بھارتی طیارے کے اغوا کے 20 سال: پراسرار گاڑی کس کی تھی؟

24 دسمبر 1999 کو نیپال سے چار مسلح افراد نے 180 مسافروں سے بھرے انڈین ایئر لائن کے طیارے کو اغوا کر لیا۔ امرتسر، لاہور اور دبئی سے ہوتے ہوئے اسے بالآخر افغانستان کے شہر قندہار میں اتارا گیا جہاں یہ اگلے آٹھ دن کھڑا رہا۔

طیارے کے اغوا کے وقت افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی (اے ایف پی)

آج اس واقعے کو 20 سال گزر چکے ہیں۔ ایک سرد اور خشک شام مزید سرد اور اندھیری ہونے سے کچھ دیر قبل قندہار کے ہوائی اڈے سے شہر جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کچھ اشیا ضرورت چاہیے تھیں، لیکن ہوائی اڈے سے باہر نکلا تو دھول اڑاتی سنسان سڑک پر کوئی ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں تھی۔

یہ واقعہ ہے 1999 کا جب انڈین ایئر لائن کا ایک طیارہ اغوا کر قندہار اتار لیا گیا تھا اور پھر بھارتی حکومت اور ہائی جیکروں کے درمیان مول تول سے مولانا مسعود اظہر کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ میں اسی اغوا کی خبریں کور کرنے کے لیے بی بی سی کی جانب سے قندہار میں موجود تھا۔ 

کوئٹہ سے قندہار شاہراہ پر پہلے قندہار کا بین الاقوامی ہوائی اڈا آتا ہے اور پھر 20 کلومیٹر کی دوری پر یہ تاریخی شہر آباد ہے۔ ایئرپورٹ کا صدر دروازہ تو اس شاہراہ پر ہے ہی لیکن رن وے بھی سڑک سے تھوڑی ہی دوری سے شروع ہوتا تھا۔ اگر کسی نے پشاور کے ہوائی اڈے کا رن وے دیکھا ہو تو اسے قندہار کے ہوائی اڈے کا نقشہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔

قندہار کے ہوائی اڈے کے گیٹ سے دو قدم آگے سڑک پار کی  تو وہاں ایک سفید پجیرو پہلے سے کھڑی دیکھی۔ لیکن نہ کوئی اس میں سے اتر رہا تھا اور نہ چڑھ۔ بس وہ وہیں پراسرار انداز میں کھڑی رہی۔ اس میں موجود تین افراد نے مجھے میرے تھکا دینے والے انتظار کے دوران دیکھ لیا تھا۔ شام ہونے والی تھی۔ اچانک گاڑی سٹارٹ ہوئی اور دو قدم آگے بڑھی اور پھر رک گئی۔

’شہر جانا ہے؟‘ گاڑی کی اگلی نشت پر بیٹھے ایک شخص نے شیشہ نیچے کرتے ہوئے اردو میں پوچھا۔ میں نے سر اثبات میں ہلا دیا اور دیکھنے لگا۔ ’آ جاؤ، ہم بھی ادھر ہی جا رہے ہیں۔‘

ایسی پیشکش کون ٹھکرا سکتا تھا۔ میں جھپٹ کر گاڑی کی پچھلی خالی نشت پر بیٹھ گیا۔ تقریباً آدھ گھنٹے کی گپ شپ میں اندازہ کرنا مشکل تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ لیکن پجیرو کی پچھلے حصے میں مواصلات کے کچھ آلے ضرور دکھائی دیے۔ نہ ان افراد نے اپنا تعارف کروایا اور نہ ہی میں نے ان سے ان کا حدودِ اربعہ پوچھا، لیکن انہوں نے مجھے میرے حلیے کی وجہ سے ضرور پہچان لیا کہ بندہ صحافی ہے۔ گاڑی پر کوئی نمبر پلیٹ بھی نہ تھی لیکن جتنی صاف ستھری تھی لگتا تھا کہ کسی سفارت خانے کی ہے۔ گفتگو تعارف سے زیادہ آگے نہیں بڑھی۔ قندہار پہنچ کر انہوں نے بس اتنا پوچھا کہ کہاں اترنا ہے اور وہیں اتار دیا گیا۔

بعد میں اندازہ ہوا کہ شاید یہ لوگ رن وے پر ایک ہفتے سے کھڑے انڈین ایئرلائن آئی سی 184 سے رابطے میں رہتے تھے۔ یہیں سے شاید ہائی جیکروں کو ہدایات ملتی تھیں۔ طیارے کے منہ کا رخ بھی آٹھ دن تک اسی سڑک پار گاڑی کی جانب رہا۔ سوال آج تک ہی ذہن میں ہے کہ وہ کون تھے؟ حلیے اور گفتگو سے اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن تھے بھارت اور پاکستان سے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

24 دسمبر 1999 کو نیپال سے چار مسلح افراد نے 180 مسافروں سے بھرے انڈین ایئر لائن کے اس طیارے کو اغوا کر لیا تھا۔ امرتسر، لاہور اور دبئی سے ہوتے ہوئے اسے افغانستان کے شہر قندہار میں بلآخر اتارا گیا۔ اگلے آٹھ دن یہ وہیں قندہار کے ٹرمنیل کے سامنے رن وے پر کھڑا رہا۔

میں اس بین الاقوامی اہمیت کی خبر کی کوریج کے لیے کوئٹہ سے آئے ہوئے صحافیوں کے جتھے کا حصہ تھا۔ نہ ویزے کی ضرورت تھی نہ کسی ٹکٹ کی۔ گاڑی کی اور روانہ ہوگئے۔ اندازہ بھی نہ تھا کہ کیا یہ طیارہ ہماری قندہار تک چھ گھنٹے کی مسافت تک رکا رہے گا یا نہیں۔ نہ اضافی کپڑے تھے اور نہ شیونگ کٹ یا ٹوتھ پیسٹ۔ بس ٹیپ ریکارڈ اور سٹل کیمرہ اٹھایا اور بھاگ پڑے۔

ایئر پورٹ کے مین گیٹ پر آمد کے وقت طالبان نے روک لیا۔ گیٹ کے ایک کونے میں زمین پر چابی سے چلنے والے پرانے روسی ٹیلیفون پر محافظ اندر کسی سینیئر اہلکار سے بات کرتا اور انتظار کا کہہ دیتا۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد اندر جانے دیا گیا۔

ٹرمینل کی چھوٹی سی عمارت کے برآمدے سے طیارہ سامنے دکھائی دیا تو جان میں جان آئی کہ ابھی یہیں ہیں کہیں اور نہیں گیا۔ بس پھر اگلنے آٹھ سرد دن اسی کو دیکھتے گزرے۔ طیارے کا دروازہ دوسری جانب تھا لہٰذا اس میں سے تو کچھ کبھی دکھائی نہیں دیا لیکن سائیکل پر سوار طالبان اہلکار اس کے قریب آتے جاتے دیکھے جا سکتے تھے۔ کسی رن وے پر دوڑتی سائیکل پہلی اور آخری مرتبہ یہیں دیکھی۔

رات ہوئی تو نہ سونے کا کوئی بندوبست تھا نہ کھانے پینے کا۔ پہلی رات بھوکے ہی ٹھنڈے چپس والے فرش پر سونا پڑا لیکن دوسرے روز سے حالات میں بہتری آئی۔ طالبان نے یرغمال مسافروں اور عملے کے 11 اراکین کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی شاپر بیگ میں ایک چکن پیس اور افغانی روٹی کے ساتھ پیش کرنا شروع کر دیا۔ باقی سب نے تو خوب مزے لے کر کھایا لیکن مسافروں کی جانب سے شکایت سامنے آئی کہ وہ سب تو سبزی خور ہیں اور گوشت نہیں کھاتے۔ طالبان نے تو اپنی جانب سے مہمان نوازی کی خاطر چکن دیا لیکن مسافروں کو کوئی زیادہ پسند نہیں آیا۔ پھر چند دنوں بعد اطلاع ملی کہ قندہار میں ڈھائی سو افراد کے لیے روزانہ دو وقت کا کھانا اتنا پکا کہ مقامی بازار میں چکن کی قلت ہو گئی۔

ایئرپورٹ پر قیام کے دوران اکثر طالبان ہمیں آتے جاتے ایسے گھورتے تھے جیسے کہ ہم کسی دوسری سیارے سے آئے تھے۔ ان میں سے ایک اس وقت کے طالبان کے سول ایوی ایشن کے کمانڈر ملا اختر منصور بھی تھے۔ وہ اپنی ڈبل کیبن گاڑی میں مسلح حالت میں ہمارے اردگرد گھومتے رہتے تھے۔ شاید مقصد ہماری حفاظت یا ہم پر نظر رکھنا ہوتا تھا۔

رہائی کے بعد چند مسافروں نے بعد میں بتایا کہ نیپال سے قندہار تک کے سفر میں انہیں نہ بتایا گیا اور نہ اس بات کا اندازہ تھا کہ وہ کس شہر میں ہیں۔ انہیں افغانستان میں موجود ہونے کا اندازہ پانی کے افغان فضائی کمپنی آریانہ کے گلاس پر لکھی عبارت پڑھ کر ہوا تھا۔

افغانستان اس وقت بھی حالت جنگ میں تھا اور کلاشنکوفوں سے بھرے جنگی طیارے ہی بس اس ہوائی اڈے پر کبھی کبھی پرواز بھرتے تھے۔ تمام دن دسمبر کی دھوپ سینکنے یا طالبان کے اس وقت کے وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل کی بریفنگ میں گزر جاتے تھے۔ غیرملکی صحافی یہی اندازے لگاتے رہتے کہ چلو کرسمس تو یہیں گزرے گا لیکن کیا نیو ایئر بھی یہیں گزارنا پڑے گا؟

خدا خدا کر کے سال کے آخری روز خبر آئی کہ بھارت ہائی جیکروں کے مطالبات ماننے کو تیار ہو گیا ہے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ ایک طیارے میں دہلی سے مولانا مسعود اظہر سمیت دو دیگر عسکریت پسندوں کو جیلوں سے نکال کر کے قندہار لے آئے۔ ان کے بدلے مسافروں کو آزاد کر دیا گیا اور وہ دوسرے طیارے میں واپس بھارت چلے گئے۔

بعد میں کئی مرتبہ پاکستانی اور بھارتی حکام سے اس پراسرا گاڑی کے بارے میں پوچھا لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ ملا۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی