مریخ پر میتھین گیس غائب اور کتوں کی مدد سے کینسر کی شناخت

اس ہفتے کی پانچ ٹاپ ٹیکنالوجی کی خبریں

اس ہفتے کی پانچ اہم اور دلچسپ ٹیکنالوجی کی خبریں کچھ یوں ہیں۔

1) 400 سے زائد ٹوئٹر اکاؤنٹ فالو کرنے پر پابندی

سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر نے بوٹس اور فضول مواد کی روک تھام کے لیے صارفین پر ایک ہی وقت میں 400 سے زائد اکاؤنٹ فالو کرنے کی نئی حد مقرر کر دی ہے۔

پہلے یہ حد 1000 اکاؤنٹس تھی جسے کم کر کے 400 کر دیا گیا ہے تاکہ پلیٹ فارم پر صحت مندانہ گفتگو اور تبادلہ خیال کو فروغ دیا جا سکے۔

ٹوئٹر کو بارہا مشکوک، جعلی اکاؤنٹس اور اختلاف رائے کو بڑھاوا دینے کے الزامات کا سامنا رہا ہے اور نئی حد مقرر کرنے کا مقصد پلیٹ فارم کو مزید بہتر بنانے کی کوشش ہے۔

ٹوئٹر کے سینیئر عہدے دار یول روتھ کے مطابق، 400 اکاؤنٹس ایک ’مناسب حد‘ ہے اور کمپنی کے خیال میں یہ حد سپیم اکاؤنٹس کو غیر موثر اور سست بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

2) انسانوں کو چاند پر لے جانے والی گاڑی کا ڈیزائن پیش

لاک ہیڈ مارٹن کمپنی نے ناسا کے 2024 تک چاند پر جانے کے نئے ہدف میں مدد کرنے کے لیے چاند گاڑی کا نیا ڈیزائن متعارف کرایا ہے جس کی مدد سے انسان باآسانی چاند کی سطح پر اترنے کے علاوہ واپس بھی آ سکے گا۔

طویل عرصے سے خلائی منصوبوں کی کنٹریکٹر کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا کہنا ہے کہ اگر اسے وافر وسائل فراہم کیے جائیں تو اس کا ڈیزائن اگلے پانچ سالوں میں حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔

اس چاند گاڑی کے دو اہم حصے ہیں۔ ایک وہ جس سے سطح پر اترا جا سکے گا اور دوسرا حصہ خلانورد کو دوبارہ سطح سے واپس خلائی سٹیشن ’گیٹ وے‘ تک لے جائے گا، جسے ناسا بنانے پر غور کر رہی ہے۔

دی ورج کے مطابق اس منصوبے کے تحت پہلے خلانورد زمین سے ’گیٹ وے‘ تک سفر کریں گے اور پھر وہاں سے لاک ہیڈ مارٹن کی چاند گاڑی انہیں چاند کی سطح پر پہنچائے گی۔

3) سام سنگ کا پاپ اپ کیمرے والا سمارٹ فون

سام سنگ نے گھومنے والے کیمرے پر مبنی اپنا پہلا سمارٹ فون گیلکسی  اے -80 متعارف کرا دیا ہے۔

فلیگ شپ گلیکسی ایس-10 کے برعکس  گلیکسی اے -80 کی سکرین پر فرنٹ کیمرے کے لیے پنچ ہول نہیں دیا گیا بلکہ اس میں منفرد گھومنے والا پاپ-اپ اور خودکار ٹرپل لینز کیمرہ موجود ہے۔

دی انکوائیرر کے مطابق اس فون کے نوچ لیس ہونے کی وجہ سے اس کی 6.7 ایف ایچ ڈی اور سپر ایمولیڈ سکرین بہت جان دار ہے۔

یہ پہلی بار نہیں جب کسی سمارٹ فون پر پاپ-اپ کیمرہ نصب کیا گیا ہو۔ اس سے پہلے ویوو نیکس، اوپو فائنڈ ایکس، اونر میجگ 2، اور شاؤمی می مکس 3 میں بھی ایسا کیمرہ سیٹ اپ موجود ہے۔

4) مریخ پر میتھین گیس کہاں گئی؟ سائنس دان پریشان

ایسا لگتا ہے کہ مریخ پر میتھین گیس اچانک کہیں لاپتہ ہو گئی ہے۔

سائنس دان امید کر رہے تھے کہ اِس وقت مریخ کے اوپر تیرنے والا ’ٹریس گیس آربیٹر (ٹی جی او)‘ میتھین گیس کی بو سونگھ لے گا، جس کی مدد سے وہ مزید تحقیق کریں گے۔

زمین پر میتھین گیس زندہ حیاتیات سے بنتی ہے اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر اس کی موجودگی زندگی کے آثار ظاہر کر سکتی ہے۔

ماضی میں مریخ کی سطح اور فضا پر میتھین گیس کے نمایاں آثار مل چکے ہیں اور ماہرین کا خیال تھا کہ ٹی جی او ان اپنے جدید اور حساس سینسرز کی مدد سے ان کے پچھلے مشاہدوں کی تصدیق کرتے ہوئے مزید تحقیق کا مواد فراہم کرے گا۔

تاہم، ٹی جی او میتھین گیس کی بو سونگھنے میں ناکام رہا ہے، جس کے بعد سائنس دان حیران اور پریشان ہیں کہ مریخ پر میتھین گیس کہاں گئی۔

ٹی آر جی میں نصب نومیڈ کیمیکل انیلیسز انسٹرومنٹ کے ان چارج اور اوپن یونیورسٹی کے ڈاکڑ منیش پٹیل کہتے ہیں: ’ہم نے جو  پیمائش کی ہے وہ بہت حیران کن ہے کیونکہ سطح پر موجود ٹیلی سکوپس، یورپیئن سپیس ایجنسی کے مارز ایکسپریس سپیس کرافٹ اور ناسا کریوسٹی نے جو میتھین ڈھونڈی تھی وہ اچاناک کہیں غائب ہو چکی ہے۔‘

5) کتوں کی مدد سے کینسر کی تشخیص

دنیا بھر کے محققین کینسر کی تشخیص کے لیے مصنوعی ذہانت اور دوسری اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے تجربات کر رہے ہیں لیکن فلوریڈا کی ایک سٹار اپ کمپنی نے نسبتاً کم درجے کی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

BioScentDx نے کینسر کی تشخیص کے لیے کتوں کا سہارا لیا ہے جو کمپنی کے بقول کینسر سونگھنے میں حیران کن طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمپنی نے ایک کانفرنس کے دوران کتوں کی مدد سے کینسر کی تشخیص پر اپنی مطالعاتی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا محقیقین نے چار کتوں کو صحت مند لوگوں اور پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا مریضوں کے خون کے نمونے سونگھنے کی تربیت دی۔

فیوچرازم کے مطابق ان کتوں میں سے ایک نے تحقیق میں دلچسپی نہیں لی جبکہ باقی تینوں کتوں نے اوسطاً 96.7 فیصد کینسر کے نمونے درست شناخت کیے اور صحت مند خون کے نمونے شناخت کرنے کی اوسط 97.5 فیصد تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس