’میاں صاحب‘کتھے او؟

اگر ان کا دل سیاست سے بھر گیا ہے تو پھر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے اپنی جماعت اور اس ملک کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ کوئی نہ کوئی سبب اصلاح احوال بن ہی جائے گا۔

میاں صاحب کا لندن میں آنا ایک نہ ٹوٹنے والی خاموشی میں ایسا بدلا کہ آج تک قائم ہے(اے ایف پی)

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

جون ایلیا نے یہ شعر نواز شریف کے لیے نہیں لکھا۔ اگر لکھتے تو انتہائی موزوں ہوتا۔ جب سے نواز شریف لندن گئے ہیں منہ میں جیسے گھنگنیاں پڑ گئی ہیں، چپکے بیٹھے ہیں۔

مہینوں میں ان کا کل پبلک رابطہ صرف ابتدائی میڈیکل رپورٹس پر ان کے بچوں کی طرف سے اطلاعات اور ان کی دو حالیہ تصاویر پر مبنی ہے۔ لیکن اب یہ کھڑکی بھی کب سے بند ہے۔

ان کی صحت، علاج اور اوپر نیچے ہوتے ہوئے پلیٹلیٹس پر لمحہ بہ لمحہ کمنٹری اب ساکت ہو گئی ہے۔ نہ ان کی اولاد کچھ بتلاتی ہے اور نہ جماعت۔ جو تصاویر بھی جاری ہوئیں ہیں یا جاری کی گئیں یا چوری چھپے بنائی گئیں ان میں سے ایک میں ایک بظاہر خالی کپ کو گھورتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جیسے اس سے بےلب گفتگو میں محو ہوں۔

اس کے علاوہ میاں نواز شریف سے متعلق پاکستانیوں کو کوئی خبر نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں یا کیا سوچ رہے ہیں۔ ایک ایسی سیاسی شخصیت کی جس کو کچھ عرصہ قبل چپ کروانا مصیبت تھا۔

میاں صاحب نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ’بولنے‘ کو ایک دینی فرض کا درجہ دے کر جہادی جذبے کے ساتھ نبھانے کے لیے کمر باندھی ہوئی تھی۔ کوئی منت ترلا کام نہیں آتا تھا۔ جی ٹی روڑ سے جیل تک اور جیل سے عدالت کے چکروں کے دوران میاں نواز شریف الفاظ کے ذریعے خود کو سیاسی میدان میں ایک تگڑے کھلاڑی کی مانند قائم رکھے ہوئے تھے۔

ان کی بیٹی مریم نواز ان کی ہمنوا تھیں اور سیر کو سوا سیر کرتی تھیں۔ کلام کی اس جنگ میں داؤ پیچ کی تبدیلیاں ہوتی تھیں، کبھی والیم کان پھاڑنے والا اور کبھی دھیمے درجے پر کر دیا جاتا تھا لیکن مکمل خاموشی کبھی طاری نہیں تھی۔

میاں صاحب کی بیماری کے دنوں میں جب وہ بات نہیں کرتے تھے تو مریم نواز ٹوئٹس کے ذریعے ان کے خیالات کے اظہار کے ساتھ نقادوں کو جواب دینے اور سیاسی طنز کے تیر برسانے پر معمور تھیں۔ مگر پھر یکدم جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ میاں صاحب کا لندن میں آنا ایک نہ ٹوٹنے والی خاموشی میں ایسا بدلا کہ آج تک قائم ہے۔

اب اس کو محض اتفاق کے کھاتے میں تو لکھا نہیں جا سکتا۔ نہ اس دلیل میں رتی بھر وزن ہے کہ میاں نواز شریف کی منہ بندی کسی بڑے سیاسی تدبر اور دانش مندی کا عکس ہے جس کے فوائد بعد میں ظاہر ہوں گے۔ 

عام تاثر یہ ہے کہ یہ ایک ڈیل ہے جو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ باقاعدہ  شرائط کے ساتھ طے کی گئی ہے۔ میاں نواز شریف خاموش رہیں تو مریم نواز جیل سے باہر رہیں گی۔ ادھر انہوں نے زبان کھولی ادھر مریم گئی واپس کوٹھڑی میں۔ اس کے علاوہ لندن میں رہائش کے دوران نواز شریف پر پاکستان سے حکومت کی طرف سے ذلت آمیز تنقید اور میڈیا کے ذریعے مہم جوئی سے گریز  بھی اس ڈیل کا حصہ ہے۔

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ نواز شریف اور مریم نواز جو 24 گھنٹے لمبی زبانوں کی زد میں ہوا کرتے  تھے اب شاذو نادر ہی ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ ان سے متعلق زیادہ خبریں بھی نہیں بنتیں اور ان پر لگائے گئے الزامات بھی بہت کم دہرائے جاتے ہیں۔ ہمارے آزاد میڈیا کا یہ فائدہ تو ہے کہ جب چاہیں اپنی پسند کے مطابق موضوع متعارف یا تبدیل کروا سکتے ہیں۔

میاں نواز شریف کی ڈیل والی خاموشی اور اس کے چھوٹے موٹے فوائد اب ایک سیاسی شرمندگی میں بدل گئے ہیں۔ تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والا سیاستدان جو اپنے وجود کے تحفظ کے لیے پوری قوم سے دعاؤں اور نیک تمناؤں کا طلب گار رہتا ہے اس بدترین بحران میں ہمدردی اور ہمت بڑھانے کے لیے دو جملے نہیں کہہ سکتا۔

یہ کون سا سیاسی منتر ہے جس کو نواز شریف پڑھنے میں ایسے مصروف ہیں کہ ملک میں کرونا (کورونا) وائرس کے ہاتھوں لاکھوں بیمار اور ہزاروں جانوں کے جانے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ یہ کون سا اسلوب ہے جس کے تحت  اپنی پارٹی ورکرز اور لیڈران کو مصائب و آلام کی دلدل میں پھنسا دیکھ کر خالی کپ کو گھورنے والی تصویر کو ان کی تسلی کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔

اگر فوج کا سربراہ شیخ رشید کو پھول، نیک تمنائیں اور حفاظت صحت کی ہدایات کھلے عام بھیج سکتا ہے تو میاں نواز شریف چار رسمی جملے ادا کرنے سے اجتناب کیوں برت رہے ہیں۔ کیا ان کی جماعت کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ان کے خاندان کے سیاسی مقدمات میں پیشی کے وقت حاضر  ہو کر کرونا انفیکشن کروائیں۔ یا خود سیاسی استقامت کی قیمت جیلوں اور جوتوں کی بارش سے ادا کریں اور میاں صاحب لندن میں بیٹھ کر خاموشی کا چلہ کاٹتے رہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ اس وقت کچھ کہنے کو نہیں ہے۔ روپے کی بےقدری، معیشت کا تاریخی کباڑہ، مہنگائی کا طوفان، کرونا اور ٹڈی دل کا عذاب اور بڑھتی ہوئی ناامیدی ایسے حقیقی موضوعات ہیں جن کو کمزور ترین قیادت بھی اپنا کر اپنے حریف کو روند سکتی ہے۔ لیکن میاں نواز شریف کا روزہ ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی جماعت کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب سیاس طور پر متحرک ہیں۔ مگر عوامی طور پر جلوہ گر نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو مگر عوامی سیاست کے تقاضے نہ پورے کرنے والا سیاستدان عوام کی نمائندگی کے دعوے کیسے کر سکتا ہے۔

تاریخ اس کی گواہ رہے گی کہ جب یہ ملک ہچکولے کھا رہا تھا اور ہر باشعور شہری انفرادی مفادات اور اجتماعی فلاح کے بارے میں بدترین خدشات سے دوچار تھا تو نواز شریف سیاسی ضعف اور فالج کا شکار ہونے کو سیاسی حکمت سے تعبیر کر رہے تھے۔ اور یہ بھی کوئی تاویل نہیں ہے کہ ان کی جماعت اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور یہ ان کی ہدایت کے مطابق ہے۔

نواز شریف کوئی مفکر، دانشور یا انقلابی شاعر نہیں ہیں۔ نہ ان کے پاس روحانیت کا کوئی درجہ ہے۔ وہ انتخابی سیاست کا عملی حصہ ہیں۔ ووٹ لینے کے لیے عوام سے رابطہ رکھنے والا سیاستدان غائب پیروں اور غیرحاضر زمینداروں کی طرح اپنے معاملات نہیں چلا سکتا۔ وہ یا تو اپنے وجود کو ثابت کرے اور یا پھر فارغ ہو کر کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے یا چائے پینے پر جتنا چاہے وقت گزار دے۔

عوامی رہنما کا بہرہ پن بھی کارآمد نہیں ہے۔ اور جو آنکھ اور کان کھلے رکھنے کے باوجود زبان بند رکھتا ہے تو وہ کیا قائد ہوگا؟ میاں نواز شریف کو کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جس نے ان کی قوت گویائی کو متاثر کیا ہو۔ اگر وہ کسی ڈیل کے تحت خاموش ہیں تو ان سے صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اگر یہی کرنا تھا تو پہلے کر لیتے۔ کم از کم کچھ فائدہ ہی  ہو جاتا۔

اور اگر ان کا دل سیاست سے بھر گیا ہے تو پھر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے اپنی جماعت اور اس ملک کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔ کوئی نہ کوئی سبب اصلاح احوال بن ہی جائے گا۔ ویسے بھی وہ  عوام کے لیے کون سا امدادی کام کر رہے ہیں۔ ساحل پر بیٹھ کر نظارہ ہی تو کر رہے ہیں ان تھپیڑوں کاجن کو لوگ بھگت چکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ