آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے شاپنگ مال میں چاقو سے کیے گئے حملے میں جان گنوانے والوں میں پہلی بار ماں بننے والی ایک خاتون بھی شامل ہیں تاہم چاقو لگنے سے زخمی ہونے والے ان کی نو ماہ کی بچی کی سرجری کی جا رہی ہے۔
ہفتے کی سہ پہر ویسٹ فیلڈ بونڈی جنکشن سینٹر میں چھ افراد کو قتل کر دیا گیا۔ حملہ آور کو ایک ’بہادر‘ خاتون پولیس افسر جو اس وقت ڈیوٹی پر نہیں تھیں، نے گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
38 سالہ ایش گڈ حملے کا نشانہ بننے والی وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں شناخت کیا گیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے چھوٹی سی بچی کو خریداری کے لیے آنے والے دوسرے خوفزدہ لوگوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اسے عارضی طبی امداد فراہم کر سکیں۔
دو بھائیوں نے بتایا کہ انہوں نے خون بہنے سے روکنے کے لیے جس دکان میں پناہ لی ہوئی تھی اس کی شرٹس کا استعمال کرتے ہوئے ان کی اور ان کے بچی کی مدد کرنے کی کوشش کی۔
خریداری کے لیے آئے دو بھائیوں میں سے ایک نے ٹیلی ویژن چینل نائن نیوز سڈنی کو بتایا: ’ہم ابھی خریداری کر ہی رہے تھے کہ ہم نے حملہ آور کو بھاگتے ہوئے اس خاتون کی جانب جاتے دیکھا جنہوں نے بچی کو اٹھا رکھا تھا۔ تب ہم دونوں نے باہر نکل کر خاتون کی مدد کی تیاری کر لی۔‘
’لیکن میں نے اپنے بھائی سے صرف اتنا کہا کہ ’ہمیں جانا ہو گا۔ (ہم) گئے اور لوگوں سے دروازے بند کرنے کا کہا اور پھر وہ ماں آئیں جن کی بچی کا خون بہہ رہا تھا۔ اسے چاقو لگا تھا۔ ہم انہیں سٹور میں لے گئے اور انہیں بحفاظت باہر نکال لیا اور پھر مدد کے لیے فون کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے بھائی نے ’بچی کو سنبھالنے میں مدد کی۔ اس کا خون بہنے سے روکنے کی کوشش کی اور (ماں کے ساتھ) بھی ایسا ہی کیا۔ خون کو بہنے سے روکنے کی کوشش کی اور ایمبولینس اور پولیس کو ٹیلی فون کیا۔‘
بعد ازاں تصدیق کی گئی کہ مذکورہ خاتون جان سے جانے والے لوگوں میں شامل ہیں۔ نیو ساؤتھ ویلز کی پولیس کمشنر کیرن ویب نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی بچی کی حالت کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کرنا ’قبل از وقت ہو گا۔‘
خاتون کے جاننے والوں نے انہیں ابتدائی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے گڈ کو ’عمدہ شخصیت اور شاندار ایتھلیٹ‘ قرار دیا گیا، جو اپنے بچے کا استقبال کرنے کے لیے ’بہت بے تاب‘ تھیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق چاقو سے کیے گئے حملے سے چند گھنٹے قبل گڈ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کی بیٹی کار کی نسشت پر بیٹھی سنیک کھا رہی ہیں اور میوزیکل بینڈ دا ٹیمپ ٹیشنز کا ساؤنڈ ٹریک ’مائی گرل‘ بج رہا ہے۔
مقامی وقت کے مطابق ہنگامی خدمات کے ادارے سے سہ پہر ساڑھے تین بجے کے قریب رابطہ کیا گیا جب ایک چاقو بردار شخص مال میں داخل ہوئے اور خریداروں پر اندھا دھند حملہ شروع کر دیا۔
آن لائن شیئر کی گئی دل دہلا دینے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خریدار کو حملہ آور کا سامنا ہے جس کے ہاتھ میں بڑا چاقو ہے اور برقی سیڑھیوں پر موجود خریدار نے پِلر تھام رکھا ہے۔
شاپنگ سینٹر میں ہونے والے حملے میں چار خواتین اور ایک مرد جان سے گئے جب کہ ایک اور خاتون جس کے بارے میں مانا کیا جاتا ہے کہ وہ گڈ نامی خاتون ہیں، کو ہسپتال پہنچنے کے بعد مردہ قرار دیا گیا۔
ان کی بچی سمیت آٹھ افراد سڈنی کے ہسپتالوں میں ’مختلف زخموں‘ کا علاج کروا رہے ہیں۔
نیو ساؤتھ ویلز پولیس کی ایک خاتون انسپیکٹر کو اس وقت ہیرو قرار دیا گیا جب انہوں نے تن تنہا حملہ آور کا مقابلہ کیا اور حملہ آور کی جانب سے ان پر چاقو سے حملہ کرنے پر حملہ آور کو گولی مار دی جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔
پریس کانفرنس میں پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر اینتھنی کوک نے کہا: ’یہ سب بہت تیزی سے ہوا۔ قریب ہی موجود افسر نے خود ہی فیصلہ کیا (اور) انہیں شاپنگ مرکز میں موجود لوگوں نے حملہ آور کی موجودگی کے مقام کے بارے میں بتایا۔
’انہوں نے وہ کام لیا جو انہوں نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں بچاتے ہوئے کیا (وہ) انسپیکٹر تھیں۔ ایک سینیئر پولیس افسر تھیں۔ وہ اکیلی تھیں۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ حملہ آور ایک 40 سالہ شخص تھے جنہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے سے جانتے تھے۔
اگرچہ ابھی تک حملے کا کوئی محرک ثابت نہیں ہوا ہے لیکن یہ نہیں مانا جاتا ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا۔
مرکز میں ایک دکان کے سپروائزر نے بتایا کہ انہوں نے حملہ آور کو ایک خاتون کو چاقو مارتے ہوئے دیکھا اور زمین پر چار افراد کی لاشیں دیکھیں جن میں دو سکیورٹی گارڈز بھی شامل تھے۔
29 سالہ یوہان فرانسوا فلپ نے بتایا کہ حملہ آور سے بچنے کے لیے دوڑ لگانے والی ایک خاتون ان کی دکان کی طرف بھاگیں اور دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ ’مجھے اندر آنے دو۔
انہوں نے مزید کہا: ’جب میں انہیں اندر آنے دے رہا تھا تو چاقو بردار حملہ آور ان کے پیچھے گر گئے اور میں نے اور سٹور میں موجود دیگر گاہکوں نے بھی انہیں (حملہ آور) کو دیکھا اور ہم نے خاتون کو جلدی سے اندر کھینچ لیا (اور) دروازہ بند کر دیا۔ وہ اٹھے اور ہمیں احساس ہوا کہ انہوں نے اسی وقت دو سکیورٹی گارڈز پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
’پھر وہ دکان کے کونے میں، پریمیم سیکشن کی طرف بھاگے اور انہوں نے ایک خاتون پر چاقو سے وار کیا، جو میں نے اپنے سامنے ہوتے دیکھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور خریدار خاتون نے یہ بھی بتایا کہ حملہ آور ان کی طرف بڑھ رہے تھے کہ پولیس افسر انہیں گولی مار دی جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر وہ انہیں گولی نہ مارتیں، تو وہ آگے بڑھتے رہتے وہ قتل عام میں مصروف تھے۔‘
’پھر وہ (پولیس افسر) آگے بڑھیں اور حملہ آور کے دل کے مقام کو ہاتھوں سے دبایا۔ حملہ آور کے ہاتھ میں بڑا چاقو تھا۔ انہوں نے چاقو لے لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ حملہ آور قتل عام کرنا چاہتے تھے۔‘
برطانیہ کے شاہ چارلس نے کہا کہ وہ اور ملکہ سڈنی میں ہونے والے ’بلا جواز حملے‘ پر ’شدید صدمے اور خوف کی حالت میں ہیں۔‘ اور ان کا ’دل بہیمانے طور پر مارے گئے افراد کے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ ہے۔‘
شہزاہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن نے بھی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہے انہیں اس ’خوفناک واقعے سے شدید صدمہ اور دکھ پہنچا ہے۔‘
(فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آسٹریلین پاکستانی نیشنل ایسوسی ایشن اور احمدیہ کمیونٹی کی تنظیم نے اتوار کو کہا کہ شاپنگ مال میں ہونے والے حملے میں سے جان سے جانے والوں میں 30 سالہ پاکستانی سکیورٹی گارڈ فراز طاہر بھی شامل ہیں۔
برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ حملے میں جان سے جانے والے واحد مرد، پاکستان سے تعلق رکھنے والے گارڈ فراز طاہر گذشتہ سال پناہ گزین کی حیثیت سے آسٹریلیا پہنچے تھے۔)
© The Independent