اسپنر سنداکان کو ڈیبیو کروائے جو کراچی میں موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ سری لنکا کی اصل پریشانی مڈل آرڈر کی ناکامی ہے جہاں چندی مل اور میتھیوز اسکور نہیں کرپا رہے ہیں۔ 

دونوں ٹیمیں بظاہر ہم پلہ اور متوازن نظر آتی ہیں لیکن اگر پاکستان نے گرین وکٹ بنوائی تو پاکستان کو زیادہ چانسز حاصل ہوں گے کہ میچ کا فیصلہ اپنے حق میں کروا سکے۔ لیکن مصباح سے آپ ایک ڈرا ٹیسٹ کی ہی امید رکھیے کیوں کہ وہ کبھی بھی رسک نہیں لیتے۔

کیا کراچی ٹیسٹ نتیجہ خیز ثابت ہوسکے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب میچ کے پہلے دن ہی مل جائے گا کیونکہ پاکستان ٹیم اگر پہلا دن خراب کھیلے تو بقیہ چار دن دباؤ میں رہتی ہے۔

کراچی میں دس سال کے بعد کرکٹ کی واپسی ایک تاریخی لمحہ ہے مگر پی سی بی اور کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن میں رابطے کے فقدان نے اس کو زیادہ اجاگر نہیں کیا ہے۔ نہ کوئی بل بورڈ نہ کوئی شور اور نہ کوئی جوش وخروش، اور پھر فواد عالم کو ڈراپ کرنے پر کراچی والے سخت غصے میں بھی ہیں تو ممکن ہے کہ ٹیسٹ کا بائیکاٹ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔

فواد عالم شاید پاکستان کرکٹ تاریخ کا سب سے بد قسمت کھلاڑی ہے جسے توصیف احمد اور وسیم حیدر جیسے سلیکٹروں کی وجہ سے یا انا پرست انضمام الحق جیسے لوگوں نے ٹیم میں آنے نہیں دیا، مصباح بھی انھی راہوں پر چل رہے ہیں۔

بہر حال مصباح نیازی ایک اور نیازی کی پسند ہیں اس لیے کراچی والوں کو فی الحال نیازیوں پر ہی اکتفا کرنا ہوگا اور جیسی تیسی کرکٹ مل رہی ہے اس کو غنیمت سمجھنا ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ