پاکستان مسلم لیگ ن سے مسیحی کارکن ناراض کیوں ہیں؟

مسلم لیگ ن کے سینیٹر کامران مائیکل کہتے ہیں کہ اس بار اچھی چیز صرف یہ تھی کہ 35 رکنی ٹیم تو بیٹھی مگر انٹرویوز میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے خود کیے۔

پاکستان کے آئندہ عام انتخابات سے قبل 9 جنوری 2024 کو لاہور میں لگے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک بینر کے قریب سے لوگ گزر رہے ہیں (اے ایف پی/ عارف علی)

پاکستان مسلم لیگ کے اقلیتی ونگ میں مسیحی برادری عام انتخابات کے امیدوار چننے کے لیے بنائے جانے والے 35 رکنی پارلیمنٹری بورڈ میں نمائندگی نہ ملنے پر ناراض ہے۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر کامران مائیکل کہتے ہیں کہ ’35 رکنی بورڈ میں مسیحیوں کی نمائندگی سابق رکن صوبائی اسمبلی راحیلہ خادم حسین نے کی جس پر مسیحی برادری کو اعتراض ہے۔‘

کامران مائیکل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں پارٹی کی قیادت سے کوئی گلہ شکوہ نہیں لیکن اس مرتبہ پہلی بار ہوا کہ کسی بھی ونگ کے صدر یا جنرل سیکریٹری کو بورڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

’اس مرتبہ سسٹم اور طریقے سے چلانے کی کوشش کی لیکن چونکہ قیادت خود وہاں موجود تھی اور انہوں نے خود انٹرویوز کیے اس لیے امیدواروں کو کم از کم یہ تسلی تھی کہ چلیں لسٹیں بن کر نہیں آ گئیں بلکہ ہمیں قیادت نے سنا ہے۔‘

کامران مائیکل کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ نہیں کہتے کہ راحیلہ خادم حسین کو بورڈ کا ممبر نہ بناتے لیکن ان کا مسیحی کمیونٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ انہیں نہیں جانتیں۔ اقلیتوں کے فیصلے اقلیتیں ہی کر سکتی ہیں۔

’ہم بس یہ چاہتے تھے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ پاکستان کی اقلیتوں میں مسیحی کمیونٹی بہت بڑی ہے ان کا کوئی نمائندہ ضرور بورڈ کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس پر ہمیں اپنی کمیونٹی، بشپس، کلرجیز اور انسٹی ٹیوشن ہیڈز بلکہ دیگر جماعتوں سے بھی بہت باتیں سننا پڑی ہیں کہ مسلم لیگ ن پنجاب سے ہی لیڈ کرتی ہے اور پنجاب میں اقلیتوں میں زیادہ تعداد مسیحیوں کی ہے اور یہاں اقلیتوں میں 90 فیصد ووٹ مسیحی کمیونٹی کا ہوتا ہے تو پھر اس کمیونٹی کو ہر حوالے سے نظر انداز کیوں کیا گیا؟‘

کامران مائیکل کہتے ہیں کہ ’پہلے بھی 2018 میں قومی اسمبلی کے لیے دو ارکان چنے گئے جو ہندو کمیونٹی کے تھے اور وہ سندھ سے تھے جہاں ہماری ایک بھی نشست نہیں تھی۔

’نہ جنرل سیٹ پر ہمارا کوئی ممبر صوبائی اسمبلی تھا نہ قومی اسمبلی میں، پھر بھی ہم نے مخصوص نشستوں پر دو ہندو ممبر قومی اسمبلی لیے اور اس وقت بھی کافی شور ہوا تھا اور اب بھی یہ ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس بار اچھی چیز صرف یہ تھی کہ 35 رکنی ٹیم تو بیٹھی تھی مگر انٹرویوز میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے خود کیے۔ اس لیے ہمارا قیادت پر تو پورے اعتماد کا اظہار ہے لیکن بندوں کی سکروٹنی کرنا یا انہیں شارٹ لسٹ کرنا وہی کر سکتے ہیں جنہیں پارٹی سیاسی طور پر خدمت کے لیے عوام کے پاس بھیجتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت میں ناراض ساتھی جنہیں صوبائی یا قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے نہیں چنا گیا، انہیں ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں اور سمجھا رہا ہوں کہ بعد میں اس پر بات ہو سکتی ہے لیکن اس وقت جماعت کو ہمارے تعاون کی ضرورت یے اس لیے آپ متحرک کردار ادا کریں۔‘

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’پارلیمنٹری بورڈ میں اقلیتوں کی نمائندگی کے لیے ہندو کمیونٹی سے کھیل داس موجود تھے۔ اب اتنے بڑے پارلیمنٹری بورڈ میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ اقلیتوں کے اندر ہمارے پاس ہندو بھی ہیں، مسیحی ہیں سکھ ہیں سندھ میں پارسی بھی ہیں تو ہر ایک اقلیت کی نمائندگی بورڈ میں ہو۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اقلیتوں کے ایک نمائندے نے سب کی نمائندگی کی اور اقلیتوں کے لیے الگ سے پورا ایک دن رکھا گیا اور ان سب نے میاں نواز شریف کے سامنے انٹرویوز دیے اس لیے میرے خیال میں اس بات کو اتنا بڑا ایشو ہونا نہیں چاہیے۔‘

کیا یہ ناراضگی مسلم لیگ ن کے ووٹ کو نقصان پہنچا سکتی ہے؟

اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار اور کالم نگار وجاہت مسعود کا خیال ہے کہ ’مسیحی ووٹ پنجاب کے کسی بھی حلقے میں فیصلہ کن نہیں ہیں لیکن ان کے مضبوط نیبر ہوڈ سے ہیں۔ سندھ میں ہندو ووٹ کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں تین اضلاع میں اتنی تعداد ہے کہ وہ اپنے تئیں انتخابات جیت جاتے ہیں، اور ہندو تعداد کے لحاظ سے مسیحی آبادی سے زیادہ ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وجاہت مسعود کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں مسلم لیگ ن ہندو کمیونٹی کو خوش کرنا زیادہ پسند کرے گی کیونکہ پنجاب کے شہروں جن میں شیخو پورہ، لاہور، خانیوال، ملتان وغیرہ میں مسیحی آبادی اچھی تعداد میں ہے۔‘

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی کے خیال میں ’اقلیتوں اور دیگر انتخابی معاملات میں مسلم لیگ ن کے چند بڑے جو کہ شریف خاندان سے ہی ہوتے ہیں وہ فیصلہ کرتے ہیں اس لیے ان سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اس حوالے سے کوئی انصاف پسندانہ فیصلے کرے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ’پک اینڈ چوز کا معاملہ ہے تو مسلم لیگ ن ایسا ہی کرتی ہے کہ جو لوگ ان کے قریب ہوتے ہیں انہیں کو وہ سامنے لے کر آتے ہیں۔‘

’اقلیت کی بنیاد پر یا میرٹ کی بنیاد پر وہ فیصلے نہیں کرتے اور اس کی سب سے بڑی مثال اسحاق ڈار کی ہے جو الیکشن سیل کے چیئرمین ہیں جنہوں نے 25 سال سے کوئی صوبائی یا قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا ہی نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست