حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک نئی تحقیقی رپورٹ میں پایا ہے کہ پاکستان میں صفائی کے کام سے جڑے ملازمین کے روزگار کو باقاعدہ شکل نہ دینا اور دیگر قانونی تحفظ سے محروم کرنا ایک عام عمل ہے۔
’ہمیں چیر کر دیکھو، ہمارا بھی ان کی طرح خون بہتا ہے‘: پاکستان میں صفائی کے کارکنان کے ساتھ امتیاز سلوک اور ان کی بدنامی سے متعلق یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ صفائی کے کارکنان، جو زیادہ تر نام نہاد ’نچلی ذاتوں‘ اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں، ذات اور مذہب کی بنیاد پر بھرتی اور ملازمت کے دوران امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
ادارے نے منگل کو جاری اس رپورٹ کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق کی پاکستانی تنظیم سینٹر فار لا اینڈ جسٹس (سی ایل جے) کے ساتھ مل کر 230 سے زائد صفائی کرنے والے ملازمین سے رابطہ کیا جن میں مشترکہ تشویش کی تشخیص کے لیے ایک سوالنامے کے 66 جواب دہندگان بھی شامل تھے۔
محققین نے فروری اور ستمبر 2024 کے درمیان لاہور، بہاولپور، کراچی، عمرکوٹ، اسلام آباد اور پشاور میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک اور مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصدیق کے لیے فوکس گروپ مباحثے اور انفرادی انٹرویوز بھی کیے۔
تحقیق کے نتائج کے مطابق صرف 44 فیصد کارکنان مستقل ملازم تھے اور 45 فیصد کے پاس تحریری معاہدے تک نہیں تھے۔
عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ملازم نے بتایا کہ 18 سال تک میونسپل کمیٹی میں کام کرنے کے باوجود انہیں کبھی ریگولرائز نہیں کیا گیا اور وہ اس دوران یومیہ اجرت پر کام کرتے رہے۔
لاہور کے ایک سینیٹری ورکر سلیم مسیح کچی آبادی میں رہتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے خاکروب بننا پڑا لیکن اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر کوئی بہتر نوکری دلوانے کی خواہش ہے۔‘
سینی ٹیشن یا صفائی ستھرائی کے کام سے مراد فضلے کا انتظام اور اسے ٹھکانے لگانا ہے۔ یہ ایسا کام ہے جسے عام طور پر آلودگی پھیلانے والا اور ’گندا‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اس کام سے وابستہ لوگوں یعنی خاکروبوں کی سماج میں بدنامی ہوتی ہے۔ پاکستان میں صفائی ستھرائی کا کام غیر مسلموں کو غیر متناسب طور پر زیادہ تفویض کیا جاتا ہے۔ جو اکثر اس معاملے میں حقیقی انتخاب کا حق رکھے بغیر نام نہاد ’نچلی ذاتوں‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن پنجاب کی حد تک چند ماہ پہلے صوبے میں صفائی کے لیے ’ستھرا پنجاب‘ کے نام سے پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے تحت خاکروبوں کی تنخواہوں میں اضافہ اور انہیں یونیفارم مہیا کیے گئے ہیں۔ لیکن نئی بھرتیوں میں اب بھی سب سے زیادہ تعداد اقلیتی افراد کی برقرار ہے۔
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے آپریشنل مینجر چوہدری اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’خاکروبوں یا سینیٹری ورکرز کی صورت حال پر ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ قومی سطح پر سینٹری ورکرز سے متعلق ہے۔ ’یہاں بھی صورت حال بہتر نہیں تھی لیکن جب سے حکومت نے ستھرا پنجاب پروگرام شروع کیا ہے۔ نئی بھرتیاں بلا اقلیتی امتیاز کی گئی ہیں۔ اب صوبے میں سینیٹری ورکرز کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار ہو چکی ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق 79 فیصد جواب دہندگان کو اوور ٹائم کی کبھی ادائیگی نہیں کی گئی اور 53 فیصد کو کم از کم اجرت (ایک سو پندرہ امریکی ڈالر ماہانہ) سے کم معاوضہ ملا۔ صفائی ملازمین کو سماجی تحفظ اور فلاحی سکیموں کے ذریعہ بھی ناکافی تحفظ فراہم کیا گیا۔
کارکنان کو مناسب سیفٹی کا سامان اکثر فراہم نہیں کیا گیا، 55 فیصد نے بتایا کہ انہیں دستانے یا حفاظتی سامان فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں دھول میں کام کرنے سے الرجی، سانس کی تکلیف اور کھانسی کا سامنا شامل ہے۔ کوویڈ 19 وبائی مرض کے دوران ماسک اور کچھ پی پی ای فراہم کیے گئے تھے، لیکن اس رپورٹ کے لیے ایمنسٹی نے جن کارکنوں سے بات کی، ان کے مطابق یہ عمل اب بند ہو گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کی نائب علاقائی ڈائریکٹر، ایزابل لاسی نے کہا: ’پاکستان میں صفائی کے کارکنان کے ساتھ شدید غیر منصفانہ سلوک نہ صرف سماجی اور معاشی حد بندی ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔
’وہ اکثر طویل عرصے سے چلے آ رہے تعصبات کی وجہ سے اس کام تک محدود رہتے ہیں، پھر بھی ملک کا قانونی نظام نسلی امتیاز کی ساختی شکل کے طور پر ذات پات کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘
’لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کو 44 فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ انہیں ان کے پیشے کی وجہ سے بدنامی کا سامنا کرنا پڑا، اور انہیں ’چُوڑا‘ (دلت ذات کا تاریخی نام)، ’بھنگی (چوڑے کی ایک دوسری قسم)‘، ’جمعدار (اردو میں خاکروب)‘ اور ’عیسائی (مسیحیوں کے لیے توہین آمیز اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے)‘ اور ’کتے‘ جیسے توہین آمیز القابات سے پکارا گیا۔ کئی نے بتایا کہ انہیں باقاعدگی سے عوامی مقامات پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں کھانے اور برتنوں میں علیحدگی بھی شامل ہے۔
بہاولپور سے ایک شخص نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ وہ الیکٹریشن کی نوکری کے لیے انٹرویو دینے گئے، لیکن جب ملازمت دینے والوں کو معلوم ہوا کہ ان کا تعلق مسیحی مذہب سے ہے، تو اسے صرف صفائی کا کام پیش کیا گیا۔ ’اس نے بلاآخر یہ ملازمت قبول کر لی کیونکہ اسے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے آمدن کی ضرورت تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب میں پانچ سرکاری ایجنسیوں کے عملے کے الگ الگ اعداد و شمار نے ان ثبوتوں کو تقویت دی، جس سے پتہ چلا کہ مسیحیوں کو نہ صرف نچلے گریڈ میں بلکہ خاص طور پر صفائی ستھرائی کے عہدوں پر بھی غیر متناسب طور پر ملازمت دی گئی تھی۔
تحقیق سے مزید معلوم ہوا کہ خواتین صفائی کارکنان کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے۔ کراچی کی میں صفائی کا کام کرنے والی ایک خاتون نے کہا: ’مسیحی عورتیں بیت الخلا صاف کرتی ہیں اور کپڑے دھوتی ہیں، جبکہ مسلمان عورتیں کچن میں کام کرتی ہیں۔
خطرناک اور غیر محفوظ
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک مرد کارکن نے بتایا کہ دستانے نہ پہننے والے مزدوروں کی اکثر سیوریج لائنوں سے نکلنے والے تیزاب کی وجہ سے جلد جل جاتی ہے اور شیشے پھینکے جانے کی وجہ سے ہاتھوں میں چوٹیں آتی ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک اور ملازم کی انگلی بغیر دستانے کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے دوران سرنج چبنے کے بعد کاٹ دی گئی تھی۔
خطرات کے باوجود، تقریبا 70 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ کام سے انکار نہیں کرسکتے، یہاں تک کہ جب وہ محسوس بھی کرتے ہیں کہ یہ خطرناک ہے۔ یہ خوف ملازمت کے عدم تحفظ کے وسیع ماحول کی وجہ سے موجود ہے، کیونکہ ان کی عارضی ملازمت کی حیثیت اور ملازمت سے برطرفی کے سلسلے میں مناسب طریقہ کار کی کمی ہے۔ چھہتر فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں اچانک ملازمت سے برطرفی کا خدشہ ہے۔
قانون کی ناکامی؟
پاکستان میں اقوام متحدہ کے متعدد متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور آئی ایل او کنونشنز کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امتیازی سلوک کے خلاف قانون کا فقدان ہے اور نہ ہی پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 میں ذات پات کی بنیاد پر اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان کے لیبر قوانین ایکٹ اور آرڈیننس کے درمیان بکھرے ہوئے ہیں، اور 2010 کے بعد سے ہر صوبے میں مختلف ہیں، جب لیبر ایک صوبائی معاملہ بن گیا تھا۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ نتیجتا ان تمام قوانین، آرڈیننسوں اور ضابطوں پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے تاکہ صفائی کے ملازمین کو خارج کرنے والے ابہام اور خامیوں کو دور کیا جا سکے۔
ایزابل لاسی نے کہا: ’پاکستان میں صفائی کے ملازمین کو درپیش تاریخی، سماجی اور معاشی نقصانات سے نمٹنے کے لیے لیبر قوانین کے نفاذ کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف ایک جامع اور انسانی حقوق پر مبنی طریقہ کار اپنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’تحقیق کے لیے اعداد و شمار فروری اور ستمبر 2024 کے درمیان پاکستان کے تین صوبوں کے چھ اضلاع لاہور، بہاولپور، کراچی، عمرکوٹ، اسلام آباد اور پشاور سے جمع کیے گئے تھے۔ مجموعی طور پر، تحقیق کرنے والوں نے 231 صفائی کے ملازمین سے بات کی۔ ایک سو سات سوالات پر مشتمل معیاری سوالنامہ 66 شرکا کو دیا گیا۔‘
رپورٹ کے مطابق ’پاکستان کے لیبر قوانین صفائی ستھرائی کے کام سے متعلق خاموش ہیں۔ صفائی کے ملازمین پر بہت سے قوانین کے تحت مزدور کی تعریف کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو یہ قوانین عارضی اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کا احاطہ نہیں کرتے ہیں۔ ‘
’پاکستان میں صفائی ستھرائی کے کام کو دو زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے:’خشک‘ اور ’گیلا‘۔ خشک صفائی ستھرائی کے کام میں بنیادی طور پر جھاڑو لگانا اور ٹھوس فضلے سے نمٹنا شامل ہے۔ گیلے کام میں انسانی فضلے اور سیوریج سے نمٹنا شامل ہے، جو اکثر زہریلی گیسوں سہ متاثر ہونے یا سیوریج کے نظام میں ڈوبنے سے خطرناک اور بعض اوقات مہلک ہوسکتا ہے۔‘
پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا:
ظاہر ہے، لوگ ہمیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ یہاں تک کہ ہمارے بچے بھی سکول میں ہمارے پیشے کے بارے میں بات کرتے وقت ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے ہم جماعت ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صفائی کے ملازمین پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے جانے کے کئی اہم واقعات سامنے آئے ہیں جن میں آسیہ بی بی بھی شامل ہیں، جنہوں نے 2018 میں تمام الزامات سے بری ہونے سے قبل تقریبا ایک دہائی سزائے موت کے انتظار میں گزاری۔ اگست 2023 میں دو ورکرز کے خلاف توہین مذہب کے الزام کے نتیجے میں جڑانوالہ میں بیس سے زیادہ گرجا گھروں اور 80 مسیحی محلوں پر مشتعل افراد نے حملے کیے اور انہیں نذر آتش کیا تھا۔
2010 سے مارچ 2025 تک تقریبا 300 سرکاری نوکریوں کے اشتہارات کے ذریعے جمع کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اشتہارات میں واضح طور پر درخواست دہندگان کو غیر مسلم یا نام نہاد ’نچلی ذات‘ ہونا ضروری ہے یا ان ملازمتوں کے معیار کے لیے انہیں ترجیح دی گئی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پنجاب پولیس فورس میں ایک سے پانچ گریڈ کے نچلے عہدوں پر19سو نو غیر مسلم جبکہ گریڈ 7 سے 18 میں کل صرف 55 ہیں۔ پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی میں 23 مسیحیوں کو خاکروب کے طور پر ملازمت دی گئی جس کے مقابلے میں صرف دس مسلمان جبکہ دیگر تمام پیشوں میں مسلمانوں کی اکثریت دکھائی دی۔ واٹر اینڈ سیوریج اتھارٹی میں بھی کم تنخواہوں والی ملازمتوں میں غیر مسلموں کی نمائندگی زیادہ ہے۔ محکمہ میں تمام عہدوں پر کام کرنے والے 1538 غیر مسلموں میں سے 1515 (98.5 فیصد) غیر مسلم گریڈ 1 سے 5 کی ملازمتوں میں کام کرتے ہیں۔
بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان کی صرف 9.2 فیصد آبادی کو کسی نہ کسی قسم کے سماجی تحفظ کی سہولت حاصل ہے، جو کہ عالمی اوسط 46.9 فیصد سے کہیں کم ہے۔ چھیاسٹھ میں سے صرف ایک فرد نے ’ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی)‘ کا نام سنا تھا جبکہ کسی کو بھی ’ورکرز ویلفیئر فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف)‘ جیسی سکیموں کا علم نہیں۔
سینیٹری ورکرز کی فلاح بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’سوئپرز آر سپر ہیروز‘ کی بانی میری جیمز گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سینیٹری ورکرز کو بہت سے مسائل کا سامنا حکومتیں صرف دعوی کرتی ہیں عملی طور پرکچھ نہیں ہوتا۔ ان ورکرز کو مطلوبہ حفاظتی لباس مہیا نہیں کیا جاتا۔ جب ایک ورکر نالے میں بے ہوش ہوجاتا ہےتو ریسکیو کو بلانے کی بجائے دوسرے اور پھر تیسرے ورکر کو نالے کے اندر جانے کا کہا جاتا ہے۔
یہ ورکر صفائی کی مہارت رکھتے ہیں ریسکیو کی نہیں۔ اس کے علاوہ 20 فٹ گہرے نالے سے بھاری بھرکم بے ہوش ورکر کو باہر کھینچنے کے لیے مناسب رسی بھی نہیں دی جاتی۔ پنجاب سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں حفاظتی سامان نہ ہونے کی وجہ سے سینٹری ورکرز جان سے چلے جاتے ہیں۔‘
پنجاب میں سینٹری ورکرز کے حالات
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ میں متعدد چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن کچھ صفائی کے ملازمین نے بتایا کہ امتیازی رویوں میں تبدیلی آ رہی ہے جو ایک مثبت علامت ہے۔
چوہدری محمد اسلم نے کہا کہ ’پنجاب میں ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت سینیٹری ورکرز سے آٹھ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ انہیں صاف یونیفارم مہیا کیے گئے ہیں ان کی کم از کم تنخواہ بھی 40ہزار روپے کر دی گئی۔ جہاں تک بھرتیوں میں اقلیتی امتیاز کا سوال ہے تو اس کے لیے کوئی شرط نہیں جو چاہے بھرتی ہوسکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر اقیلتی افراد درخواست جمع کراتے ہیں تو انہیں ہی بھرتی کیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے مذہبی طور پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اب حالات بدل چکے ہیں جدید مشینری اور آلات کے زریعے صفائی اور گٹر صاف کرنے کا عمل جاری ہے۔ گھر گھر سے کوڑا اٹھانے کے لیے بھی گاڑیاں اور رکشے فراہم کیے گئے ہیں۔‘
’وزیر اعلی پنجاب نے عید پر صفائی کرنے والے ورکرز کو اضافی تنخواہ اور بونس دیے۔ سرکاری طور پر انہیں ہیروز کا لقب دیا گیا ہے۔ ہم انہیں ہیرو کے لقب سے پکارتے ہیں۔ اگر ان سےکوئی بدتمیزی کرے تو شکایت پر فوری ایکشن کی پالیسی بنائی گئی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے جوہر ٹاون، مسلم ٹاون سمیت لاہور کے متعدد علاقوں میں صفائی کرتے ہوئے 20 سے 25 ورکرز سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ تمام مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔