چین نے پینگولن کو فہرست سے کیوں نکالا؟

معدومی کے خطرے سے دوچار پینگولن کے جسم کے کچھ حصے روایتی چینی ادویات میں استعمال ہوتے ہیں، تاہم سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ان ادویات کے مفید ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس فیصلے کو چینی حکومت کی کرونا سے نمٹنے کی کوشش بھی کہا جارہا ہے۔

چین نے اپنی روایتی دوائیوں کی سرکاری فہرست سے پینگولن کو ہٹاتے ہوئے اس کی ہر قسم کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔

سرکاری اخبار 'ہیلتھ ٹائمز' کی رپورٹ کے مطابق اس سال پینگولن کو سرکاری دواؤں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ چمگاڈر کے فضلے سے بنائی جانے والی ایک گولی کو بھی اس فہرست سے خارج کردیا گیا ہے۔

پینگولن دنیا میں سب سے زیادہ سمگل کیا جانے والا جانور ہے، جس کے بارے میں کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گذشتہ سال چین کے شہر ووہان کی ایک مارکیٹ سے جنم لینے والا کرونا (کورونا) وائرس اسی جانور کا گوشت کھانے کی وجہ سے پھیلا۔

معروف سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پینگولن میں بھی کرونا وائرس پایا جاتا ہے اور جب اس وائرس کے جینیاتی مواد کا موازنہ ووہان کے کرونا وائرس (2019-nCoV) سے کیا گیا تو پتہ چلا کہ دونوں میں 99 فیصد اشتراک ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پینگولن کا گوشت بہت مہنگا اور چینی اسے شوق سے کھاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کے گوشت میں کئی خوبیاں ہیں۔ 

پینگولن کے جسم کے کچھ حصے روایتی چینی دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں اور اکثر بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں، تاہم سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ان ادویات کے مفید ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

چین کی جنگلات کی اتھارٹی نے خطرے سے دوچار جانور کی حیثیت سے پینگولن کو اعلیٰ ترین سطح کا تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی، جس کے بعد پینگولن کو روایتی دواؤں کی فہرست میں سے نکالا گیا، تاہم اس کی اصل وجہ واضح نہیں تھی۔

چین نے حالیہ مہینوں میں انسانوں میں بیماریوں کی منتقلی کے خطرے کے پیش نظر خوراک کے لیے جنگلی جانوروں کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے، لیکن تحقیق مقاصد اور روایتی ادویات کے سلسلے میں یہ تجارت قانونی حیثیت رکھتی ہے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے چین کے اس اقدام کا 'پرزور خیرمقدم' کیا ہے، جس سے پینگولن کی غیرقانونی تجارت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

چین میں پینگولن کو بچانے کی مہم سالوں سے جاری تھی لیکن جنگلی حیات کے تحفظ پر کام کرنے والوں کا ماننا ہے کہ چینی حکومت نے یہ قدم کرونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے اٹھایا ہے۔

سائنسی شواہد کی کمی کے باوجود اس جانور کے جسم کے کچھ حصے روایتی چینی طب میں مختلف بیماریوں جیسے گٹھیا، السر اور ٹیومر کے علاج کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

روایتی چینی طب کے ایک پریکٹیشنر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ نئی پابندیوں سے کچھ علاج متاثر ہوں گے، تاہم انہوں نے وضاحت کی: 'اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔'

دوسری جانب اس پابندی کے بعد چینی حکام نے کم از کم چھ پینگولن کو جنگل میں واپس چھوڑ دیا۔ اسے معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کو بچانے کی جنگ میں 'ایک چھوٹی سی فتح' قرار دیا جارہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا