’والدین اپنی بیٹیوں کو مجھ سے ملوانا چاہتے ہیں‘

لاہور میں ایس پییز کے کارکردگی ٹیسٹ میں اول آنے والی ایس پی انویسٹیگیشن ڈاکٹر انوش مسعود کہتی ہیں کہ ان کو خوشی ہے کہ وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

’والدین اپنی بیٹیوں کو مجھ سے ملوانا چاہتے ہیں، سکول کالج کے پرنسپل مجھے طلبہ سے ملوانا چاہتے ہیں، تو میں سمجھتی ہوں کہ میں لوگوں کو مثبت انداز میں متاثر کر رہی ہوں۔‘

یہ کہنا ہے ایس پی انوش مسعود چوہدری کا جو لاہور کے ماڈل ٹاؤن دویژن میں ایس پی انوسٹیگشن کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں اور حال ہی میں ایس پییز میں کارکردگی کے لحاظ سے اول آئیں ہیں۔ 

پولیس افسران کی کارکردگی جانچنے کے لیے کیے جانے والے ایک ٹیسٹ میں یہ دیکھا گیا کہ تحقیقاتی ونگ میں ایسپیز اپنا کردار کتنی ذمہ داری سے ادا کرتے ہیں۔ یہ لاہور پولیس ڈپارٹمنٹ میں اپنی نوعیت کا پہلا ٹیسٹ تھا اور اس کے نتائج میں ایس پی انوش مسعود نے 346 نمبر لے کر باقی پانچ دویژنز کے مرد ایس پیز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ 

ایس پی انویسٹیگیشن ڈاکٹر انوش مسعود کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، ان کے بارے میں سوال کرتے رہتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انوش مسعود نے اپنے پیشہ ورانہ سفر کے بارے میں کچھ یوں بتایا: ’انوش سے ڈاکٹر انوش اور پھر ایس پی انوش کا سفر خود ساختہ دباؤ میں گزرا کیونکہ میں گھر میں سب سے چھوٹی تھی اور سب سے لاڈلی۔ اس لیے ہمیشہ سے مجھے لگتا تھا کہ مجھے سب سے آگے رہنا ہے۔‘

’مجھے طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملک سے باہر جانا تھا لیکن پھر میں نے سوچا کہ میرے دیگر بہن بھائی جو ملک سے باہر گیے ہیں وہ واپس نہیں آئے، تو فیصلہ کیا کہ میں یہیں رہ کر یہاں کے لوگوں کی خدمت کروں کیونکہ اگر ایسے ہی پڑھے لکھے لوگ ملک سے باہر جاتے رہے تو پھر کیا فائدہ۔

بس پھر پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور سول سروسز کا رخ کیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب انٹرویو کی باری آئی تو اس میں بھی وہ دوسرے نمبر پر رہیں۔ ان کا انٹرویو کوئی 45 منٹ تک جاری رہا جس میں انٹرویو لینے والے افسر اور ان کے درمیان یہ بات ہوتی رہی کہ وہ آخر پولیس کے محکمے میں ہی کیوں جانا چاہتی ہیں۔

آخرکار انوش مسعود انہیں قائل کرنے میں کامیاب رہیں اور اس طرح پولیس کے محکمے میں شمولیت اختیار کر لی۔

انہوں نے کہا:  ’وردی کو ہمیشہ مردوں سے جوڑا جاتا ہے، کیونکہ وردی قوت اور طاقت کا نشان ہے، لیکن میں نوجوانوں سے کہتی ہوں کہ اگر آپ وردی سے متاثر ہیں تو اس کو پہننے کا جذبہ ہونا چاہیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جب وہ بھی وردی میں نہ ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ وہ پولیس والی نہیں لگتی۔ تو پھر انھیں بتانا پڑتا ہے کہ وہ شوٹنگ کے مقابلوں میں بھی پہلے نمبر پر آئی تھی اور بہترین شوٹر کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ایس پی انوش مسعود نے کہا: ’میں خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون اے ایس پی رہی ہوں اور میں نے ایبٹ آباد اور اوگی جیسے علاقوں میں کام کر چکی ہوں۔ میری ترجیحات میں لوگوں کو انصف کی جلد از جلد فراہمی ہے اور اچھا لگتا ہے جب لوگ آکر کہتے ہیں کہ میڈم آپ ہی کیس کی تحقیقات کر لیں، تو میں مسکرا کر کہتی ہوں کہ میں کیسے ہر کیس کی تحقیقات کر سکتی ہوں۔‘

جب ان کی عمر پوچھی تو وہ ہنس پڑیں۔ کہنے لگیں، ’عمر اتنی ہی ہے جتنی میں لگتی ہوں، ہاں 25 سے زیادہ ہوں مگر 30 سے کم۔‘

ذاتی زندگی میں انوش ایک بیٹی کی ماں ہیں مگر اس بات پر انہیں افسوس ہے کہ وہ کام کی وجہ سے فیملی کو ٹائم نہیں دے پاتیں البتہ کوشش ضرور کرتی ہیں۔

’ذاتی زندگی ایک ایسا پہلو ہے جہاں میں تھوڑی کمزور ہوں۔ پروفیشنل زندگی کو زیادہ وقت دیتی ہوں جس کی وجہ گھر اور دفتر میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتی۔ مشکل سے ہی سونے کا وقت ملتا ہے۔ بس خوشی اس بات کی ہے کہ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین