خیبرپختونخوا: خاکروب کی نوکری کو مسیحیوں تک محدود کرنے پر تنقید

خیبرپختونخوا کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ کی جانب سے خاکروب کی نوکری کے اشتہار کو مسیحیوں تک محدود کرنے پر تنقید کے بعد محکمے نے اسے ’کلیریکل غلطی‘ قرار دے کر دوبارہ مشتہر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پشاور میں تین اپریل 2021 کو ایک خاکروب ایک بس سٹیشن کے قریب جھاڑو لگا رہا ہے (عبدالمجید/ اے ایف پی)

خیبرپختونخوا کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ کی جانب سے 17 مئی کو مختلف اخبارات میں خاکروب کی نوکری کے لیے دیے گئے اشتہار کو مسیحیوں تک محدود کرنے کو انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد محکمے نے اسے ’کلیریکل غلطی‘ قرار دے کر دوبارہ مشتہر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس اشتہار میں تجربے اور اہلیت کے خانے میں درج ہے: ’مڈل تک تعلیم اور مسیحیوں کو ترجیح دی جائے گی۔‘

اس سے قبل بھی دیگر صوبوں سمیت وفاقی سطح کے محکموں کی جانب سے خاکروب کی نوکری کے لیے دیے گئے اشتہارات میں اہلیت کے خانے میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والوں کا ذکر ہے، یعنی اشتہارات میں خاکروب کی نوکری کو صرف مسیحیوں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔

غیر مسلموں کے حقوق پر کام کرنے والے ہارون سربدیال اس قسم کے اشتہارات کو ’آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی‘ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ غیر مسلموں میں تعصب اور نفرت کو فروغ دیتا ہے کیونکہ غیر مسلم، جو اقلیت میں ہیں، انہیں دیگر نوکریاں نہیں ملتیں اور وہ ایسی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔

ہارون سربدیال نے بتایا: ’معاشرے میں اس قسم کی نوکریاں کرنے کی وجہ سے غیر مسلموں کو کم تر سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اگر آپ ڈیٹا نکالیں تو غیر مسلموں میں میٹرک، انٹر اور حتٰی کہ ماسٹر ڈگری ہولڈرز بھی ایسی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں دیگر مواقع میسر نہیں ہیں۔ ریاست کو اس قسم کی پالیسیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘

صفائی ستھرائی کے کاموں سے مسیحی برادری کے منسلک ہونے کی تاریخ

ہانگ کانگ کے ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نامی ادارے نے 2017 میں پاکستان میں مسیحیوں کے خاکروب کی نوکری سے جڑنے کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا۔

اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خاکروب کی نوکریوں کے حوالے سے اشتہارات مذہبی امتیاز پر مبنی ہوتے ہیں اور اس کی ایک تاریخ ہے۔

رپورٹ کے مطابق تقسیمِ ہند سے پہلے ہندوؤں کی دلت ذات صفائی ستھرائی کے پیشے سے وابستہ رہی ہے اور اُس وقت دلت برادری کو اس قسم کی معمولی نوکریاں دی جاتی تھیں۔

تقسیمِ ہند کے بعد بعض دلت ہندو پاکستان آنے کے بعد مسیحیت اختیار کر گئے۔ رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ نسلی امتیاز سے بچنا تھا لیکن پاکستان میں بھی انہیں اسی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان ادارہ برائے شماریات کے مطابق مسیحیوں کی آبادی 38 لاکھ سے زائد ہے، جس میں صرف چار فیصد تعلیم یافتہ یا تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ 68 فیصد مسیحی بے روزگار ہیں۔

اسی رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق مسیحیوں کی آبادی میں 65 فیصد مرد صفائی ستھرائی کے کام سے وابستہ ہیں جبکہ 39 فیصد مزدور ہیں۔

پاکستان میں مسیحی برادری کی صفائی ستھرائی کے کام سے وابستگی کی بات کی جائے تو 2017 کی رپورٹ کے مطابق پشاور میونسپل کارپوریشن میں مجموعی طور پر 935 خاکروب ہیں، جس میں 824 مسیحی ہیں۔

اسی طرح پنجاب کی لاہور ویسٹ مینیجمنٹ کمپنی کے مجموعی طور پر 7894 سینیٹری ورکرز میں سے چھ ہزار مسیحی ہیں جبکہ کوئٹہ کی میونسپل کارپوریشن میں 978 سینیٹری ورکرز میں سے 768 مسیحی اور اسلام آباد کی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے 1500 سینیٹری ورکرز میں سے تمام مسیحی ہیں۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسیحیوں کی صفائی ستھرائی کے کام سے وابستگی کی وجہ سے ان میں زیادہ تر نالیوں کی صفائی کے دوران زہریلی گیس سے 1988 سے 2017 تک 80 مسیحی افراد کی اموات بھی ہوئیں۔

اسی سروے رپورٹ کے مطابق مسیحی افراد نے بتایا کہ خاکروب کی نوکریوں پر مسلمان ملازمین بھی بھرتی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنا کام نہیں کرتے اور اس میں ہمیں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی قسم کا معاملہ 2016 میں پشاور کے سرکاری ہسپتالوں میں پیش آیا تھا، جو روزنامہ ڈان میں رپورٹ ہوا تھا، جس کے مطابق سرکاری ہسپتالوں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی مسلمان خاکروبوں کی وجہ سے صفائی ستھرائی متاثر ہوئی تھی۔

اُس وقت کے سیکرٹری صحت نے اس معاملے کا نوٹس بھی لیا تھا، جس میں مسلمان خاکروبوں کی جانب سے صفائی کے کام سے انکار کیا گیا تھا۔

خیبر پختونخوا کی آل میونسپل ورکرز یونین، جس میں سینیٹری ورکرز بھی شامل ہیں، کے صدر ریاض خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اشتہار میں مسیحی لکھنے کا مقصد دراصل مسیحی برادری کو روزگار فراہم کرنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی برادری کے افراد کی تعلیم کم ہوتی ہے۔

بقول ریاض خان: ’اب اگر ان سینیٹری ورکرز کی نوکریوں پر بھی کسی اور کو بھرتی کیا جائے تو ان سے روزگار کے یہ مواقع بھی چھین لیے جائیں گے۔‘

تاہم ریاض کے مطابق اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں اور گذشتہ چھ سات برسوں میں ہمارے پاس یونین میں سینیٹری ورکرز میں مسلمانوں کی تعداد مسیحیوں سے زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اب تقریباً 30 سے 35 فیصد مسیحی اور باقی مسلمان ہیں کیونکہ اب مسیحی برادری کے افراد تعلیم حاصل کر کے مختلف شعبہ جات میں کام کر رہے ہیں۔‘

کام نہ کرنے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ریاض خان نے بتایا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں سینیٹری ورکرز کی تقرریاں اکثر سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہے اور پھر وہ بھرتی کے بعد کام نہیں کرتے۔

انہوں نے بتایا: ’صفائی ستھرائی کے کام میں مسیحی برادری کا تجربہ ہوتا ہے کیونکہ وہ دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں تو اسی لیے تجربہ کار شخص کو بھرتی کیا جاتا ہے۔‘

صوبائی وزیر برائے پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ پختون یار خان، جن کی وزارت کے تحت ایک محکمے سے یہ اشتہار شائع کیا گیا تھا، نے بتایا کہ انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے نوٹس میں لانے کے بعد اب اس اشتہار کو منسوخ کرکے دوبارہ مشتہر ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک کلیریکل غلطی ہوسکتی ہے لیکن پھر بھی اس حوالے سے انکوائری کی جائے گی کہ کیسے اور کیوں اس قسم کا اشتہار جاری کیا گیا۔

بقول پختون یار: ’غیر مسلموں کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح ہے اور کسی قسم کا نسلی امتیاز رکھنا ہماری پالیسی میں شامل نہیں ہے بلکہ ہم ان کے تمام حقوق کا خیال رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔‘

خیبر پختونخوا میں ماضی میں بھی ایسے ہی ایک واقعے پر کافی لے دے ہوئی تھی، جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے 20 مارچ 2017 کو بنوں میں خاکروب کی نوکری کے لیے جمعیت علمائے اسلام کی ضلعی انتظامیہ  کی جانب سے دیا گیا ایک اشتہار ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کرتے ہوئے ان پر مذہبی منافرت کا الزام لگایا تھا۔

عمران خان نے لکھا تھا: ’جمیعت علمائے اسلام مذہبی  اور فرقہ ورانہ منافرت پھیلا رہی ہے اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اس منافرت کا نوٹس لے۔‘

یہ اشتہار بنوں کی تحصیل انتظامیہ کی جانب سے خاکروب کی نوکری کے لیے دیا گیا تھا اور اس کی اہلیت میں مذہب کے خانے میں خاص فرقے اور مذہب کا ذکر کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل