صرف عذیر بلوچ جے آئی ٹی کافی نہیں

2011 میں عذیر بلوچ جیسی ہی ایک جے آئی ٹی کے سامنے 111 افراد کے قتل کا اقبال جرم کرنے والا اجمل پہاڑی 2013 میں باعزت بری کیا گیا، رہائی کے بعد پھر وہی روش رہی پھر پکڑا گیا۔

عذیر بلوچ حراست میں (تصویر:کراچی رینجرز)

عفت حسن کا یہ کالم آپ یہاں ان کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں:

 

فائل کی پیمنٹ ہوگئی؟

ٹی وی پر میچ آرہا ہے، دیکھا؟

ارے وہ گھڑی کس نے خریدی تھی؟

ایک ٹارگٹ کلر کی دوسرے سے فون پر خفیہ الفاظ و اشاروں میں گفتگو کچھ ایسے ہوتی ہے۔ یہ بالی وڈ فلم نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے مبینہ ٹارگٹ کلر کا اقبالی بیان ہے جو اس نے جے آئی ٹی کے سامنے دیا۔ یہ رپورٹ ہوچکے کیس ہیں جن کی گاہے بگاہے ویڈیوز بھی نامعلوم مقام سے لیک کر دی جاتی ہیں۔

 یہ اقبالی بیان کا اعجاز ہے کہ یہ کسی بھی ضرورت کے وقت تبدیل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات تفتیشی افسر کے سامنے کچھ اور، پھر جو شور مچے اور جے آئی ٹی بنے تو اس کے سامنے کچھ اور۔ یہاں تک کہ جب سولی پر چڑھنے کا وقت قریب ہو تو کیمرے کے سامنے کچھ اور ہی ہوتا ہے۔

جو مجرم مار کھا کھا کر بیان کردے اسے قانونی چارہ جوئی میں اقبال نامہ بھی کہتے ہیں۔ ہمارے علامہ اقبال تو علم و ادب کا استعارہ ہیں مگر قانون کی دنیا میں اقبال نامہ دراصل مجرموں کا اعمال نامہ کہلاتا ہے۔

خبریں گرم ہیں کہ لیاری کے سپوت عذیر بلوچ نے تو یادداشتوں کی گانٹھیں کھول کھول کر تفتیشی افسران کے سامنے رکھ دی تھیں لیکن پھر اس اقبال نامے میں اپنی جھلک دیکھ کر کتنے ہی باعزت سیاستدان، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اپنا منہ اور جے آئی ٹی کی رپورٹ چھپاتے پھرے۔

ویسے تو اللہ کبھی کسی کو ایسی ڈگر پہ نہ چلائے کہ انسانوں کی جانیں لینی پڑیں لیکن ہماری دعاؤں کا کیا، یہ قتل تو روئے زمین پر اسی وقت ہونا شروع ہوگئے تھے جب آدم، حوا، ہابیل اور قابیل نام کے صرف چار انسان موجود تھے۔ زمین اللہ والوں کے پسینے اور ناحق قتل ہونے والوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔

ایسے کرائے کے قاتلوں کے ان لمحات کو سوچیں جب یہ پکڑے جاتے ہیں۔ چونکہ یہ اپنے ہاتھوں سے کتنی زندگیوں کو موت کا فیصلہ سنا چکے ہوتے ہیں، اس لیے یہ شدید پراعتماد ہوتے ہیں کہ ان کا بال بیکا نہیں ہوسکتا۔

انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے سیاسی مائی باپ انہیں بچالیں گے۔ یہ قانون خرید لیں گے، ضرورت پڑی تو وکیل نہیں جج کر لیں گے۔ سیاہ کوٹ والے ایسا جال پھینکیں گے کہ عدم ثبوتوں کی بنا پر باعزت بری کا تمغہ سجائے باہر نکلیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ ہم نے جمہوریت کی خاطر جیلیں کاٹیں۔

پنجاب پولیس کے انسپکٹر عابد باکسر ماورائے عدالت قتل کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے ن لیگی رہنماؤں کے حوالے سے کیا کیا نہ انکشافات کیے، پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ یہ ایک ایک کر کے تمام مقدمات سے باعزت بری ہوئے، گلاب کی پتیوں سے استقبال کیا گیا۔

بہت سے لوگ تو اب بھول بھی گئے ہوں گے کہ ایک ہوتا تھا اجمل پہاڑی، جس نے ایم کیو ایم کے خلاف ہوشربا انکشافات کیے تھے۔ 2011 میں عذیر بلوچ جیسی ہی ایک جے آئی ٹی کے سامنے 111 افراد کے قتل کا اقبال جرم کرنے والا اجمل پہاڑی 2013 میں باعزت بری کیا گیا، رہائی کے بعد پھر وہی روش رہی پھر پکڑا گیا۔ آخری اطلاعات تک یہ اجرتی قاتل جیل میں قید ہے۔ اس کی قسمت کا فیصلہ کب ہوتا ہے فی الحال واضح نہیں۔

آپ دیکھیں گے جب کبھی یہ ٹارگٹ کلرز پکڑے جاتے ہیں تو وہ رہنما جو ان کی دھمکیوں پر الیکشن کے ٹکٹ جاری کرچکے تھے، وہ پارٹی قیادت جو ان سے مطلب کے بندے مارنے، دہشت پھیلانے اور سیاسی رقیبوں کو سبق سکھانے کا کام لیتی رہی، وہ انہیں رینجرز کے نرغے میں دیکھتے ہیں تو پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ عذیر بلوچ کا تو کیس ابھی تازہ ہے۔

سیاسی جماعتوں کی آستینوں میں پلے یہ ناگ اگر پکڑ لیے جائیں اور پارٹی کی مدد بھی نہ ملے تو خود کو بچانے کی خاطر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں، یہ نہتے ہوتے ہیں مگر راز اگلنے کا ہتھیار ان کے پاس ہوتا ہے۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ پارٹی کا بڑا مقصد سامنے ہو تو ان جیسے قاتلوں کو نہیں اپنی سیاست اور بڑے ناموں کو بچایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایک کر کے ان پردہ نشینوں کے رخ سے نقاب اٹھاتے ہیں۔

پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اس سے انکار نہیں کر سکتی کہ اس کا عسکری ونگ نہیں یا ایسے غنڈہ گرد عناصر ان کے منظور نظر نہیں۔ ایم کیو ایم کا کیس مہاجروں کے حقوق سے ہوتا ہوا لسانیت، عصبیت اور پھر دشمن ملک کے ہاتھوں استعمال ہونے تک آیا مگر دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس مقابلے میں زیادہ پیچھے نہیں۔

ایک جے آئی ٹی سے کام نہیں چلنے والا، یہاں تو نجانے کتنی جے آئی ٹیز بنانے کی ضرورت ہے۔ تمام ہی سیاسی جماعتوں کی گود ایسے مسلح گروہوں سے بھری ہوئی ہے، کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑنے والے اجرتی قاتل پکڑے جاتے ہیں، بڑے بڑے لیڈروں کے نام لے لے کر انکشافات کرتے ہیں اور پھر معاملہ بڑی خبروں میں ایسا دب جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

 پیپلز پارٹی کے گھر کا لڑکا عذیر بلوچ ہے تو پنجاب پولیس کا انکاؤنٹر سپیشلسٹ عابد باکسر بھی کہتا ہے کہ وہ ن لیگ کے کھٹولے میں جھولا جھولتا رہا۔ سرکاری طور پر جاری کی گئی تصویریں بتاتی ہیں کہ نواز شریف کے دور میں شدت پسند گروہوں کو اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں چائے سموسے کھلائے گئے۔

پنجاب میں ملک احسان، گوگی بٹ اور طیفی بٹ گروپس کیسے بنے، سیاستدانوں کے لیے یہ کہاں کہاں کام آئے، پنجابی طالبان کیسے وجود میں آئے؟ یہ سب کوئی اتنا بھی خفیہ تو نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوامی نیشنل پارٹی کراچی اور ٹارگٹ کلر لیاقت ٹینشن کی پینگیں کراچی کے صحافی جانتے ہیں۔ جماعت اسلامی اور اسلامی شدت پسند گروہوں کی آپسی وابستگی سے کون انکار کر سکتا ہے۔ بنائیں سب کی جے آئی ٹی۔

یہ جوائنٹ انویسٹی گیشن فاطمہ جناح کے آخری ایام سے شروع کی جائے، سانحہ قصبہ، سہراب گوٹھ حملہ، سانحہ کچا قلعہ سب کی جے آئی ٹی پھر سے بنے۔

بنانی ہی ہے تو پنجاب میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے پیچھے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کردار پر بھی جے آئی ٹی بنائیں، یہاں تک کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ مرنے والوں کو بھی انصاف ملے۔

ایک ایسی بھی جے آئی ٹی بنائیں جو تمام جے آئی ٹیز میں سامنے آنے والے افسران سے بھی پوچھ گچھ کرے، بتائے عوام کو کہ کیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی ان سانحات میں معاون بنتے ہیں۔

ابھی قاضی فائز عیسیٰ کیس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے تھے کہ درازوں میں کیس سنبھال کر رکھے جاتے ہیں، جیسے ہی ضرورت پڑی دراز کھول لی. سپریم کورٹ نے تو خیر ڈوگر نامی صحافی نما خبری کی بھی خوب خبر لی ہے جسے جج کی بیگم کا نام نہیں پتہ تھا مگر جائیدادوں کی تفصیل مل گئی۔

یہ وہ درازیں ہیں جو فائلوں، اقبالی بیان کی ویڈیوز اور جے آئی ٹی کی مبینہ رپورٹس سے لدی ہوتی ہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے علی زیدی صاحب کو ایسی ہی کسی دراز سے نکال کر عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ دی گئی ہے۔ وہ خود بھی یہی بتاتے ہیں کہ کوئی بائیک والا یہ رپورٹ گھر دے گیا۔

اگر جھاڑو ہی پھیرنی ہے تو ڈھنگ سے پھیریں، پورے گھر کی طہارت کیجیے۔ یہ ہر کچھ عرصے بعد لیک ویڈیو، لیک رپورٹ یا لیک بیان میں ایک ولن دکھا کر سیاسی جماعتوں کو کان پکڑوانے کا سلسلہ اب پرانا ہوچکا، یہ فارمولا ایکشن تھرلر فلمیں اب پٹ چکی ہیں۔

صرف عذیر بلوچ جے آئی ٹی کافی نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ