بارسلونا کے اردو شاعر

پاکستانی کمیونٹی کے دامن میں بھرے چند ادبی ستاروں کا احوال۔

ارشد نذیر ساحل کی شاعری سے محبت چھلکتی ہے  (عرفان مجید راجہ)

اس شہر میں جہاں پاکستانیوں نے سماجیات اور کاروبار میں اپنے آپ کو منوایا وہاں اہلِ ادب و سُخن کا کردار سب سے بڑھ کر خوبصورت ہے۔ مگر ان سے بھی زیادہ وہ لوگ مبارک ہیں جو اس وقت بھی ایسی محافل کا انعقاد کیا کرتے تھے جب پاکستانی یہاں پر مٹھی برابر تھے۔ 

بارسلونا میں گو پاکستان، یورپ، امریکہ اور جاپان تک سے ادیب و شعرا گاہے بگاہے تشریف لاتے رہے، ادبی محافل جمتی رہیں اور جمتی ہیں مگر اہلیانِ بارسلونا بارسلونا میں باقاعدہ ادب و سُخن کی محنت بارآور ہوتی نظر آ رہی ہے۔

ادب اور ادبی محافل کوئی گُڈے گُڈی کا کھیل نہیں، لکھنے والا خونِ جگر نچوڑتا ہے تب جا کر ایک جملہ، ایک مصرع بنتا ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے دامن میں بھرے ان ستاروں کے لیے کچھ بھی لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ہمارے بیک وقت صحافی و شاعر ارشد نذیر ساحل، جن کی تعریف قونصل جنرل بارسلونا کے بقول شرمیلا ہونے کی ہے، اردو ادبی تنظیم ’قلم قافلہ‘ کے روح و رواں ہیں۔

پاکستان میں ان کا تعلق گجرات سے ہے، شعرا اور شاعری سے 20 سال سے زائد تعلق اور واسطہ ہے۔ کالج کے ایام سے شاعر ہیں اور اُن کی شاعری سے محبت چھلکتی ہے، ہجر بہتا ہے اور کہیں کہیں خلش کے جزیرے ملتے ہیں۔ ارشد کم گو ہیں، زیادہ سوچتے ہیں اور جتنا بولتے ہیں اُسے پہلے تولتے ہیں۔ پاکستان تا ہسپانیہ مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ اُن کی غزلیں کاتالان زبان میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ سہارا میگزین کے روحِ رواں شعر و ادب کی ترقی و ترویج میں اپنا کردار نبھاتے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر ان کے ایک دیرینہ دوست ہیں جن کا نام ہے سّید قیس رضوی جو کرکٹر اور شاعر ہیں۔ شاہ جی اور ارشد نذیر ساحل اکٹھے ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ حضرات بچپن سے ہی حساس ہیں۔ ایک دوسرے کے بغیر ملاقات ہو تو موسم بدلا بدلا ہوتا ہے جیسے جاڑے کے پردے سے نکل کر بہار کھل اٹھی ہو۔ شاہ جی کی شاعری میں ارشد کی نسبت سنجیدگی اتنی ہے کہ وہ محبت کے بارے بھی سنجیدہ واقع ہوئے ہیں اور ارشد ساحل جیسے بیان کیا جا چکا کہ شرمیلے مگر اظہار پر دونوں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ ایک شاعر کی تعریف یہ بھی ہے کہ جس کی لکھی غزل گائی جا سکے اور ارشد نذیر ساحل کو یہ اطمینان حاصل ہے۔

کُچھ مہربان اُن کو شیخ المشائخ اور کچھ صرف شیخ صاحب سے یاد کرتے ہیں۔ شیخ آفتاب ننھیالی اور کتابی دو دھاری شاعر ہیں۔ گوجرانوالہ پاکستان سے ہیں۔ سارے بارسلونا کو میجک باکس کی لت لگانے کا سہرا آپ کے سر ہے۔ شاعری میں اردو اور پنجابی غزل اُن کا میدان ہے۔ کلام لکھتے مجذوبیّت اختیار کرتے ہیں لہٰذا اول و آخر شیو بڑھی ہوتی ہے اور بعض روایات کے مطابق شاعری لکھتے بڑھ جانا بھی منقول ہے۔

شعر سُنانے کا مزاج اور انداز جدا ہے، کہو تصوف تو وہ رنگ بھر دیے، کہا محبت تو اُس کوچہ میں مُقیم ہو گئے۔ موصوف اہتمام کے ساتھ شاعری سُنانے والے شاعر واقع ہوئے ہیں۔ دعوتِ طعام ہو یا شعر کا اہتمام، شیخ صاحب کھلے دل اور ہاتھ کے مالک پائے گئے ہیں۔ قبل الذکر شعرا کی نسبت شیخ آفتاب مزاجاً اور امتزاجاً شاعر ہیں اِس لیےاُن سے مزاج بخیر کی جگہ امتزاج بخیر پوچھ لیا جائے تو بھی دعائے سلامتی ہی جواب ملتا ہے۔

ارشد اعوان ہسپانیہ میں  پنجابی شاعر ہے۔ یہاں پنجابی سے مراد اُن کی پنجابی کی دھرتی کے انچ انچ سے وابستگی اور واقفیّت ہے۔ وہ پنجاب کے ہر عہد اور رنگ کی کیسری رنگتا ہے اور شعر و نظم یہ کیسری اوڑھے شرماتی لجاتی پیش ہو جاتی ہے۔ ارشد کی جو کتابیں آ چکی ہیں اُن  میں اول بلھے دا پنجاب نے کافی شہرت کمائی۔ اس کے علاوہ بول فقیرا، امبر تارے اُن کے دوسرے پنجابی شعری مجموعے ہیں۔

ارشد کا موضوع ہجر اور وصال اور معاشرت اور اقدار میں بڑھتا خلا ہے۔ پنجابی غزل اور نظم دونوں پہ دسترس حاصل ہے۔ ارشد سادہ اور حساس شاعر ہے، لب و لہجہ اور طرزِ بیان جداگانہ ہے۔ مزدور کی زندگی اُن کی شاعری میں ایسی رچی بسی ہےکہ ارشد حقیقی معنوں میں مزدور کا شاعر ہے۔ بلھے دے پنجاب سے ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے:

آ بُلھیا تُوں اپنا پنجاب ویکھ لے
ایتھے ترقی تے سڑدے گلاب ویکھ لے
جِتھے پُھل سی بیلا چنبیلی کِھلدے
اج لہُو نال ہوئی اے سراب ویکھ لے
کُنڈھ الہڑاں دے کدھرے گواچ گئے
اج چہریاں تُوں اُترے نقاب ویکھ لے
ایتھے نشیاں نے پٹے تیرے گھبرو
رُل گئے وچ چرساں شراب ویکھ لے
جتھے پنج دریا سی تیرے شُوکدے
اج سُک گئے راوی تے چناب ویکھ لے

زیادہ پڑھی جانے والی ادب