مستحق شہریوں کی امداد: ٹائیگر فورس بننے سے پہلے ہی متنازع کیوں؟

اپوزیشن کا الزام ہے رضاکار ٹائیگر فورس کو بنانے کے پیچھے حکومت کا مقصد سیاست چمکانا ہے جبکہ حکومت نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے۔

کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ  کے باعث دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن اور سماجی بندشیں نافذ ہیں جس سے دیہاڑی دار، مزدور طبقے اور دیگر مستحقین افراد روزی کمانے کے لیے گھر سے نہیں نکل سکتے اور اسی لیے دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔

رواں ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے گھروں تک راشن پہنچانے کی غرض سے رضاکارانہ ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا اور  درخواستیں بھی وصول ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔

اب تک ملک بھر سے دو دن میں پانچ لاکھ سے زائد نوجوانوں کو اس فورس کے لیے رجسٹرڈ کر لیا گیا ہے جبکہ 10 اپریل تک موصول ہونے والی درخواستوں میں سے سکروٹنی کے بعد ٹائیگر فورس تشکیل دے کر حکومتی امداد (راشن) کی تقسیم شروع کی جائے گی۔

جب سے وزیر اعظم نے اس فورس کا اعلان کیا ہے اپوزیشن کی جانب سے اسے سیاسی اقدام قرار دے کر تنقید کانشانہ بنایاجا رہا ہے، جبکہ ٹاسک فورس پر ہونے والے ممکنہ اخراجات بھی تنقید کی زد میں ہیں لیکن حکومت کے مطابق انہیں کسی قسم کی مراعات نہیں دی جائیں گی۔ یہ کام انہیں فی سبیل اللہ کرنا ہوگا۔

کیا ٹائیگر فورس پر فنڈز خرچ ہوں گے؟

وزیر اعظم ہاؤس کے شعبہ یوتھ افیئرز کے ترجمان صالح خان  کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے اعلان کے بعد ہی تنقید شروع کر دی جبکہ حقائق کا جائزہ نہیں لیا۔

ان کے مطابق اپوزیشن کے تمام الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ٹائیگر فورس کے ٹائٹل سے بنی جن شرٹس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کی جارہی ہیں وہ حکومت نے تیار نہیں کرائیں بلکہ بعض پی ٹی آئی ورکرز نے خود ہی ڈیزائن بنا کر تیار کرائی ہیں۔ ان شرٹس کا یوتھ افیئرز یا حکومتی ٹائیگر فورس سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہم کسی کو کوئی یونیفارم شرٹ یا کوئی اور مراعات دے رہے ہیں۔‘

 

صالح خان  نے کہا کہ وزیر اعظم کے اعلان میں بھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ بغیر کسی معاوضے یا اخراجات کے ٹائیگر فورس بنائی جائے گی جو بالکل غیر سیاسی ہوگی۔ اس میں کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی حصہ لے سکیں گے اور اس کا مقصد حکومت کی جانب سے دیا گیا راشن مستحقین تک پہنچانا ہوگا جن کی فہرستیں ضلعی انتظامیہ بنائے گی۔

صالح خان نے کہا کہ ٹائیگر فورس میں شامل رضاکار مقامی ڈی سی او کو جواب دے ہوں گے، جہاں وہ کہیں گے وہاں سامان پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوگی، جبکہ انہیں حکومت کوئی سہولت فراہم نہیں کرے گی۔

ان سے پوچھا گیا کہ اس کا نام ٹائیگر فورس کیوں رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ خان صاحب کا فیصلہ تھا جس کی منطق انک ے خیال میں لوگ اس نام سے زیادہ دلچسپی لیں گے اور بڑھ چڑھ کر امدادی کام کام کریں گے۔

ٹائیگر فورس پر سیاسی ہونے کا الزام کیوں؟

مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’حکومت اتنے دن گزرنے کے باوجود ابھی تک مستحق گھرانوں کو کسی قسم کا امدادی سامان پہنچانے میں ناکام رہی اور مصیبت کی اس گھڑی میں ٹائیگر فورس بنا کر سیاست چمکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرشیخ رشید اور پی ٹی آئی پنجاب کے رکن اسمبلی نذیر چوہان نے اپنے لیٹر ہیڈ پر ٹائیگر فورس میں شامل کرنے کے لیے اپنے حلقوں سے کارکنوں کے نام ضلعی انتظامیہ کوبھجوائے ہیں۔ ’اگر حکومتی پورٹل کے ذریعے درخواستیں وصول کر کے ٹائیگر فورس تشکیل دی جارہی ہے تو یہ لیٹر ہیڈ پر اپنے کارکنوں کے نام انتظامی افسران کو کیوں بھجوائے جارہے ہیں؟‘

عظمیٰ کا دعویٰ تھا کہ پورٹل پر درخواستوں کی وصولی ایک ڈھونگ ہے جبکہ حقیقت میں یہ پی ٹی آئی کو عوام میں مقبول بنانے کی حکمت عملی ہے۔ ’افسوس ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں بھی وزیر اعظم اور ان کےپارٹی اراکین کو سیاست اہم لگ رہی ہے۔‘

 

جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ پورے ملک کے غریب عوام کو ایک پارٹی کے کارکنوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔
پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی سرکاری فنڈز سے راشن کی تقسیم کے لیے ٹائیگر فورس بنانے کے عمل کو مسترد کیا ہے اور اسے سیاسی اقدام قرار دیا ہے۔

ٹائیگرفورس بنانے کا حکومتی طریقہ کار

اپنے اعلان میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ غریب اور نادار افراد میں راشن کی تقسیم کے لیے ٹائیگر فورس بنائی جائے گی جس میں خواہش مند نوجوان لڑکے لڑکیاں 10اپریل کی حتمی تاریخ تک اپنے نام جمع کروا سکتے ہیں۔ اس کے بعد رجسٹریشن کا عمل وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے یوتھ افیئرز عثمان ڈار کے زیر نگرانی جاری رہے گا۔

یوتھ افیئرز شعبہ کے ترجمان صالح خان سے پوچھا گیا کہ ٹائیگر فورس میں نوجوان کیسے رجسٹریشن کرا سکتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ اس میں رجسٹریشن کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وزارت قومی صحت کی ویب سائٹ سے ٹائیگر فورس کا آپشن استعمال کرنے سے ایک فارم کھلتا ہے جس میں آن لائن اپنا نام، والد کا نام ، پتہ، عمر، شناختی کارڈ نمبر، پیشہ اور دیگر مطلوبہ تفصیلات فراہم کرکے فارم جمع کرویا جاسکتا ہے یا پھر ہیلپ لائن 1166پر کال کر کے رجسٹریشن کرائی جاسکتی یا وزارت قومی صحت کے دفتر کوہسار بلاک میں ذاتی حیثیت میں آکر وزیر اعظم کووڈ-19ریلیف ٹائیگر فورس کے نام سے بنے کاونٹر پر رجسٹریشن کرائی جاسکتی ہے۔

کتنی درخواستیں موصول؟

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک رجسٹریشن کروانے والے نوجوانوں کی تعداد پانچ لاکھ 24 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جس میں ملک بھر سے 13 ہزار سے زائد خواتین بھی شامل ہیں۔ 

اعلامیے کے مطاق پنجاب بھر سے 356491 رضاکار ٹائیگر فورس میں حصہ لینے کے لیے رجسٹر کروا چکے ہیں جبکہ سندھ سے 78543 نوجوانوں، خیبر پختونخوا سے 68334 نوجوانوں، وفاقی علاقوں سے 8021 نوجوانوں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے 5465 اور بلوچستان سے 5780 نوجوانوں اور گلگت بلتستان سے  2211 نوجوانوں نے رجسٹر کروایا ہے۔
واضع رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 2014 میں سابقہ حکومت کے خلاف آزادی مارچ اور دھرنے میں سیاسی خدمات کے لیے بھی ٹائیگر فورس تشکیل دی گئی تھی اور انہیں پارٹی پرچم کے ساتھ ٹائیگر فورس کے ٹائیٹل سے شرٹس فراہم کی گئی تھیں۔
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان