اس طرح تو ہوتا ہے چوہدریوں کے کاموں میں

چوہدریوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی نے اپنے ساتھ کیا۔ صنم بھی بھاگ گیا اور وقار بھی۔

گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان جیسے تمام سیاسی گروہوں کے لیے ایک سبق سے کم نہیں۔

گجرات کے چوہدریوں کو بھی پتہ چلا ہو گا کہ کس بھاؤ بکتی ہے اور آج کل منڈی میں بھاؤ کون طے کرتا ہے۔ کہنے کو تو سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے۔

پنجاب میں حکومت ق لیگ کی قربانی کے حصے سے بنی۔ مرکز میں عمران خان جیپ اور سائیکل پر سواری کر کے وزیر اعظم ہاﺅس پہنچے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا دروازہ پرویز الہیٰ بطور سپیکر کھولتے اور بند کرتے ہیں۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

لیکن یہ سب کچھ ایک طرف اور عمران خان کے پیر و مرشد کی منشا دوسری طرف۔ جونہی یہ خبر چلی کہ چوہدری برادران اڑان بھرنے کی سوچ رہے ہیں تو نیب نے اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ اخبار میں چھپی ہوئی تفصیل کو پڑھیں تو یوں لگے گا کہ ن اور ق میں فرق ختم ہو گیا ہے اور پرویز الہیٰ سمیت شجاعت حسین اور ان کی اولادیں شریفوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔

الزامات کی فہرست ملاحظہ کیجیے۔

نیب رپورٹ کے مطابق چوہدری برادران نے بےنامی اکاؤنٹس استعمال کر کے منی لانڈرنگ کی۔ 1985 سے 2018 تک چوہدری شجاعت کی دولت میں دو ارب 55 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ 2019 تک شیئر ہولڈنگ 21 لاکھ سے بڑھ کر 51 کروڑ 84 لاکھ تک پہنچ گئی۔

شجاعت حسین نے اس دوران مبینہ طور پر 12 کروڑ 30 لاکھ روپے کی املاک بھی بنائیں جبکہ خود اور بیٹوں سالک حسین اور شافع حسین نے اپنی ہی ملکیتی مختلف کمپنیوں کو ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ کے قرضے دیے۔ رپورٹس میں بتایا گیا کہ چوہدری شجاعت اور ان کے بیٹوں کے اکاﺅنٹس میں بیرون ملک سے 58 کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقم منتقل ہوئی لیکن بھیجنے والے پانچ افراد اس بات سے انکاری ہیں کہ انہوں نے چوہدری فیملی کے اکاؤنٹس میں کوئی رقم منتقل کی۔ پانچوں افراد تفتیش کا حصہ ہیں۔

پرویز الہیٰ اور ان کی فیملی کے اثاثوں میں 1985 سے 2018 تک 4.069 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ انہوں نے 25 کروڑ روپے کی جائیداد بھی خریدی۔ پرویز الہیٰ کی فیملی کے اکاﺅنٹس میں 97 کروڑ 80 لاکھ روپے بیرون ملک سے منتقل ہوئے۔ بھیجنے والے تین افراد اس بات سے انکاری ہیں کہ انہوں نے رقم بھیجی۔ اب یہ تینوں افراد بھی تفتیش کا حصہ ہیں۔

نیب کے مطابق بظاہر لگتا ہے کہ بےنامی اکاﺅنٹس سے منی لانڈرنگ ہوئی اور بیرون ملک سے پیسہ منگوایا گیا۔ چوہدری برادران سے بارہا آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں پوچھا گیا لیکن وہ ذرائع بتانے میں نا کام رہے لہٰذا لاہور ہائی کورٹ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواستیں خارج کرنے کا حکم دے۔

خود بتائیں کہ پچھلے چار سال میں عمران خان نے جو کچھ شریف خاندان کے بارے میں کہا کیا وہ سب کچھ اس تحریر میں موجود نہیں؟ اب چوہدری برادران اس کارروائی کو اپنی بدترین سیاسی ہتک سمجھیں گے مگر ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ عمران خان وقتی محبت پالنے کے باوجود ان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ وہ جلسوں میں ان کو بدترین القابات سے پکار چکے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی خواہش ان کی اس شرط پر پوری نہ ہو پائی تھی کہ وہ چوہدریوں کے بغیر پرویز مشرف کا ہراول دستہ بننا چاہتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بریفنگ میں خود بتایا کہ عمران خان خود سے وزیر اعظم بن کر وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنا چاہتے تھے۔

لیکن کیوں کہ ق لیگ کے پاس اسمبلیوں کے ممبرز بھی تھے اور جنرل صاحب کے دست راست طارق عزیز بھی، اس وجہ سے عمران خان کی دال نہ گل سکی تھی۔ (طارق عزیز اس وقت اتنے ہی طاقت ور تھے جتنے آج کل ۔۔۔۔، چلیں نام پھر کبھی لے لیں گے۔ ابھی حالات ویسے ہی نازک ہیں)۔

تب سے لے کر اب تک عمران خان اور چوہدریوں کی دوستی کبھی پکی نہیں ہوئی۔ ایک خبریہ ہے کہ عمران خان پرویز الہیٰ سے زیادہ مونس الہیٰ کے مخالف ہیں۔ وہ ان سے ملاقات کرنا بھی گواراہ نہیں کرتے۔ دوریاں وقتی نہیں اگلی نسلوں تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اور مسئلے بھی ہیں۔

پنجاب میں مذہبی اور دینی جماعتوں کا ووٹ بھی 2018 میں زبردستی پی ٹی آئی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ لال مسجد میں امن کی فاختہ بننے والے چوہدری آج کل بھی اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی مخالفت کر کے خود کو دائیں بازو کے نظریات کے قریب رکھے ہوئے ہیں۔ مگر عمران خان نے ان کو سیاسی نقصان پہنچایا ہے، نہ خادم حسین رضوی پر ان کا بس چلتا ہے اورنہ جماعت الدعوہ کا سیاسی دھڑا ان کی سنتا ہے۔

2018 میں اگر سامری جادوگر ٹوپی میں سے کبوتر کی جگہ ہاتھی نہ نکالتا تو چوہدریوں کی انتخابی سیاست ختم ہونے کے قریب تھی۔ وہ تو بھلا ہو ان ناخداﺅں کا جو سیاسی سورج کو شمال سے بھی نکال سکتے ہیں۔ نواز شریف کو بند گلی میں لانا تھا اس لیے پرچم تلے سب کو ایک کر دیا۔ نہ کوئی چوہدری رہا اور نہ خان۔ سب فیض یاب ہو کر دوست بن گئے۔

دوسالوں میں سیاسی موقعے کی تلاش میں چوہدریوں نے عثمان بزدار کو بھی قبول کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ عثمان بزدار آنی جانی چیز ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اس کا نکما پن چوہدریوں کے لیے سونے کے انڈے دینے والی مرغی ثابت ہو گا۔ مگر عثمان بزدار ہیں کہ جانے کا نام نہیں لے رہے۔ اگر چلے بھی گئے تو تخت لاہور بنی گالہ کے مرید کو وقف ہوگا نا کہ ریاست گجرات کو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب چوہدریوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا اثر و رسوخ مقامی سیاست تک محدود ہو گیا ہے۔ چوہدری شجاعت وزیر اعظم بن چکے ہیں، پرویز الہیٰ ڈپٹی وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ۔ اس کے بعد گلی محلے کی سیاست کا سوچ کے وہ تھک جاتے ہوں گے۔

وہ کچھ بڑا کام کرنا چاہتے ہیں، مگر عمران خان اور بزدار کے ہوتے ہوئے اس بڑے کام کی گنجائش نہیں۔ اور پھر اپنا رخ عمران سے ہٹا کر رائے ونڈ کی طرف کرنے میں جو ندامت کی ندی پار کرنی ہے، چوہدری صاحبان اس کے اوپر کسی معاہدے کا پل ڈالنا چاہتے ہیں جو میاں محمد نواز شریف کو قابل قبول نہیں۔ پرانے حربے یعنی جوڑ توڑ اور دھڑا بندی وغیرہ کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔

مگر فی الوقت عمران خان جو زرہ بکتر پہنے ہوئے ہیں، وہ ایسے وار کارگر نہیں ہونے دے گی۔ اب چوہدری تلملائے ہوئے ہیں، باز نہیں آئیں گے۔ وہ جان کی بازی لگا کر عمران کی بازی پلٹانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں نیب کے ذریعے ان کو پیغام دیا گیا ہے کہ کوٹھڑیوں کی تاریکیاں ان سے زیادہ دور نہیں۔ دھیان رکھیں اور اتنا نہ مچلیں کہ کچلے جائیں۔

گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان جیسے تمام سیاسی گروہوں کے لیے ایک سبق سے کم نہیں۔ وقتی ضرورت کے تحت سیاسی سودا بازی اور عہدے کی ہوس پورا کرنا کبھی کبھار مہنگا پڑتا ہے۔ نئے پاکستان میں رواداری اور لحاظ کے الفاظ ہیں ہی نہیں۔ یقین نہیں آتا تو جہانگیر ترین سے پوچھ لیں۔ مال تو خوب بنایا مگر سیاسی عزت نام کی بھی نہ رہی۔

ان حالات میں اگر اصول کا عصا ہاتھ میں ہو تو لڑ کھڑاتے قدم سنبھالے جا سکتے ہیں۔ جھولی پھیلائے وصول کرنے والے زیادہ دیر فیض نہیں پاتے۔ گمنام نہ بھی ہوں تو بدنام ضرور ہو جاتے ہیں۔ چوہدریوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی نے اپنے ساتھ کیا۔ صنم بھی بھاگ گیا اور وقار بھی۔ ابھی تک سیاسی زخم چاٹ رہے ہیں۔ اس طرح تو ہو گا ہے اس طرح کے کاموں میں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ