آر ڈی برمن نقال یا عظیم موسیقار؟

آر ڈی برمن (پنچم دا) کی دھنیں آج بھی بولتی ہیں کل بھی بولتی رہیں گی۔ ستر اور اسی کی دہائی سے انہیں نکال دیں تو کیا بچتا ہے؟ موسیقار آر ڈی برمن کی برسی پر خصوصی تحریر۔

آر ڈی برمن نے 1980 میں آشا بھوسلے سے دوسری شادی کی، لیکن برمن کی زندگی کے آخری ایام میں دونوں اکھٹے نہیں رہتے تھے (وکی پیڈیا)

سچن دیو برمن (ایس ڈی برمن) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ  ہم موسیقاروں کو نوشاد سے سیکھنا چاہیے کہ اچھی موسیقی کو بیچنا کیسے ہے۔

ایس ڈی برمن، روشن، خیام اور مدن موہن یہ فن سیکھے ہوں یا نہیں البتہ کچھ لوگوں نے بری موسیقی بیچنے کے فن میں کمال حاصل کیا۔

 یہ کام لکشمی کانت پیارے لال نے شروع کیا اور اسے نقطہ عروج تک پہنچانے کا سہرا راجیش روشن، بپی لہری اور انو ملک کے سر ہے۔

ستر کی دہائی میں ایک طرف امیتابھ  بچن کا گھونسہ شائقین موسیقی کی سماعت مجروح کرتا رہا تو دوسری طرف سستی جذباتیت سے بھری مغربی موسیقی کا بےسرا تڑکا۔

ایسے میں نئی نسل کا ایک موسیقار ایسا تھا جس کے ہاں روایت، تجربہ، لطافت بھری ہے، جس کے ہاں بے ہنگم آوازوں کا ملغوبہ نہیں بلکہ  زندگی سے بھرے مدھر گیت ہیں اور وہ موسیقار راہول دیو برمن (آر ڈی برمن) ہیں۔

آر ڈی برمن کی اصلی اُٹھان تو 1971 میں ’کٹی پتنگ‘ سے ہوئی۔ 50 سال پہلے کے گیت ’یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے‘ اور ’یہ جو محبت ہے ان کا ہے کام‘  آج بھی مدہوش کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

راجیش کھنہ کا چہرہ، کشور کمار کی آواز اور آر ڈی برمن کی موسیقی اس وقت ہر دل کی دھڑکن تھی اور آج بھی دل میں مستیاں بھر دیتی ہے۔

فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ میں ’دم مارو دم ‘ کے ذریعے آر ڈی  برمن نے ایک طرف بالی وڈ کو ہپی کلچر میں رنگ دیا تو دوسری طرف ’امر پریم‘ میں کلاسیکل ہندوستانی موسیقی سے قریب رہ کے بہترین دھنیں بنائیں۔ اس فلم کا ہر گیت قابل داد ہے بالخصوص ’رینا بیتی جائے‘، ’چنگاری کوئی بھڑکے‘ کا تو جواب ہی نہیں۔

’مسافر ہوں میں یارو‘،’ ہم دونوں دو پریمی‘،’ میری بھیگی بھیگی سی پلکوں پہ آکے‘، ’بانہوں میں چلے آؤ‘،’ جے جے شیو شنکر‘، ’کروٹیں بدلتے رہے‘ اور ’زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام‘ مختلف ذائقے کے باجود اپنے عہد کے نمائندہ گیت ہیں۔

یہ وہ دور تھا کہ جب بالی وڈ سنہرے دور کے موسیقار نوشاد، شنکر، او پی نیر، روی اور سلل چوہدری اپنا تخلیقی دور گزار کر منظر سے غائب ہو چکے تھے۔ ایس ڈی برمن اور مدن موہن کا چراغ بھی ایک ہی سال (1975) میں بجھ گیا۔

اب میدان میں لکشمی کانت پیارے لال، کلیان جی آنند جی اور آر ڈی برمن میں کانٹے کا مقابلہ تھا۔ اپنی دوسری ہی فلم ’جولی‘ سے فلم فئیر ہتھیا لینے والے راجیش روشن گھٹیا موسیقی کی اعلیٰ مثال بپی لہری اور رویندر جین بھی کچھ کر دیکھانے کو بیتاب تھے۔

موسیقی کا بیڑہ غرق کرنے کی بھاری ذمہ داری اب لکشمی کانت پیارے لال کے ناتواں کندھوں سے کافی حد تک بپی اور راجیش روشن کے جواں کندھوں پہ آن پڑی۔

آر ڈی برمن کی اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ ان کا مقابلہ اتنے چھوٹے اور کم ظرف لوگوں سے تھا۔ اس وقت کے پروڈیوسرز بھی بمل رائے، کے آصف، راج کپور یا گرودت نہ تھے۔ معیار کی بات تو کسی زبان پہ تھی ہی نہیں۔ سب پروڈیوسرز ایک ہی بات کرتے کہ بس گانا ایک دم ہٹ ہو جائے۔ 

لکشمی کانت پیارے لال نے فریب اور خوشامد کے داؤ پیچ شنکر جے کشن سے سیکھے اور سب سے پہلے انہی پہ آزماتے ہوئے ’دوستی‘ کے لیے فلم فئیر ایوارڈ لے اڑے۔

راجیش روشن اور بپی لہری کا تو خمیر ہی چالاکی و چاپلوسی سے اٹھا تھا۔ اب رہ گئے پنچم (آر ڈی برمن) تو ان معاملات میں وہ اتنے ہی سادے تھے جتنے ان کے والد  ایس ڈی برمن۔

جب نوشاد ایک لاکھ روپے لے رہے تھے تو اس وقت ایس ڈی برمن محض 20 ہزار  روپے میں فلم کر دیتے۔ ایس ڈی برمن ’گائیڈ‘ جیسی سدا بہار فلم پہ بھی فلم فئیر نہ جیت سکے اور شنکر جے کشن بے ایمانی سے ’بے ایمان ‘جیسی فلم پہ یہ ایوارڈ لے اڑے حالانکہ مد مقابل ’پاکیزہ ‘فلم تھی۔ آج ’بے ایمان‘ کے کتنے گیت آپ کو یاد ہیں؟ پنچم کو اپنے پہلے فلم فئیر کے لیے 20 سال انتظار کرنا پڑا۔  

گلزار کا نام فلم اور ادب میں معیار کی ضمانت ہے کیا کبھی گلزار نے  اپنی فلم میں لکشمی کانت پیارے لال کے ساتھ کام کیا؟ پچھلے 50 سال میں گلزار اور آر ڈی برمن سے بہتر جوڑی کون سی تھی؟ اگر آپ جانتے ہوں تو بتا دیجیے۔

گلزار نے فلم گیتوں کی زبان اور آر ڈی نے فلم میوزک کی ساؤنڈ بدل کے رکھ دی۔

دونوں روایت سے پوری طرح آشنا ہیں، اس لیے جب تجربہ کرتے ہیں تو سطحی یا اکھڑا ہوا نہیں ہوتا۔ ’آندھی‘ میں تو دونوں کا بہترین کام ہے، آپ  فلم ’گھر‘ (1978) کے پانچ میں سے ایک گیت نکال کے دکھا دیں جو کمزور ہوں۔

جب دیو آنند نے پنچم کو اپنی فلموں سے چلتا کیا تو پنچم نے کہا آپ بھی مجھے نکال رہے ہیں تو اور کون رکھے گا؟ دیو آنند کو ہٹ فلم چاہیے تھی، جذبات نہیں۔ سبھاش گھئی نے ’رام لکھن‘ میں پنچم سے دوگیت ریکارڈ کروا نے کے بعد لکشمی پیارے کو لے لیا۔

یہ 1980 کی دہائی کے آخر کی بات ہے۔ انہی دنوں ’اجازت ‘ریلیز ہوئی۔ ’میرا کچھ ساماں تمہارے پاس پڑا ہے‘ کیا فلم میوزک میں اس کی کوئی مثال ہے؟ اس سے پہلے یا بعد میں؟ آشا بھوسلے، گلزار اور آر ڈی برمن محض نیا امکان ہی نہیں تراشتے بلکہ اسے کمال تک بھی پہنچاتے ہیں۔

اس وقت فلم انڈسٹری میں مچی ہڑبونگ کو ذہن میں رکھے بنا یہ کہنا کہ آر ڈی  برمن کاپی پیسٹ کر کے، ادھر ادھر سے دھن اٹھا کر کام چلاتے رہے محض تہمت ہے۔

فلم پروڈیوسرز دھن لے کے آتے اور کہتے کہ یہ تو اسی طرح سے فلم میں ہو گی باقی گیت آپ بنا لیجیے۔ چاہے وہ رمیش سپی ہوں یا ناصر حسین۔

دنیاداری اور اس سے وابستہ فراڈ سے ناوقف آر ڈی برمن ویسے بھی  کشور کے بعد تنہا رہ گئے تھے۔ اب تو ایسا وقت آ ن پڑا کہ آر ڈی برمن گھر میں بیٹھے کام کا انتظار کر رہے  تھے۔ اچھے دنوں کے ساتھی کترانے لگے۔ ودو ونود ’لو سٹوری 1942‘ لے کر  گئے تو پنچم نے اپنے کام سے سب کو خاموش کروا دیا۔

افسوس کہ پنچم خود اس فلم کی کامیابی سے پہلے خاموش ہو چکے تھے۔ ان کی دھنیں آج بھی بولتی ہیں کل بھی بولتی رہیں گی۔ ستر اور اسی کی دہائی سے پنچم کو نکال دیں تو کیا بچتا ہے؟ 

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی