گالی دینا ہر شخص کی ضرورت ہے، سائنس نے ثابت کر دیا

گالی دینے کا رواج انسان سے بھی قدیم ہے۔ دراصل کچھ محققین کا کہنا ہے کہ کتے کا یک دم چیاؤں چیاؤں کرنا (yelping) کا متبادل ہے اور بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔

(ٹام فورڈ)

یہ میری زندگی میں سکی اِنگ کا پہلا موقع تھا۔ میرے دوست کولن نے میرے لیے گیراج سے اپنی ماں کے انبار میں سے ایک سکی اٹھائی۔ اس کی ماں فن لینڈ میں بچپن سے سکی اِنگ کرتی آئی تھی۔ میری عمر 22 سال تھی لیکن مجال ہے جو کبھی سکی انگ کی ڈھلوان کے قریب بھی گئی ہوں۔ اصل میں ہمارا خاندان اس قسم کا نہیں تھا۔

البتہ میری پرورش گلوسسٹر میں ہوئی جہاں ایڈی دا ایگل نے خشک ڈھلوان پر سکی اِنگ کرتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی۔ میں ایک بار ایڈی سے ملی تھی جب وہ کچن شو روم آئے تھے جہاں میں جز وقتی ملازمت کرتی تھی۔ وہ اولمپک کے ہیرو تھے اور توقع سے بھی زیادہ نفیس انسان تھے اور جب میں نے اپنی زندگی داؤ پر لگانے کا فیصلہ کیا تو میرے ذہن کے کسی گوشے میں ان کی مثال موجود تھی۔

میں کولن اور اس کی بہن مشیل کو امریکی شہر سیئیٹل کے قریبی مقام سٹیون پاس میں پہاڑوں کی طرف ایک روزہ دورے پر باضابطہ طور پر ملی۔ کار پارکنگ میں کولن نے مجھے سکی کے ساتھ باندھا اور پھر سکائی لفٹ میں سوار کر کے ایک درمیانی سی ڈھلوان پہ چھوڑ دیا۔ لفٹ کی بلندی پر کولن اپنی جگہ سے سرکا اور تیزی سے نیچے پہاڑ میں کہیں غائب ہو گیا۔ ’سنو پلو،‘ وہ چیختے ہوئے جا رہا تھا۔

میں کار پارکنگ کی طرف آدھے راستے تک واپس پہنچ گئی تھی لیکن ابھی تک چئیر لفٹ پر لٹک رہی تھی۔ ایک اجنبی نے باہر نکلنے میں میری مدد کی لیکن گھٹنوں تک برف میں دھنسا چھوڑ کر چلا گیا۔ بالآخر کولن کی بہن میری مدد کو پہنچی۔

مشیل نے بتایا کہ مجھے اپنی سکیز کیسے رکھنی ہے اور اسے سنو پلو کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی میری زندگی کے 20 خوف ناک ترین منٹ شروع ہو گئے۔ جب کہیں زیادہ تجربہ کار سکی ارز میرے اردگرد رقص کر رہے تھے میں اندازاً ہر بار گرنے کے درمیان تین میٹر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوتی۔ جیسے جیسے سکی انگ کا میدان مزید ڈھلوانی ہوتا گیا، میرے گرنے کا عمل تیز ہوتا گیا اسی نسبت سے میرے الفاظ کا ذخیرہ بھی فحش ہوتا گیا۔ ہر بار جب میں کوئی گالی دیتی، جو اب بکثرت میری زبان پر تھیں، تو مشیل خوش اسلوبی سے جواب دیتی، ’گالی دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘

گالی دینے کی کوئی ضرورت نہیں!

جب بھی میں نے گالی دی اس نے یہی کہا۔ اس کی نصیحت اور میری گالی کا دوگانہ اس قدر بلند اور جذباتی ہو گیا کہ سکی لفٹ پر اُڑتے لوگ بھی اس میں شریک ہونے لگے۔

’گالی دینے کی کوئی ضرورت نہیں،‘ ایک خوشگوار امریکی شخص نے اپنا سر ملایا۔

’گالی کی ضرورت ہے،‘ میں نے جواب دیا۔ “F**ing

امریکہ میں کچھ وقت گزارنے سے پہلے میں نے کبھی اپنے متعلق یہ نہیں سوچا تھا کہ اس قدر غلیظ زبان استعمال کرتی ہوں۔ سکی اِنگ کے واقعے کے دس سال بعد سڑک کے ذریعے سینٹا فی کے دورے پر ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو بقول اس کے وہ گنز اینڈ روزز پر سازندہ ہے۔ اس کا مشاہدہ تھا کہ میں ’لڑکی ہوتے ہوئے بہت زیادہ گالیاں دیتی ہوں۔‘ جب راک بینڈ کا جہاں دیدہ شخص آپ سے کہے کہ اپنی زبان سنبھالو تو آپ کو حیرت تو ہوتی ہے۔

لیکن کیا گالی گلوچ واقعی اتنی بری چیز ہے؟ گالی اور ایسے نازیبا الفاظ کے بارے میں محققین کہتے ہیں ممکن ہے یہ اصل میں آپ کے لیے اچھی ہو۔ ہم گالی دیتے ہیں تو ممکن ہے اس کا کوئی مقصد ہو یا جب ہم گالی دیے بغیر نہ رہ سکتے ہوں تو اس کا دینا ہی زیادہ ٹھیک ہو۔

2009  میں کیل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اس نظریے کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیق کی جس کے مطابق تکلیف کے وقت ہمارے زبان سے بے اختیار نکلنے والی مغلظات دراصل ارتقائی عمل کا حصہ ہیں۔ وہ دماغ کے ایک حصے امیگڈلا کو تحریک دے کر ’مقابلہ کرو یا بھاگو‘ (فائٹ یا فلائٹ ریسپانس) کو دباتی ہیں اور دماغی مادے ایڈرینالین کو بڑھاتی ہیں جو فطری طور پر درد سے نجات دلاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیل کے محققین نے گالی دیتے یا قدرتی انداز میں بولتے ہوئے موضوع پر تحقیق کے دوران لوگوں کے ہاتھ ٹھنڈے برفیلے پانی میں ڈال دیے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جن لوگوں کو اپنی زبان پر بہت کنٹرول ہے ان کی بہ نسبت گالی دینے والے ٹھنڈے پانی کو دگنا زیادہ برداشت کرنے کے قابل تھے۔ انہوں نے یہ تجربہ کئی بار دہرایا اور ہمیشہ ایک جیسا نتیجہ نکلا۔ گالی نے یخ بستہ ہاتھ کی تکلیف برداشت کرنا آسان کر دیا تھا۔

ایک ایسی ہی تازہ ترین تحقیق میسی یونیورسٹی کے محققین نے کی ہے۔ ان کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کیا اونچی آواز میں گالی دینا نفسیاتی تکلیف میں درد کی شدت کم کرتا ہے؟ ان کا نتیجہ کیلی یونیورسٹی کی بازگشت تھا۔ گالی دینے والوں کا کہنا تھا کہ جب تکلیف دہ یادوں کو دہراتے ہوئے نے گالم گلوچ اور لعن طعن کا مظاہرہ کیا تو تکلیف دہ یادوں کی تکلیف کم ہو گئی۔ کچھ اور تحقیقات اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ (موضوع تحقیق افراد کے نقطۂ نظر سے) جس قدر گالی شدید ہو، تکلیف بھی اسی نسبت سے کم ہو جاتی ہے۔

کینیڈین امریکن نفسیات دان اور ’دا بلینکٹ سلیٹ‘ (The Blank Slate) کے مصنف سٹیون پنکر اپنی کتاب ’دا سٹف آف تھاٹ‘ (The Stuff of Though) میں ایک امکان کا جائزہ لیتے ہیں کہ گالی کی جڑیں دماغ کے قدیم ترین حصے میں ملتی ہیں اس لیے ممکن ہے یہ صرف انسانوں سے مخصوص نہ ہو۔ وہ کتے کی دم پر اچانک پاؤں آنے سے اس کی نکلنے والی چیاؤں چیاؤں یا کسی غصیلے بندر کی چیخ سے اس کا سرا ملاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی غیر اختیاری آوازوں نے کسی حملہ آور کو خوف زدہ کرتے ہوئے ارتقائی مراحل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

نفسیات دان ایما بائرن جائزہ لیتی ہیں کہ ممکن ہے غیر مربوط لیکن انتہائی موثر آوازیں ان الفاظ میں تبدیل ہو گئی ہوں جنہیں ہم گالیاں کہتے ہیں۔ اپنی کتاب ’سویئرنگ از گڈ فار یو: دی امیزنگ سائنس آف بیڈ لینگویج‘ (Swearing is Good For You: The Amazing Science of Bad Language) میں وہ دنیا کے مشہور ترین زبان کے تجربات میں سے ایک پیش کرتی ہیں۔ 1960 کی دہائی میں واشو نامی ایک مادہ بن مانس کو علامتی زبان کا استعمال سکھایا گیا۔ آخر کار وشو کے پاس ساڑھے تین سو الفاظ کا ذخیرہ جمع ہو گیا۔ مزید براں وہ الفاظ کو نئے معنی دینے کے لیے انہیں مرکبات کی صورت میں استعمال کرنے کی ماہر تھی۔ مثال کے طور پر ایک ہنس کو دیکھنے پر واشو پانی اور پرندے کی طرف اشارہ کرتی تھی۔ ایک تھرماس کے لیے وہ ’دھاتی پیالہ پینا‘ کے الفاظ استعمال کرتی تھی۔

کچھ عرصے بعد کچھ اور بن مانس بھی تحقیق میں شامل کر لیے گئے اور 42 سال تک زندہ رہنے والی واشو اپنے سیکھے ہوئے الفاظ ان تک منتقل کرتی رہی۔ ان میں ’گندا‘ کی علامت بھی شامل تھی (تھوڑی کے نیچے انگلیوں کے جوڑ رکھنا)۔ پہلے پہل واشو ’گندا‘ کو فضلے سے منسوب کرتی تھی لیکن پھر وہ اسے ناپسندیدگی کے لیے بھی استعمال کرنے لگی اور اس کا نگران اسے کچھ حسب منشا کچھ نہ دیتا تو وہ اسے ’گندا راجر‘ کے الفاظ سے مخاطب کرتی۔ اس میں کسی شبے کی گنجائش نہیں کہ واشو گالی کی طاقت سمجھتی تھی۔

گالی دینا انسان سے بھی قدیم ہے، لیکن کیا ارتقائی عمل میں ہم اس مقام پر نہیں پہنچ گئے جب اس کی ضرورت باقی نہ رہی ہو؟ بالخصوص جب لوگوں کی بڑی تعداد اسے ناپسند کرتی ہے؟

واشو کا گالیوں کا استعمال اس بات کا مظہر ہے کہ لوگوں کو ہمارے استعمال کیے گئے الفاظ اتنا پریشان نہیں کرتے جتنا ان الفاظ سے منسوب جنس اور بے وفائی جیسے ممنوعہ تصورات پریشان کرتے ہیں۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ ایک نسل سے دوسری نسل اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لوگوں کے ناپسندیدہ الفاظ بھی مختلف ہوتے ہیں۔

امریکن مارکیٹ کے لیے لکھنے نے مجھے مزید محتاط کر دیا، خاص طور پر کچھ ایسے توہین آمیز الفاظ جو برطانوی انگریزی میں عام استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے میں انہیں نکال باہر کرتی ہوں۔ تاہم بعض اوقات افسانوی مکالمے کسی گالی کے بغیر قدرے غیر فطری لگتے ہیں۔ کیا حقیقی زندگی میں کبھی کسی نے کار حادثے میں لگنے والی چوٹ یا اپنی زندگی کی بدترین خبر سننے کے بعد کبھی کوئی ’ارے واہ!‘ کہتا ہے؟ مصنف کے لیے گالی کا ایسا متبادل ڈھونڈنا محال ہے جس سے ایک بھی قاری ناراض نہ ہو۔

ایسے موقعوں پر کچھ بناوٹی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن ذاتی طور پر مجھے  ان کا مصنوعی پن برہم کرتا ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ محققین کرسٹن اور ٹموتھی جے ثابت کر چکے ہیں کہ جو لوگ رنگ برنگی گالیوں کے مختلف پہلوؤں کو جانتے ہوئے ان کا استعمال کرتے ہیں وہ بالعموم زیادہ ذخیرۂ الفاظ کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن اگلی بار اگر میں ایسی صورت حال کا شکار ہوئی جہاں گالی کی ضرورت ہے تو میں اسے پورے اہتمام سے گالی دینے کو تیار ہوں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق