لیجنڈری اداکارہ صبا حمید کہتی ہیں کہ انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ شوبز کا حصہ بنیں گی، بس حادثاتی طور پر اس شعبے میں آ گئیں، کام کرتی رہیں لیکن بہت دیر کے بعد سوچا کہ جو کام کر رہی ہیں وہی ان کا کیرئیر ہے۔
انڈپینڈینٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے صبا حمید نے کہا: ’میں نے ڈراموں میں کام تو کرنا شروع کر دیا تھا لیکن مجھے فلموں میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے کسی فلم میں نظر نہیں آئیں۔ باقی آج کل جو فلمیں بن رہی ہیں ان میں ہمارے ڈراموں کے ہی لوگ ہیں اس لیے میں آسانی سے کام کر لیتی ہوں۔‘
ان سے کیے جانے والے سوال جواب پیشِ خدمت ہیں:
آج کے ڈرامے پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟
ڈراموں پر ہونے والی تنقید کو جائز نہیں سمجھتی۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، آج بھی ڈراما اچھا بن رہا ہے، ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج ڈراما کمرشل ہونے کی وجہ سے لکھاری اور آرٹسٹ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، انہیں وہی کرنا ہے جو کہا جاتا ہے۔
جہاں تک لکھاری کو ڈکٹیٹ کرنے کا سوال ہے تو میرے حساب سے کسی بھی لکھاری کو اپنی مرضی سے لکھنے کی اجازت ہونی چاہیے لیکن کیا کیا جا سکتا ہے، جو مارکیٹ کی ڈیمانڈ ہے اس کے مطابق ہی چلنا پڑے گا اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ جیسا بھی لکھوایا جائے بس میں تو اس چیز کی قائل ہوں کہ کہانی مضبوط ہونی چاہیے۔ کمرشلزم کی وجہ سے تھوڑے بہت مسائل آئے ضرور ہیں لیکن کوئی بھی چیز بہت دیر تک نہیں رہا کرتی، تھوڑے عرصے کے بعد تبدیلی آ ہی جاتی ہے۔
ہر ڈرامے میں طلاق اور دوسری شادی کیوں؟
ہر کہانی میں طلاق اور دوسری شادی نہیں دکھائی جاتی۔ اگر طلاق اور دوسری شادی دکھائی جاتی ہے تو یقیناً وہ کہانی کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کہانیوں کی وجہ سے اداکار، ہدایت کار اور مصنف پر تنقید کرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس میں کسی کا بھی قصور نہیں ہے، ڈراما مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق بنوایا اور لکھوایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج کل ماں باپ کا کردار برائے نام کیوں ہوتا ہے؟
میں اس بات سے بالکل بھی اتفاق نہیں کرتی کہ ماں باپ کے کردار برائے نام ہوتے ہیں۔ بعض کہانیوں میں تو ماں باپ کا کردار بہت ہی طاقتور دکھایا جاتا ہے، بلکہ کہانی کی ڈیمانڈ کے مطابق ماں باپ کے کردار باقاعدہ طور پر لکھوائے جا رہے ہیں۔
پوری دنیا میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا یہ اصول ہوتا ہے کہ کہانیاں گھوم کر پرانے لوگوں سے نوجوان نسل تک آتی ہیں لیکن شاید یہ چیز ہمارے ہاں ذرا زیادہ ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج کل کہانیوں میں ماں باپ کے کردار برائے نام ہوتے ہیں۔ ایک ہی برش سے ہر چیز کو پینٹ کیا جانا مناسب نہیں۔
بغیر ریہرسل کے ریکارڈنگ سے کیا اثر پڑتا ہے؟
ریہرسلز کا نہ ہونا، سکرپٹ کا وقت کے وقت ہاتھ آنا ہے۔ آٹھ دس قسطیں لکھنے کے بعد ہی ڈرامے کی فلم بندی شروع ہو جانے کی وجہ سے تبدیلیاں تو نمایاں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پہلے ڈراما زیادہ اچھا بنتا تھا اور آج اچھا نہیں بن رہا یا پچھلی نسل میں اعلیٰ کام کرنے والے پیدا ہوئے اور اس جنریشن میں کام کرنے والے اچھے نہیں ہیں۔
میں نے آج کے آرٹسٹوں کو بھی بہت محنتی پایا ہے، وہ اپنے کام کے ساتھ نہایت ہی مخلص ہیں۔ آج کے فنکار اپنے کام کے بل پر خود کو منوا رہے ہیں جو کہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ میں تو ان کو فل مارکس دیتی ہوں۔
ٹائپ کاسٹنگ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
بعض اوقات تنقید ہوتی ہے کہ فلاں آرٹسٹ فلاں کردار میں کیوں نظر آرہا ہے یا اس نے فلاں کردار کیوں کیا تو میں سمجھتی ہوں کہ کوئی بھی آرٹسٹ دو وجوہات کی بنا پر کوئی بھی کردار کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ ایک وجہ اس کی کوئی بھی مجبوری ہو سکتی ہے اور دوسری واقعی اس کو کہانی اور کردار پسند آیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی آرٹسٹ کے پاس چوائس کتنی ہے، اب جتنی چوائس ہے اس نے اسی دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے، اب اگر چوائس ہو ہی نہ تو کیا کیا جائے۔ اس لیے کسی بھی آرٹسٹ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
جہاں تک میری بات ہے تو میں اپنی مرضی سے کام کرتی ہوں، کہانی اچھی لگے تو ہاں کر دیتی ہوں اگر نہ پسند آئے تو انکار کر دیتی ہوں، لیکن بعض اوقات اگر کوئی مجبوری ہو تو انکار کرنے کی بجائے کردار کر لیتی ہوں۔
کسی سکرپٹ کو قبول یا رد کرنے کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
میں کسی بھی سکرپٹ کو سکرپٹ کی وجہ سے ہی قبول یا رد کرتی ہوں، دوسرا یہ کہ میں ہدایت کار اور ٹیم کو بھی دیکھتی ہوں کہ کیسی ہے اور میں اس کے ساتھ چل بھی سکتی ہوں یا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ میں نے جو سوچا ہوتا ہے ہر دفعہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ میرے حساب سے کہانیاں سب ہی اچھی ہوتی ہیں بس کہانی کہنے کا انداز بہترین اور مختلف ہونا چاہیے۔ مجھے کہانیوں سے نہیں کہانی کہنے کے انداز سے مسئلہ ہوتا ہے۔
اگر مجھے ہدایت کار کے ساتھ کام کرنے میں سہولت محسوس ہو تو پھر میں اپنی اِن پٹ ڈال بھی دیا کرتی ہوں، لیکن اگر مجھے لگے ڈراما بنانے والی ٹیم ایسی ہے کہ میں ان کے ساتھ کسی بھی وجہ سے چل نہیں پاﺅں گی تو پھر میں یقینی طور پر انکار کر دیا کرتی ہوں۔
نئے آرٹسٹوں میں کون زیادہ اچھا ہے؟
میں نے سب کے ساتھ کام کیا ہے، کسی ایک کا نام لینا زیادتی ہے۔ ہر کوئی اپنی جگہ بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ ویسے بھی یہ اصول ہوتا ہے کہ جو آرٹسٹ بہت محنت کرتا ہے اپنے کام کے ساتھ مخلص ہوتا ہے، اس کا کام نوٹس ہو ہی جایا کرتا ہے، لوگ پسند کرنے لگتے ہیں۔
جو محنت نہیں کرتے یا اپنے کام کو لے کر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے نہ ہی ان کو اور ان کے کام کو نوٹس کیا جاتا ہے بلکہ آہستہ آہستہ کر کے وہ خود ہی سسٹم سے نکل جاتے ہیں۔
کیا جس نے تھیئٹر نہ کیا ہو وہ اچھا اداکار نہیں ہوتا؟
میں اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتی۔ بہت سارے ایسے آرٹسٹ ہیں جنہوں نے تھیئٹر نہیں کیا، لیکن وہ بہت اچھا کام کرتے ہیں۔ میں نے خود پانچ برس تک لگاتار تھیئٹر کیا۔ تھیئٹر کسی بھی آرٹسٹ کو پالش کر دیتا ہے، ایک اعتماد ملتا ہے۔ میں نے جس زمانے میں تھیئٹر کیا وہ بہت زبردست دور تھا۔ بہت اچھے سکرپٹ ہوا کرتے تھے۔ تھیئٹر کرنے کے بعد کسی بھی فنکار کی فنکارانہ صلاحیتوں میں جو نکھار آتا ہے وہ ریڈیو ٹی وی یا فلم نہیں دے سکتی۔
سوشل میڈیا کتنا استعمال کرتی ہیں؟
بہت کم کم۔
سمارٹ نیس کیسے برقرار رکھتی ہیں؟
اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے میں بہت کم کھاتی ہوں۔