معجزانہ طور پر پھانسی سے بچا، چوتھی برسی ہوتی میری: رانجھا

'میرا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ زمین ہتھیانے کے لیے برادری کے لوگوں نے الزام لگایا ، گھر کے حالات بھی اتنے خراب تھے کہ کوئی کچھ کر ہی نہیں پایا۔' پھانسی کی سزا سے بچنے والے اقبال رانجھا۔۔۔

محمد اقبال رانجھا جیل سے رہائی کے موقعے پر۔ (تصاویر: جسٹس پراجیکٹ پاکستان)

' بائیس برس جیل کے فرش پر سونے کے بعد جب کل رات گھر کی چارپائی پر لیٹا تو یوں محسوس ہوا کہ شاید زندگی میں پہلی بار چارپائی پر لیٹ رہا ہوں۔'

'بمشکل ایک گھنٹہ سو سکا، ساری رات کھلے آسمان تلے لیٹ کر ستاروں کو تکتا رہا اور سوچتا رہا، 'آزادی کتنی بڑی نعمت ہے' جو مجھ سے 22 برس پہلے چھین لی گئی تھی۔'

انڈپینڈنٹ اردو سے ان خیالات کا اظہار کرنے والے 39 سالہ محمد اقبال رانجھا ہیں جنہیں 22 برس پہلے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔

محمد اقبال رانجھا کیس آخر ہے کیا؟

محمد اقبال رانجھا کا کیس کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے اگر آپ کو یاد ہو تو 2016 میں بھی سوشل اور دیگر نیوز میڈیا پر اس کیس کی بازگشت کافی عرصہ تک گونجتی رہی تھی۔

2016 میں اقبال کو پھانسی دیے جانے کا پروانہ جاری ہوا اور اس پھانسی کے خلاف سماجی و قانونی حقوق کی تنظیموں نے آواز اٹھائی کہ اقبال جب قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے تو وہ نابالغ تھے انہیں پھانسی نہیں دی جاسکتی۔

اقبال کوپھانسی سے بچانے اور رہائی دلوانے میں جسٹس پراجیکٹ پاکستان [جے پی پی ] تنظیم کا اہم کردار رہا۔

اس تنظیم کے ترجمان علی حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'محمداقبال کو پولیس نے  1998 میں حراست میں لیاتھا۔  اس وقت منڈی بہاؤ الدین میں پانچ لوگوں نے ایک وین کو لوٹنے کی کوشش کی تھی، وین والے نے مزاحمت کی تو کسی نے گولی چلائی جس سے ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔ اس کیس میں پانچ  افراد پولیس نے پکڑے جن میں محمد اقبال رانجھا بھی شامل تھے۔ جب کہ ان پانچوں میں اقبال کو ملا کر تین ملزمان نابالغ تھے۔ چار ملزمان کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی جب کہ محمد اقبال واحد تھے جنہیں 1999 میں سزائے موت سنائی گئی۔ '

علی حیدر نے بتایا کہ سال  2000 میں 'جووینائل جسٹس سسٹم آرڈنینس 2000' آیا جس کے تحت  نابالغ ملزمان کو موت کی سزا نہیں سنائی جاسکتی تھی۔

جب کہ 2001 میں  ایک صدارتی نوٹفیکیشن جاری ہوا جس کے  تحت جن نابالغ ملزمان کو سزائے موت 'جووینائل جسٹس سسٹم آرڈنینس 2000' سے پہلے سنائی گئی تھی انہیں بھی چھوٹ دی گئی تھی۔

اس کے بعد 2003 میں  ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے لاہور ہائی  کورٹ کو ایک خط بھی لکھا جس میں اس آرڈنینس کو مد نظر رکھتے ہوئے نابالغ قیدیوں کی ایک فہرست تیار کر کے بھیجی گئی تھی اور اس میں محمد اقبال کا نام بھی شامل تھا۔

دوسری جانب 2004 میں اس کیس کے مدعی نے اقبال کو معاف بھی کر دیا تھا۔ قتل ہونے والے شخص کے بیٹے نے کہا تھا کہ اقبال پہلے ہی کافی سزا کاٹ چکے ہیں  ہم نہیں چاہتے کہ انہیں پھانسی دی جائے مگر یہ معافی اس لیے نہیں ہوسکی کیونکہ اقبال پر عائد دفعا ت میں کچھ دفعات ناقابل معافی تھیں۔'

جے پی پی کے ترجمان علی حیدر نے بتایا '2016 میں اقبال کی پھانسی کا آرڈر جاری ہوا جس کی اطلاع جے پی پی کو ہوئی اور ہم نے یہ کیس ٹیک اوور کیا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اقبال کے نابالغ ہونے کا طبی ٹیسٹ ان کو سزائے موت سنانے کے وقت ہی ہوا تھا جس میں یہ ثابت ہوا تھا کہ وہ نابالغ ہیں۔'

انہوں نے بتایا کہ دراصل 'ہو یہ رہا تھا کہ حکومت  یہ معاملہ ہائی کورٹ پر ڈال رہی تھی حالانکہ یہ پنجاب حکومت کی صوابدید تھی کہ جب صدارتی نوٹفیکیشن آگیا تو یہ بات کورٹ میں جانی ہی نہیں چاہیے تھی۔ حکومت خود  اقبال کو چھوٹ دے سکتی تھی۔'

یہ کیس ہائی کورٹ میں چلتا رہا اور پھر رواں برس فروری میں آخری سماعت ہوئی جس کے بعد شارٹ آرڈر 13 مارچ کو آیااور تفصیلی فیصلہ 9 جون کو جاری ہوا۔

اس فیصلے کے تحت اقبال کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

'اس مرحلے کے بعد ہم نے  اقبال کی رہائی کے لیے کارروائی شروع کی ، عموما پاکستان میں عمر قید کی معیاد 20 سال ہوتی ہے اور اقبال تو جیل میں 22 سال گزار چکے تھے۔  اور کورٹ نے بھی اس بات کو مانا کہ اقبال تو اپنی سزا سے زیادہ سزا جیل میں کاٹ چکے ہیں اس لیے انہیں منگل کے روز رہا کردیاگیا۔'

جیل میں 22 برس کیسے گزرے؟

'مجھے بڑوں کی جیل میں رکھا گیا تھا اور جیل ایک عبرت ناک جگہ ہے۔ 22 سال کا عرصہ جیل میں گزارنا آسان نہیں انسان کی زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ یہ وہ احساس ہے جو میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔'

'یہاں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں جن میں کچھ بے گناہ بھی ہوتے ہیں اور کچھ خطرناک بھی۔  پرانے قیدی جو بڑی عمروں کے ہوتے ہیں وہ چھوٹی عمر کے قیدیوں کو تنگ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہر قسم کا برا سلوک کرتے ہیں جس میں جنسی زیادتی بھی شامل ہے، میرے ساتھ بھی کوشش کی گئی۔'

'اس لمحے شدید غصہ اور نفرت میرے اندر پیدا ہوئی مگر بعد میں میں نے اس قیدی سے  منت سماجت کی کہ میں ایسا لڑکا نہیں ہوں مجھے اس کام کے لیے استعمال نہ کروجیل میں موجود اس قیدی کے دوست سے بھی گذارش کی کہ وہ اسے سمجھائیں ، یہ ان کا احسان تھا کہ وہ میری بات سمجھ گئے۔'

محمد اقبال نے بتایا کہ انہوں نے جیل سے مڈل اور میٹرک کے امتحان بھی پاس کیے، جب کہ انہیں دن کے وقت اور شام میں دو  دو گھنٹے کے لیے سیل سے باہر نکالا جاتا تھا اور باقی کے 20 گھنٹے جیل کے اندر ہی گزرتے تھے۔

'جب میں جیل میں تھا تو والدین بہت یاد آتے تھے ان دونوں کا انتقال بھی اس دوران ہو گیا اور مجھے ان کا جنازہ پڑھنا تو دور کی بات آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔'

پھانسی کا قیدی کیا خوف محسوس کرتا ہے؟

محمد اقبال رانجھا نے بتایا 'جب مجھے  معلوم ہوا کہ 30 مارچ 2016 کو مجھے پھانسی دے دی جائے گی تو  بہت خوف آیا۔ جب آپ کو معلوم ہو کہ آپ کو پھانسی دینے کے لیے لے جائے جا رہے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آپ پھانسی سے پہلے ہی مر گئے ہیں۔ مجھے بھی پھانسی سے کچھ وقت پہلے معلوم ہوا کہ جے پی پی نے میری پھانسی پر عدالت سے سٹے لے لیا ہے۔' 'پھانسی کے ملزم کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ اس کے چار دن رہ گئے، دو دن یا پھر یہ کہ تیاری کر لو اب چند گھنٹے رہ گئے ہیں تو اس کے لیے وہ وقت انتہائی مشکل ہوتا ہے، شاید ناقابل بیان۔'

اقبال کے لیے جیل سے باہر کی دنیا 22 برس میں کتنی تبدیل ہوئی؟

'جیل سے باہرمیرے لیے ہر چیز ایسے ہی تھی جیسے میں کسی غیر ملک یا اجنبی جگہ پر ہوں۔ جیل سے گھر آنے تک میرا بھانجا تصور مجھے بتاتا رہا کہ اب ہم فلاں جگہ پہنچ گئے ہیں یا ہم فلاں سڑک سے گزر رہے ہیں۔ سب راستے اور جگہیں  بھول چکاتھا میں ۔ میرے گھر کے ارد گرد بھی بس ایک دو پرانی نشانیاں ہی باقی ہیں۔'

اقبال نے بتایا کہ جیل جانے سے پہلے ان کے خاندان کی ہی ایک لڑکی تھی جن سے وہ شادی کرنا چاہتے تھے۔

'جب جیل میں مجھے ان کی شادی کی اطلاع ملی تو شدید دکھ اور افسوس  ہوا کئی دن تو میں سو نہیں سکا تھا، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے سوچا اگر وہ میرا انتظار کرتیں تو ان کی زندگی کے بھی بائیس برس ضائع ہو جاتے۔ میرے جیل سے آنے کا ان کو علم تو ہو گیا ہو گا مگر اب تک میری ان سے ملاقات نہیں ہوسکی یقیناً وہ بھی بہت تبدیل ہو چکی ہوں گی جیسے میں بدل گیا۔'

محمد اقبال کا مستقبل کیا ہے؟

'اس وقت تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ میرا مستقبل کیا ہے، میں  ذہن پر بہت زیادہ دباؤ محسوس کر رہا ہوں۔ خوشی بھی ہے اورتکلیف بھی ؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے ان نئے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرنا بہت مشکل ہو گا، ایک بچہ ہوتا ہے وہ جوان ہوتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دوست ہیں دشمن ہیں۔ میراحال اس  کے برعکس ہے۔'

'جیل کے اندر ہی جوان ہو گئے اور عمرکا درمیانی حصہ بھی آگیا، مجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں کسی کے لیے کوئی تحفظ موجود ہی نہیں ہے۔'

'میں کوشش کروں گا میں اس ملک میں نہ رہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یوں ہی باقی ساری زندگی گزر جائے گی کیونکہ میری زندگی تو ویسے ہی برباد ہو چکی ہے۔'

کیامحمداقبال نے واقعی میں قتل کیا تھا؟

انڈپینڈِنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے محمد اقبال کا کہنا تھا، 'میرا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا میں نے گولی نہیں چلائی تھی۔ ہمارے پاس چند ایکڑ زمین ہے اسی کو ہتھیانے کے لیے ہماری برادری کے لوگوں نے مجھ پر یہ الزام لگایا۔ میرے گھر کے حالات بھی اتنے خراب تھے کہ کوئی کچھ کر ہی نہیں پایا اگر جے پی پی بروقت میری مدد نہ کرتی اور میں معجزانہ طور پہ نہ بچتا تو میرے خاندان والے اس سال میری چوتھی برسی منا چکے ہوتے۔'

جے پی پی کے ترجمان علی حیدر حبیب کہتے ہیں اقبال کا کیس جے پی پی بننے سے بہت پراناہے۔

'ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ بے قصور تھے یا نہیں لیکن کیس میں اتنے لوپ ہولز ہیں جیسے واقعہ اندھیرے میں پیش آیا ہو۔ چشم دید گواہ جو پولیس نے پیش کیے ان میں سے کوئی بھِی وقوعے کے وقت  موقع پرموجودنہیں تھا۔ '

'اقبال کو وقوعے کے ایک دو ماہ بعد گرفتار کیا گیا اقبال کو جرم قبول کرنے کے لیے تشدد کا شکار بھی کیا گیا، یہ سب ذہن میں رکھ کر دیکھا جائے تو کم از کم اقبال کو سزائے موت دینا بنتا بھی نہیں تھا۔'

علی حیدر حبیب نے بتایا کہ حالیہ جاری کردہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان کی مختلف جیلوں میں نابالغ قیدیوں کی تعداد 1072 ہے۔

جن میں  پنجاب کی مختلف جیلوں میں  538، سندھ میں 159 کے پی میں 354 اور بلوچستان میں 21  قیدی مختلف جرائم میں سزا کاٹ رہے ہیں ۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی