ایک گھریلو خاتون اقلیم اختر سے ’جنرل رانی‘ کیسے بنی؟

ایک معمولی سے گھرانے سے اٹھ کر اقتدار کے ایوانوں کا سفر کرنے والی اقلیم اختر رانی کے راتوں رات عروج اور اتنے ہی اچانک زوال کی عجیب و غریب داستان۔

(پبلک ڈومین)

شاہِ ایران سرکاری دورے پر پاکستان آئے ہوئے تھے۔ جب ان کی واپسی کا وقت آیا تو صدر یحییٰ اپنے کمرے سے نہیں نکل رہے تھے۔ پروٹوکول کا بہت سنگین مسئلہ پیدا ہو گیا کیوں کہ کوئی ان کے بیڈ روم میں داخل ہونے کی جرات نہیں کر رہا تھا۔

سابق آئی جی پولیس سردار محمد چوہدری نے اپنی آپ بیتی ’جہانِ حیرت‘ میں لکھا ہے کہ ’آخر صدر کے ملٹری سیکریٹری جنرل اسحٰق نے اقلیم اختر رانی سے کہا کہ وہ اندر جائے اور صدر کو باہر لائے۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو ملک کی ایک مشہور ترین گلوکارہ کو صدر کے رنگ رلیاں مناتے پایا۔ خود رانی کو اس منطر سے بڑی کراہت محسوس ہوئی۔ اس نے کپڑے پہننے میں صدر کی مدد کی اور بدقت تمام اسے باہر لائی۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ ’جہانِ حیرت‘ کے انگریزی روپ The Ultimate Crime: Eyewitness to Power Games میں تو چوہدری صاحب نے اس ’رنگ رلی‘ کی تھوڑی وضاحت بھی کی ہے، لیکن اردو میں گول مول کر گئے۔ خیر جو بات انہوں نے چھپا دی، ہم کیوں ظاہر کریں؟ 

دوسری بات یہ کہ انہوں نے ’مشہور ترین‘ گلوکارہ کا نام لکھنے سے گریز کیا ہے، لیکن اسی کہانی میں آپ نیچے چل کر دیکھیں تو شاید یہ معمہ حل ہو جائے۔ 

یہ اقلیم اختر رانی کون تھیں اور انہیں پاکستان کی طاقتور ترین خواتین میں سے ایک کیوں کہا جاتا ہے، حالانکہ نہ تو وہ سیاست دان تھیں نہ کسی نوابی یا جاگیردار خانوادے سے تعلق تھا اور نہ ہی ان کا واسطہ ادب یا شو بزنس سے تھا۔

ملکی سالمیت کے لیے خظرہ

اس عجیب و غریب کردار کا اصل نام تو اقلیم اختر رانی تھا لیکن وہ ملک کے گوشے گوشے میں ’جنرل رانی‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ایک زمانے میں ان کے مقام و مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 17 دسمبر 1971 کو جب پاکستانی فوج نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے تو اس کے چند دن بعد جنرل رانی کو گجرات میں ان کے گھر میں نظر بند کر کے باہر پولیس کا پہرا لگا دیا گیا اور ساتھ ہی ان کا فون کاٹ دیا گیا۔ نظر بندی کے حکم میں انہیں تنبیہ کی گئی کہ وہ کوئی ایسا بیان نہیں دیں گی جو پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے منافی ہو۔

اس موقعے پر اخباروں میں جو سرخیاں لگیں وہ بھی ایک نظر دیکھ لیجیے:

رانی جو کبھی پاکستان کی ملکہ تھی، اپنے گھر میں نظر بند کر دی گئی (نوائے وقت)

رانی، جس نے مجرموں کو معافی دلوائی اور تاجروں کو لائسنس دلائے (مساوات)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک عورت، جس کے پاس کوئی سیاسی یا فوجی عہدہ نہیں اس کا حکم ملک کے صدر پر کیسے چلتا تھا؟ انہیں اخبار پاکستان کی ملکہ کیوں کہتے تھے اور وہ مجرموں کو معافی کیسے دلوا دیتی تھی؟ اور سب سے بڑھ کر وہ ملک کی سالمیت اور دفاع کے لیے اتنی خطرناک کیسے سمجھی گئی کہ اس پر پہرہ بٹھا دیا جائے؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ملک کی گنجلک تاریخ کی چند گردآلود راہداریوں میں جھانکنا پڑے گا۔

اقلیم اختر 1931 میں گجرات کے ایک چھوٹے سے زمیندار کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ کچھ عرصہ تو وہ سکول جاتی رہیں مگر میٹرک نہیں کر سکیں۔ کم عمری ہی میں ان کی شادی ایک پولیس افسر سے کر دی گئی۔ یہ شادی کئی سال چلی اور اس دوران اوپر تلے ان کے چھ بچے پیدا ہوئے۔

یہاں تو حالات بالکل اس زمانے کے رواج اور معمول کے مطابق چلتے رہے، اس کہانی میں یکلخت ایک موڑ ایسا آیا جس نے پلاٹ تلپٹ کر دیا۔

ہوا کا وہ تاریخ ساز جھونکا

60 کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے کہ اقلیم اختر اپنے خاوند کے ساتھ مری کی مشہور مال روڈ پر چہل قدمی کر رہی تھیں۔ خاتون نے وقت کے عام دستور کے مطابق برقع اوڑھ رکھا تھا۔ اس دوران اچانک ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا۔

معلوم نہیں آپ نے عظیم جاپانی فلم ساز اکیرا کروساوا کی فلمیں دیکھی ہیں یا نہیں۔ ان میں جب بھی کوئی ڈرامائی یا جذباتی واقعہ رونما ہونے لگتا ہے تو اس سے پہلے تیز ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس دن مری کی مال روڈ پر ہوا چلی وہ محض  فنی حوالے سے اہم نہیں تھا، بلکہ خود کہانی کا کردار بن گیا۔ اس جھونکے نے وہ الاؤ بھڑکایا جس نے آنے والے برسوں میں بہت سوں کے کردار اور کیریئر کو خاکستر کر ڈالا۔  

اقلیم اختر نے 2002 میں نیوز لائن کی عائشہ ناصر کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جھونکے کا لمس اپنے چہرے پر محسوس کرنے کے لیے انہوں نے ایک لمحے کو نقاب اٹھا دیا۔ روایتی تھانے دار خاوند کو اپنے چھ بچوں کی ماں کا چہرہ مال روڈ پر لوگوں کے درمیاں یوں عریاں ہونا پسند نہیں آیا اور انہوں نے بیوی کو ڈانٹ پلائی بلکہ اپنی پولیس کی چھڑی سے ٹہوکا بھی دے دیا۔

اقلیم اختر کہتی ہیں کہ بس یہی وہ لمحہ تھا جس نے ان کے اندر بغاوت کا شعلہ بھڑک گیا۔ خاوند کی ڈپٹ میں انہیں اتنی ذلت محسوس ہوئی کہ انہوں نے وہیں اپنا برقع نوچ کر مال روڈ پر پھینک دیا۔

وہ کہتی ہیں: ’مجھے لگا کہ بس بہت ہو گئی۔ میرے اندر کئی مہینوں سے غصے اور محرومی کے جذبے پل رہے تھے۔ اس دن سب کچھ باہر آ گیا۔ میں اپنے خاوند کے مفلر کے چیتھڑے اڑانا چاہتی تھی، اس کے چہرے کو نوچ ڈالنا چاہتی تھی، اس کے بال اکھاڑ دینا چاہتی تھی۔ مجھے صرف ایک بات نے روکا کہ اس وقت مال روڈ پر بہت بھیڑ تھی۔‘

اقلیم اختر نے اسی وقت تہیہ کر لیا کہ اب وہ کسی خاوند کی بیوی بن کر نہیں رہیں گی۔ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں گی اور اپنی مرضی کی زندگی گزاریں گی جہاں انہیں روکنے ٹوکنے اور ڈانٹنے ڈپٹنے والا کوئی نہ ہو۔

وہ اسی انٹرویو میں کہتی ہیں کہ ’میں مردوں کو انہی کے کھیل میں شکست دینا چاہتی تھی۔ میرا خاوند پولیس میں تھا اس لیے میں نے بہت سے طاقتور مردوں کو دیکھا تھا اور مجھے احساس ہوا کہ تمام طاقتور مردوں کو اپنی بھڑاس نکالنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اور یہ بھڑاس کسی بستر کے ساتھی کی صورت میں نکل سکتی ہے۔ مرد کا عہدہ جتنا بڑا ہو گا، اس کی یہ ضرورت اتنی ہی شدید ہو گی۔‘

اقلیم اختر نے مردوں کی یہی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک ایجنسی کھول لی، جس میں کئی خوبرو لڑکیاں ان کے لیے کام کرنے لگیں جن میں فلموں کی بعض ناکام ادکارائیں بھی شامل تھیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کراچی یا لاہور جیسے بڑے شہروں کی بجائے راولپنڈی کا انتخاب کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ان دو شہروں میں نیپیئر روڈ اور ہیرا منڈی کی شکل میں پہلے ہی مقابلہ بہت سخت تھا۔

روئی اور چنگاری

اسی دوران کسی طرح سے جنرل یحییٰ اور اقلیم اختر کے ستارے ٹکرا گئے۔ یہ ملاقات کہاں ہوئی، کن حالات میں ہوئی، اس بارے میں مختلف راوی مختلف کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ خود اقلیم کہتی ہیں کہ یہ ملاقات ناؤ و نوش کی ایک محفل میں ہوئی تھی، یحییٰ خان بتاتے ہیں کہ میں جنرل رانی کو بچپن سے جانتا ہوں جب میرے والد کی گجرات میں پوسٹنگ تھی۔ سردار چوہدری نے لکھا ہے کہ یہ دونوں پہلی بار سیالکوٹ میں ملے جہاں رانی سی ایم ایچ میں زیرِ علاج تھیں۔

ملاقات چاہے جہاں ہوئی، اور جن حالات میں ہوئی، بہرحال کچھ ایسا ہی واقعہ ہوا جیسے روئی کو چنگاری دکھا دی گئی ہو۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ اقلیم اختر کے ہاں باقاعدگی سے آنے جانے لگے۔ حتیٰ کہ سردار چوہدری کے بقول 1965 کی جنگ میں جب یحییٰ خان چھمب جوڑیاں سیکٹر کے انچارج تھے، اس وقت بھی محاذِ جنگ پر گولوں کی دھنادھن سے اکتا، تھوڑا وقت نکال، اپنے الجھے ہوئے ذہن کو طراوت بخشنے فوجی ہیلی کاپٹر میں رانی کے گھر چلے جایا کرتے تھے۔

جنرل یحییٰ کی نظریں جنرل رانی کے علاوہ صدارت کی کرسی پر بھی لگی تھیں، اس لیے انہوں نے کچھ ایسی ڈوریاں ہلائیں کہ جنگ کے تین برس بعد ہی جنرل ایوب باگیں یحییٰ خان کو سونپ کر اقتدار کے سرکش گھوڑے سے اتر گئے۔ ضرورت نہیں تھی، لیکن یحییٰ خان ملک میں دوسرا مارشل لا نافذ کر کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ جنرل یحییٰ کا اقبال بلند ہوا تو بیگم اقلیم کے اختر بھی اوپر اٹھتے چلے گئے۔

دروغ بر گردنِ راوی، لیکن کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنرل صاحب اور ملک کی دوسری طاقتور اور مقتدر ہستیوں کی ’بھڑاس‘ نکالنے کا کام صنعتی پیمانے پر کرنا شروع کر دیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب اخباروں میں ان کا تذکرہ ’جنرل رانی‘ کے نام سے ہونے لگا۔ مشہور ہے کہ یہ خطاب انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔ 

کہا جاتا ہے کہ اداکارہ ترانہ بھی جنرل رانی کی ٹیم کا حصہ تھیں، تاہم جس بڑی شخصیت کو اقلیم اختر نے جنرل یحییٰ خان متعارف کروایا وہ میڈیم نور جہاں ہیں۔

یحییٰ خان کو میڈم کی آواز پسند تھی (کم از اس معاملے میں انہیں صاحبِ ذوق کہا جا سکتا ہے!) جنرل رانی کے بقول، ایک رات کسی عالم میں انہوں نے نور جہاں کا گیت سننے کی فرمائش کی تو جنرل رانی نے کہا گیت کیا میں آپ کو خود نورجہاں سے ملوا دوں گی، اور چند دنوں کے اندر اندر جنرل رانی نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔

اگر آپ کو یاد نہیں تو یاد دلا دوں کہ یہ وہی زمانہ ہے جب مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی جاری تھی اور ملک دو حصوں میں ٹوٹنے والا تھا۔

ملک کا خدا ہی حافظ

یحییٰ خان باصلاحیت اور ذہین فوجی افسر تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں وہ بحیرۂ روم کے محاذ پر لڑے اور جرمنوں کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے۔ انہیں اعزاز حاصل ہے کہ  وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر میجر جنرل ہیں۔ انہوں نے نئے دارالحکومت اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں کلیدی کردار ادا کیا اور کچھ عرصہ سی ڈی اے کے چیئرمین بھی رہے۔

تاہم شراب و شباب کی عادت اور سب سے بڑھ کر اقتدار کی لت نے یحییٰ خان کو مکمل طور پر اپاہج بنا کر کے رکھ دیا۔ اسے پاکستان کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور میں اس کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں تھی جو فہم و فراست تو ایک طرف، ہوش و حواس تک سے بیگانہ تھا۔

سابق آئی جی پنجاب راؤ رشید نے اپنی کتاب ’جو میں نے دیکھا‘ میں لکھا ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی عروج پر تھی، اسی دوران یحییٰ خان پشاور میں سرکاری خرچ پر  تیارہ شدہ اپنے بنگلے کا افتتاح کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس تقریب میں  جنرل رانی بھی شریک تھیں۔ آگے کا حال راؤ صاحب ہی سے سنیے:

’سوئمنگ پول کے سامنے رات کے ایک دو بجے تک شراب وغیرہ چلتی رہی۔ بڑا ہاؤ ہو ہوتا رہا۔ سرخ لائٹیں لگی ہوئی تھیں۔ وہاں پشاور کا ایک جرمن ۔۔۔ تھا، اس کی بیوی بڑی خوبصورت تھی اور اس کے متعلق مشہور تھا کہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہے۔۔۔ وہ بکینی پہن کر سب کے ساتھ نہا رہی تھی۔۔۔ کھیل یہ تھا کہ اس محترمہ کو جرنیل اٹھا اٹھا کر سوئمنگ پول میں پھینکتے تھے، وہ پھر باہر نکلتی تھی، قہقہے لگتے تھے۔

’یہ اس وقت کا حال ہے جب ایسٹ پاکستان میں ہمارے بےشمار فوجی مارے جا رہے تھے اور ایسٹ پاکستان کے آخری دن تھے۔ چونکہ یہ قصہ میرے گھر کے سامنے ہو رہا تھا، میں دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اگر یہی حال ہے تو پھر ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔‘

’رانی میری بہن کی طرح ہے‘

جنرل یحییٰ خان کے زوال کے بعد جنرل رانی کا ستارہ بھی گہنا گیا اور انہیں کئی ماہ تک نظر بند رکھا گیا۔ مشہور وکیل ایس ایم ظفر نے ان کا مقدمہ لڑا اور کوشش کر کے انہیں رہا کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ اپنی کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل رانی کو ذوالفقار بھٹو پر بڑا غصہ تھا کہ ان کے دور میں ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہو رہا ہے۔ انہوں نے ایس ایم ظفر کو ایک خط میں لکھا:

’میری دوستی یحییٰ خان سے زیادہ تو بھٹو صاحب سے تھی۔ ایک سال سے وہ میرے آگے پیچھے رہے۔ میں ان کے لیے دعوتوں کا اہتمام کرتی رہی ۔ ۔ ۔‘

بھٹو صاحب کے علاوہ بھی کئی پردہ نشینوں کو خدشہ تھا کہ جنرل رانی ان کے راز نہ کھول دے۔ اس کا ذکر سردار چوہدری کی زبانی سن لیجیے:

’جنرل رانی کے پاس یحییٰ خان اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات کا طومار تھا۔ اس کے بقول یحییٰ خان نے نومبر 1968 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا شروع کر دی تھی۔۔۔ وہ فوج کے تقریباً ہر اہم آدمی کو جانتی تھی اور جرنیلوں کی رنگ رلیوں، سمگلنگ، زر اندوزی، اور دیگر کرتوتوں پر مبنی بہت سے کہانیوں سے واقف تھی۔‘

چوہدری صاحب کی معلومات میں اس لیے شک نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل رانی کی نظر بندی کے دوران انہی نے 28 دن تک ان سے پوچھ  گچھ کی تھی۔

بعد میں جنرل رانی کا معاملہ حمود الرحمٰن کمیشن تک بھی پہنچا۔ جب کمیشن نے یحییٰ خان سے جنرل رانی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا:

’میں اس خاندان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب میرے والد آغا سعادت علی کی بطور ایس پی گجرات میں پوسٹنگ ہوئی۔ یہ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے۔ رانی میری بہن کی طرح ہے۔‘

ایس ایم ظفر کی موٹر کا معمہ

جنرل رانی کی نظربندی ختم ہوئی تو انہو ں نے ایس ایم ظفر سے ملاقات کر کے شکریہ ادا کرنا چاہا۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ اتفاق سے ان دنوں میری گاڑی چوری ہو گئی تھی اس لیے جب جنرل رانی کی طرف سے کال آئی تو میں نے معذرت کر لی کہ میں نہیں آ پاؤں گا۔ اس پر انہوں نے اپنے بیٹے محسن رضا کو گاڑی دے کر بھیج دیا کہ وہ مجھے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل لے آئے جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھیں۔

خیر، ملاقات ہوئی اور جنرل رانی نے  اپنے وکیل کا شکریہ ادا کیا جس کی وجہ سے ان کی جلد رہائی ممکن ہو سکی۔ اس کے بعد کا واقعہ بےحد دلچسپ ہے۔ ایس ایم ظفر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ایک ماہ بعد سول لائیز پولیس سٹیشن لاہور سے اطلاع ملی کہ میری کار برآمد ہو گئی ہے۔ ہم نے ڈی اسی پی سے پوچھا کہ ہماری کار کہاں سے ملی؟ انہوں نے جواب دیا کہ آخری بار یہ کار محسن رضا کے پاس تھی۔ گویا ہم اپنی کار میں بیٹھ کر انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل گئے اور پھر اسی میں واپس اپنے گھر پہنچے۔‘ 

ایس ایم ظفر نے اس تحریر کے آخر میں چار سوال اٹھائے ہیں:

  • جنرل رانی جنرل یحییٰ تک کیسے پہنچی؟
  • بھٹو اور کھر جنرل یحییٰ تک کیسے پہنچے؟
  • جنرل رانی اور جنرل یحییٰ نظر بندی تک کیسے پہنچے؟
  • میری کار جنرل رانی تک کیسے پہنچی؟

ہم اپنی طرف سے پانچویں سوال کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں:

  • اگر اس دن مری کی مال روڈ پر ہوا کا وہ جھونکا نہ چلتا تو کیا پاکستان کی تاریخ اتنی ہی رنگینی و سنگینی تک پہنچتی؟

٭٭٭٭

یہ بتانا ضروری تو نہیں لیکن ضمناً سن لیجیے کہ جنرل رانی عدنان سمیع خان کی رشتے کی اور فخرِ عالم کی سگی نانی ہیں۔ ان کا انتقال یکم جولائی 2002 کو لاہور میں ہوا۔

  

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ