کراچی: پراسرار گیس سے 14 ہلاکتیں: ’صورت حال ہنوز غیر واضح‘

سندھ ادارہ تحفظ ماحولیات کے مطابق ہلاکتیں ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس کی لیکج سے ہوئیں، جبکہ کراچی یونیورسٹی لیبارٹری کی ابتدائی رپورٹ میں سویا بین ڈسٹ کو اس مسئلے کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

زیادہ تر متاثرین سانس میں دقت اور سانس رکنے کی شکایت کے ساتھ ہسپتال لائے گئے۔ (ٹوئٹر)

کراچی بندرگاہ کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس کا اخراج معمہ بنا ہوا ہے۔ اس گیس سے اب تک 14 افراد ہلاک جب کہ 300 کے قریب متاثر ہوچکے ہیں لیکن حکام یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کسی قسم کی گیس کا اخراج ہو رہا ہے۔ دوسری جانب اس معاملے کو سویا بین ڈسٹ (دھول) سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔

گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے چیئرمین جمیل اختر گیس لیکج کی خبروں کو ’افواہ‘ قرار دے چکے ہیں، جن کا کہنا تھا کہ کے پی ٹی کی حدود میں کوئی گیس لیکج نہیں ہے اور معمول کے مطابق کام جاری ہے۔

جمیل اختر نے کہا تھا: ’کے پی ٹی میں معمول کے مطابق کام جاری ہے، تقریباً 150 لوگ کام کر رہے ہیں، اگر گیس لیکج ہوتی تو ہم کام کرنے دیتے؟ میں شہریوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ گیس اخراج کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔‘                                                   

دوسری جانب سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کے پی ٹی پر برس پڑے تھے، جن کا کہنا تھا کہ ’کے پی ٹی حکام کو حقائق عوام کے سامنے لانا ہوں گے، گیس اخراج کے معاملے پر پردہ ڈالنا برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

دو روز سے اس حوالے سے افواہیں اور قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ایک طرف جہاں سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے حکام کہتے ہیں کہ ہلاکتیں خام تیل کے ٹینکوں سے لیک ہونے والی ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس کی وجہ سے ہوئیں، وہیں کراچی یونیورسٹی لیبارٹری کی ابتدائی رپورٹ میں سویا بین ڈسٹ (دھول) کو اس سارے فساد کی جڑ قرار دیا گیا ہے جبکہ کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یہ واقعہ میتھائل برومائیڈ کی وجہ سے پیش آیا، جو ایک قسم کا جراثیم کش ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر سینیٹر مرتضیٰ وہاب نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بتایا: ’کراچی یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیماڑی کا واقعہ سویا بین کی ڈسٹ کی وجہ سے پیش آیا ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آئے چکے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی سے رابطہ کیا۔ فیصل ایدھی نے بتایا کہ ’پورٹ پر سویا بین کا ایک کنٹینر موجود ہے جسے اَن لوڈ ہونے سے روکا گیا ہے اور گمان کیا جا رہا تھا کہ زہریلی گیس کا اخراج اس میں سے ہو رہا ہے، لیکن اسے اَن لوڈنگ سے روکنے کے باوجود آٹھ سے دس مزید نیم بے ہوش افراد ضیا الدین ہسپتال، کیماڑی پہنچائے گئے ہیں۔ صورت حال ہنوز غیر واضح ہے۔‘

متاثرین کس شکایت کے ساتھ ہسپتال لائے گئے؟

کراچی میں واقع جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ان کے پاس گیس لیکج سے متاثرہ 62 مریض آئے، جن میں سے ایک کی حالت نازک تھی، جسے وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا لیکن آج اس مریض کی حالت بھی سنبھل گئی ہے، تاہم جناح ہسپتال میں کسی بھی مریض کی ہلاکت نہیں ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیمی جمالی کے مطابق زیادہ تر متاثرین  کیماڑی کے علاقے جیکسن مارکیٹ کے رہائشی تھے، متاثرین میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں، جو سانس میں دقت اور سانس رکنے کی شکایت کے ساتھ ہسپتال لائے گئے، جن کا کہنا تھا کہ انہیں کسی قسم کی گیس کی بو نہیں آئی۔

سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ ’ایچ ای جے لیبارٹری کی رپورٹ میں سویا بین ڈسٹ کا ذکر کیا گیا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کی تحقیقات کی جانی چاہییں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ گیس لیکج کی اطلاعات کے ساتھ ہی لوگوں کا وہاں سے انخلا کیا جانا چاہیے تھا تاکہ 14 ہلاکتیں نہ ہوتیں۔

سیمی جمالی نے مزید بتایا کہ کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یہ واقعہ میتھائل برومائیڈ کی وجہ سے پیش آیا، جو ایک قسم کا جراثیم کش ہے، جس پر 2000 میں پابندی لگا دی گئی تھی اور جس کی وجہ سے بھی سانس رکنے جیسی شکایات سامنے آتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان