دنیا کی سب سے مشہور ہیرا چور خاتون نے سارے راز اگل دیے

طبقہ اشرافیہ کے با وقار پس منظر سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی کیسے عالمی سطح کی زیور چور بنیں؟ ’پنک پینتھر‘ کی سابقہ باس اولیورا سکووچ دلچسپ رازوں سے پردہ اٹھاتی ہیں۔

اولیورا ’کوین پینتھر‘ کے نام سے بھی مشہور ہیں اور دنیا کے سب سے بڑے ہیرا چور گروہ کی سربراہ رہ چکی ہیں (Kristina Fiscan/Olivera Cirkovic)

بحیرۂ روم کے گرد و نواح میں گرم رات نے ڈیرے ڈال رکھے تھے جب تین مرد اور ایک خاتون زیورات کی ایک دکان کے پاس پہنچے۔ منصوبہ واضح تھا: اندر گھسنا، جو ممکن ہو، جھپٹ کر رفو چکر ہو جانا۔ ’ہتھیاؤ اور لے بھاگو‘ قسم کی ڈکیتی سے وہ محض ایک لمحہ دور تھے۔ فقط چھ لاکھ نفوس پر مشتمل کریٹ کے جزیرے پر ایسی ڈکیتی کا کسے گمان ہو سکتا تھا۔ جیسے ہی کارروائی مکمل ہوئی وہ با آسانی ہزاروں سیاحوں میں تحلیل ہو جاتے۔

 اس رات لٹیروں کی رہنمائی طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سابق پیشہ ور باسکٹ بال کھلاڑی اولیورا کر رہی تھیں۔ ان کا منصوبہ بغیر کسی رکاوٹ کے کامیابی سے ہمکنار ہوا، لیکن ایک مضحکہ خیز غلطی نے اس منجھی ہوئی مجرمہ کو سلاخوں کے پیچھے لا کھڑا کیا۔

 اپنی گرفتاری کو یاد کرتے ہوئے اولیورا کہتی ہیں، ’معمول کا ٹریفک جام بعد میں میری گرفتاری اور اقرار جرم پر منتج ہوا۔‘ آنکھیں مٹکاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’میرے ساتھی نے کاٹنے والا ہتھیار گاڑی کی ڈگی میں رکھا اور یہ بات اس کے ذہن سے نکل گئی۔‘

گرفتاری کے بعد پولیس نے اولیورا کو دیگر چور اچکوں کے ساتھ پڑوسی ملک یونان بھیج دیا۔ پہلے انہیں کریٹ کی جیل میں بند کیا اور بعد میں یونان کے شہر ایتھنز میں خواتین کی جیل منتقل کر دیا گیا۔

اچھا تو ایک معزز اشرافیائی پس منظر رکھنے والی کھلاڑی عالمی سطح کی زیور ڈکیت کیسے بن گئی؟ عام تصور کے مطابق یہ مردوں کی دنیا ہے، لیکن اس میں بالخصوص ایک عورت ہوتے ہوئے ایسی پیش قدمی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پلکیں جھپکاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’من میں جو آئے بے دھڑک ہو کر پوچھیے۔ جن جرائم کا ابھی تک میں نے اقرار نہیں کیا ان کے سوا کچھ بھی پوچھنے پر قدغن نہیں۔‘

پنک پینتھر کی منتظم اور سربراہ اولیورا المعروف کوئین پینتھر پہلی بار مغربی میڈیا سے بات کر رہی تھیں۔ انٹرپول نے اس گروہ کو پنک پینتھر کا نام دیا جو کروڑوں ڈالر مالیت کی زیورات چوری میں ملوث رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق فرانس، یونان، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، جاپان، متحدہ ارب امارات اور دیگر کئی ممالک میں یہ گروہ وارداتیں ڈالتا رہا۔ پینتھرز سے پہلے بہت ہی کم ایسا ہوا کہ خواتین ایسی بڑی ڈکیتیوں میں ملوث رہی ہوں۔

 وہ کہتی ہیں، ’پنک پینتھرز کے متعلق بہت سوں نے تصوراتی خاکے تیار کیے۔ تاہم میں نہایت ذمہ داری سے یہ دعویٰ کرتی ہوں کہ صرف میں ہی ایسی عورت ہوں جو اس میں حقیقت کا رنگ بھر سکے۔‘

 پینتھر کے تمام اراکین سابقہ یوگوسلاویہ سے تعلق رکھتے ہیں: سربیا، کروشیا، بوسنیا، مونٹی نیگرو اور مقدونیہ۔ پینتھرز نے خطے میں تشدد پھیلاتی نسلی تقسیم سے ماورا ہو کر کام کیا۔ وہ کہتی ہیں، ’ہم کیسے مل کر کام کرتے ہیں اس کے متعلق بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم اوپر سے نیچے تک ایک بڑی منظم تنظیم نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے گروہوں پر مشتمل ہیں جو سب مل کر کام کرتے ہیں۔‘ وہ ایک اکائی کے طور پر نہیں بلکہ الگ الگ ٹکڑوں میں بکھرے مختلف علاقوں میں باہمی تعاون سے کام کرتے ہیں۔

باسکٹ بال کی ممتاز کھلاڑی، پر آسائش بچپن سے لطف اندوز ہونے والی اولیورا سابقہ یوگوسلاویہ کی مایہ ناز سٹار تھیں۔ وہ سربیا، بوسنیا، سلووینیا اور یونان کے چوٹی کے کلبوں میں کھیلتی رہیں۔ یونان میں یہ عرصہ چھ سال پر محیط رہا۔ 1995 میں پینتھر کے رکن اپنے سابقہ شوہر سے ملنے کے بعد انہوں نے منظم جرائم کی دنیا کا رخ کیا۔

بقول ان کے: ’وہ مجھے بہت دلچسپ لگے۔ بالکل رابن ہڈ کردار کی طرح کے انسان۔‘ اولیورا انہی کے ذریعے باقی افراد سے متعارف ہوئیں جو بعد میں منظم جرائم کا حصہ بنے۔ اولیورا نے پینتھرز کے چوری کردہ ڈیزائن والے کپڑے بیچنے سے شروعات کیں۔ 'میں نے کھیلتے ہوئے اچھا خاصا پیسہ بنایا لیکن جرائم کی دنیا نے میری آنکھیں کھول دیں۔ یہ کم ترین مدت میں امیر ہونے کا بہترین نسخہ ہے۔ مجھے لگا کہ میں ایک دن میں اتنی دولت کما سکتی ہوں کہ باسکٹ بال کا سالانہ معاہدہ خرید لوں۔‘

چوری کا مال پہچانے والوں سے بہت جلد ان کے دوستانہ مراسم استوار ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ انہیں جرائم پیشہ افراد کی بجائے دوست سمجھنے لگیں۔

 بہت جلد اولیورا کو گروپ کے کڑے اصولوں سے آگاہی ہوئی۔ کسی رکن کے اپنے وطن سے کچھ نہیں چرایا جائے گا۔ اشرافیائی پس منظر، چمک دمک کی دنیا سے وابستگی، کرشماتی شخصیت اور ممتاز باسکٹ بالر کی حیثیت سے اونچے طبقے تک رسائی کے سبب بہت جلد اولیورا کا کاروبار بلندیوں پر جا پہنچا۔ وہ پر جوش ہو کر کہتی ہیں: ’یہاں تک کہ چوری شدہ کپڑے خریدنے کے لیے میری اس عارضی دکان میں سیاست دان، ڈاکٹر اور مشہور شخصیات آنے لگیں۔‘

 ان کا آبائی وطن سربیا نئے کیریئر کی بنیاد رکھنے کے لیے بہترین جگہ تھی۔ سابقہ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد اخلاقی قدغنیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کمزور پڑ گئے اور یہ خطے جرائم پیش افراد کے لیے بہشت ثابت ہوئے۔ بالخصوص طاقتور افراد کے لیے منظم جرائم ترقی اور دولت کا بہترین ذریعہ بن گئے۔ نئے گاہکوں کی آمد کے ساتھ اولیورا بتدریج سونے اور زیورات کے کاروبار سے منسلک ہو گئیں۔ بہت جلد وہ درآمدی راستے پر کھڑی ڈکیتی کی واردات منظم کر رہی تھیں۔ ان سے منسلک پینتھر کے ذیلی گروہ نے یونان پر توجہ مرکوز کی۔ وہ یہاں چھ سال بطور کھلاڑی گزار چکی تھیں، اس لیے یونانی زبان بول سکتی تھیں۔ روشن خد و خال کی عورت ہونے کے سبب وہ مشکوک دکھائی دیے بغیر با آسانی دکانوں میں گھوم پھر کر ہدف کی نگرانی کر سکتی تھیں۔

پینتھرز فوجی اور ریاضیاتی کلیوں کے مطابق منصوبہ بندی ترتیب دیا کرتے تھے۔ اولیورا مجوزہ دکانوں، ان میں موجود سامان اور آس پاس کی سڑکوں کے خاکے بناتیں جو کسی معمار کی فنی پختگی بھلے نہ رکھتے ہوں، لیکن ہو بہو سچی منظر کشی کا نمونہ ہوتے تھے۔ دکان کی کئی ہفتے نگرانی جاری رہتی تاکہ ہدف کے متعلق تمام شکوک و شبہات دور کیے جا سکیں۔ گروہ میں شامل عملے کی بھرتی اور نگرانی بھی اولیورا پر منحصر تھی۔ تکنیکی طور پر با صلاحیت، مضبوط جسامت کے جوان اور ترجیحاً ایسے افراد کو شامل کیا جاتا جن کا پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ نہ ہو۔

وہ کہتی ہیں، ’بھرتی کرتے ہوئے میری چھٹی حس کمال کام کرتی تھی۔ مثال کے طور پر مجھے پتہ ہوتا تھا کہ یہ نوجوان فرار ہوتے لمحے تیز رفتاری سے کار چلانے کے لیے مناسب ترین ہے، یہ بندہ تالا توڑنے اور سلاخیں کاٹنے کے لیے مناسب رہے گا اور الارم بجنے سے پہلے یہ شخص انہیں خاموش کر سکتا ہے۔‘ مناسب افراد کا انتخاب اور ہموار طریقے سے تمام اراکین کا واردات ڈالنا ہمیشہ اہم ہوتا ہے۔

 اپنی بات پر زور دیتے ہوئے وہ گویا ہوئیں، ’بہرحال میں ایک کھلاڑی ہوں، سو کھیلوں کی حکمت عملی بروئے کار لاتی ہوئی میں اپنی ٹیم کو ایک نظم و ضبط میں پرو دیتی تھی۔‘ ایک تشبیہ ہمیشہ سے استعمال ہوتی رہی کہ پینتھرز فٹبال ٹیم کی طرح ہیں۔ اجتماعی مفاد کے لیے ذاتی اور ثقافتی اختلافات پس پشت ڈال کر یہ ذیلی شاخوں میں تقسیم ٹیم کی طرح کام کرتے جہاں ہر رکن اپنے سیکشن اور ہر سیکشن مرکزی اکائی کے لیے یک جان ہو جاتا۔

کیا مجرمانہ زندگی میں کوئی شعوری حد بندی بھی تھی؟

اولیورا اصرار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے اور میری ٹیم نے واضح اخلاقی ضوابط طے کر رکھے تھے اور ہمیشہ ڈکیتی کرتے ہوئے انہیں پامالی سے بچایا۔ ’میں اپنے آپ کو اچھا بنا کر پیش نہیں کر رہی لیکن میں نے ڈکیتی کے دوران بھی کچھ اخلاقی اصول دھیان میں رکھے: ترجیحاً واردات کا وقت رات کو رکھا جاتا جب عملہ موجود نہ ہو، جہاں ممکن ہو ہتھیاروں کے بغیر مال ہتھیانا، کم سے کم طاقت کا استعمال، لوگوں پر جسمانی تشدد اور غریب کو لُوٹنے سے اجتناب کے علاوہ زیورات اور فیشنی کپڑے کی ایسی دکانوں پر حملہ کرتے جنہیں انشورنس کی سہولت حاصل ہوتی۔‘

 میں نے ہتھیاروں کے کم سے کم استعمال کے متعلق مزید کریدا۔

وہ اعتماد سے کہنے لگیں، ’میری ترتیب دی گئی منصوبہ بندی میں تشدد کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا۔ اگر کبھی ہوا تو بہت ہی معمولی۔ اگر ہم نے ہتھیار استعمال کیے تو وہ نقلی تھے۔ ہم نے ہمیشہ گرفتاری کا امکان ذہن میں رکھا اور ہم جانتے تھے کہ نقلی ہتھیاروں کی بنا پر ہمیں کم سزا ہو گی۔' انہوں نے پر تشدد افراد کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے ہمیشہ گریز کیا بلکہ اس کے برعکس مہارت سے توڑ پھوڑ کے لیے تکنیکی صلاحیتوں پر بھرتی کی جاتی اور ایک بار تو الیکٹریکل انجینیئر طالب علم بھی ان کے گروہ کا حصہ رہا۔ پنک پینتھرز اپنے لیے ’باوقار چور‘ کی اصطلاح پسند کرتے ہیں۔ یقیناً ان کی بات میں وزن ہے کہ گذشتہ سال سے پہلے تک پنک پینتھرز کی واردات میں ایک شخص بھی کسی کاری زخم سے دوچار نہیں ہوا۔

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آدھی رات کو ڈکیتی کی ایک اور واردات کا ذکر کرتی ہیں جب ان کی ٹیم نے ریشمی کارپٹ ہتھیائے۔ کھول کر دیکھا تو وہ اور قسم کے کارپٹ نکلے۔ اگلی رات نہایت خاموشی سے وہ کارپٹ متعلقہ دکان پر واپس کر دئیے گئے۔

جیل میں شب و روز کیسے گزرے؟ جذباتی ہوئے بغیر اولیورا یونانی جیل کے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں 'جب میرے بیٹے نے پہلی مرتبہ اسے دیکھا تو وہ سمجھا یہ الکاٹراز (مشہور ناقابلِ تسخیر امریکی جیل) ہے۔‘

انٹرویو کے دوران اولیورا کئی وحشی قیدیوں کے واقعات سناتی ہیں۔ ایک بار انہیں ایسی عورت کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا جس نے مبینہ طور پر اپنے خاوند اور اس کی محبوبہ کو پیسٹری پیش کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ خاوند کو قتل کرنے والی اس عورت سے اولیورا کا اکثر جھگڑا چلتا رہتا۔ خاوند کے قتل جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث قیدیوں کو باقی قیدی نہایت حقارت سے دیکھتے تھے۔

ایسے پرہول واقعات سنانے کا مقصد واضح تھا کہ جیل میں قیدی درجہ وار ایسے غیر رسمی پیچیدہ ضوابط وضع کر لیتے ہیں جو رسمی جیل خانہ جات کا نظام مہیا کر سکتا ہے، نہ لاگو کر سکتا ہے۔

قید کے دوران اولیورا نے ڈرائنگ اور مصوری کا ذوق پیدا کر لیا۔ جس سے پہلے ساتھی قیدیوں کو چونکایا اور پھر بات نگرانوں سے ہوتی ہوئی سینیئر حفاظتی عملے اور کمانڈروں تک پہنچی۔

’میں مصروف رہنا پسند کرتی ہوں۔ ڈرائنگ اور مصوری میرے لیے جیل کی روزمرہ تکالیف سے نجات کا راستہ بن گئے۔ یہ واحد سرگرمی تھی جو میرے لیے آرام اور تحفظ کا باعث تھی۔‘

 عملے نے اولیورا کو مصوری اور ڈرائنگ کے لیے درکار ضروری سامان مہیا کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ جیل کی سیاہ دیواروں پر زندگی کے رنگ بکھیر سکیں۔ میں بس اداسی کو ان دیواروں سے کھرچ دینا چاہتی تھی۔

وہ نیلے آسمان تلے بہتے دریا اور پہاڑی ڈھلوانوں کے ساتھ ساتھ ڈزنی کے مشہور زمانہ کارٹون بھی تصویر کرنے لگیں اور یہ ایسی چیزیں تھیں جن کا جیل میں تصور بھی محال تھا۔ ان کے کام میں زندگی کے نقش تلاش کرتے قیدیوں نے ایسے کمروں میں رہنے کی درخواست شروع کر دی جہاں دیواریں مزین ہوں۔ جیل کے عملے کے دل میں ان کے لیے ہمدردی کی لہریں بیدار ہونے لگیں کیونکہ مصوری نے جیل کا مثبت امیج اجاگر کرنا شروع کر دیا تھا۔ لوکل میڈیا اولیورا کی سجائی دیواروں کی فلم بندی کے لیے آنے لگا۔

وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں، ’یہاں تک کہ میں نے جیل کے سربراہ کا کمرہ بھی پینٹ کیا کیونکہ انہوں نے مجھے کہا تھا۔‘

 اولیورا کے ادبی ذوق نے انہیں جیل میں گھومنے پھرنے، مصوری کرنے اور درکار ضروری سامان منگوانے کی آزادی مہیا کی۔ ’جیل کا عملہ مجھے آزادانہ گھومتے دیکھنے کا عادی ہو گیا۔ اس قدر آزادی تھی کہ میں مرکزی دروازے کے قریب بڑے کمرے کی دیواروں پر نقش بنا رہی تھی۔ عملہ بتدریج بھولتا گیا کہ میں کوئی قیدی ہوں۔‘

’جیل کا فون استعمال کرتے ہوئے میں نے اپنے دوست (پینتھر گروپ کے ساتھی) کا نمبر ملایا کہ وہ آئل پینٹ پہنچانے کے بہانے آئے۔ میں نے تمام صورت حال اور منصوبہ بندی سمجھا دی کہ کیسے ایک گارڈ سامان وصول کرنے میرے ساتھ مرکزی دروازے تک آئے گا۔‘

منصوبے کے تار و پود انتہائی باریک بینی سے بنے گئے تھے۔ اولیورا کی خوش قسمتی ہی کہیے کہ فون کی نگرانی کی ہی نہیں جا رہی تھی یا وہ سربیائی زبان سے واقف نہ تھے۔

متعلقہ دن دو دوست الگ الگ موٹر سائیکلوں پر آن پہنچے۔ ’منصوبے کے مطابق جو بھی دروازہ کھولے اسے اتنے زور کا مکا رسید کیا جائے کہ زیادہ چوٹ نہ آئے لیکن اس میں چیخنے کی سکت باقی نہ رہے۔‘

طے شدہ دن اولیورا کا دوست پرسکون انداز میں مرکزی دروازے پہنچا اور گھنٹی بجائی۔

جواب میں گارڈ نے ’ہیلو‘ کہا۔ گارڈ کے پیچھے کھڑی اولیورا نے سر کی جنبش سے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ ایک مکے سے گارڈ کی بتی بجھ گئی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔

’میرا دوست ایسا نہیں چاہتا تھا جس پر وہ بعد میں افسوس کا اظہار کرتا رہا، لیکن مجھے باہر نکالنا کے لیے ایسا کرنا اس کی مجبوری تھی۔‘

اولیورا اور اس کے دوست نہایت اطمینان سے موٹرسائیکلوں تک پہنچے۔ ’باہر کھڑے افسران میں سے کسی کو ہلکا سا بھی شک نہ گزرا کیونکہ ہم نہایت آرام سے موٹرسائیکلوں تک آئے۔ وہ سمجھے کہ ہم بھی عام لوگ ہیں جن کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔‘

 وہ اپنے ساتھی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہوئیں اور یونان کی جیل سے فرار ہونے والی پہلی خاتون بن گئیں۔ ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: ’جب میں محفوظ ٹھکانے پر پہنچی تو بریکنگ نیوز دیکھی کہ میں فرار ہو چکی ہوں۔ ہر طرف خبروں میں اپنا چہرہ دیکھنا ناقابل یقین سا تھا۔‘

کوریڈیلوس سے ان کے فرار پر یونان بھر کے میڈیا نے خوب شور مچایا اور وزیر انصاف کو بھی ٹی وی سکرین پر نمودار ہونا پڑا۔ جیل میں ان کے فرار نے جشن کا سماں برپا کر دیا۔ ’جیل میں اپنی وردیاں ہوا میں اچھالتے ہوئے قیدی میرے فرار کی خوشی منا رہے تھے کیونکہ اس سے ان کے اندر بھی امید جاگی کہ وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‘

جیل سے بھاگنے کے بعد اگلے دن اولیورا پیدل چلتے ہوئے مقدونیہ کے پہاڑوں سے سربیا کے طرف نکل کھڑی ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار چند کلومیٹر کے فاصلے پر میرا انتظار کر رہا تھا۔ وہ ایک قابل اعتبار دوست اور سرحدی علاقے کا مقامی رہائشی تھا۔ وہ تمام خفیہ راستوں سے واقف تھا۔ اس نے میرے لیے ایک ایسے ہی راستے کا انتخاب کیا۔‘ پورا علاقہ بھول بھلیوں کا منظر پیش کر رہا تھا۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’میں مفرور مجرم کے بجائے نگران آفیسر لگ رہی تھی۔ کیونکہ میں نے کھیل کے دوران لگنے والی سابقہ چوٹوں کے سبب نکلنے سے پہلے ہی اپنی کلائیوں اور ٹخنوں پر پٹیاں باندھ لی تھیں۔ کسے اندازہ تھا کہ چیمپیئن شپ سے پہلے اپنی کلائیوں پر پٹیاں باندھنے کے طویل عرصے بعد بطور مفرور ملزم میں یہی عمل دہراؤں گی۔‘

 یہ سربیا کی جانب 250 کلومیٹر لمبا پہاڑی راستہ تھا۔ ان کے پاس علاقے کا نقشہ، کچھ رقم اور پہلے سے طے شدہ ملاقاتوں کا شیڈول تھا تاکہ موبائل فون چارج کیا جا سکے اور ضروری اشیا ہمراہ لی جا سکیں۔ مجوزہ مقام کا فاصلہ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دنوں بعد وہ سربیا کے قریب پہنچ چکے تھے جہاں غیر متوقع طور پر ایک ٹیکسی ڈرائیور دوست کی مدد سے انہوں نے آخری رکاوٹ بھی پار کر لی۔

 اس دوست نے انجانے راستوں پر بڑھتے ہوئے انہیں سربیا میں پہلے سے منتظر ایک دوست تک پہنچا دیا۔ سربیا کا یونان کے ساتھ ملزموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں۔

’اب میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ میں نے تمام رکاوٹیں عبور کر لی تھیں۔‘

 بالآخر سربیا میں کئی سالوں کی جدائی کے بعد وہ اپنے بیٹے نکولس کے ساتھ تھیں، جو اب 24 برس کا ہو چکا تھا۔ میں انٹرویو کے دوران اس بات کا مشاہدہ کر چکا تھا کہ جب بھی بیٹے کا ذکر کرتیں ان کی آواز کپکپانے لگتی اور وہ موضوع تبدیل کر دیتیں۔ یہ واضح طور پر ان کی دکھتی رگ تھی۔ کیا آپ کو اس بات کی پشیمانی ہے؟ آخر کار یہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا جب دونوں ماں باپ سلاخوں کے پیچھے جا پہنچے۔

وہ بیٹے کی طرف دیکھ کر ایک لمحے کو رکتی ہیں۔ ’میرے بیٹے نے دو متضاد دنیاؤں سے ہم آہنگ ہو کر جینا سیکھ لیا ہے: ایک جو سماجی اقدار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور دوسری جسے سماج قبول کرنے کو تیار نہیں۔‘

’اس نے سیکھ لیا ہے کہ کسی کو پرکھنے یا رد کرنے ضرورت نہیں۔ کئی سال جب ہم جیل میں رہے تو اس دوران وہ آگاہ ہو چکا ہے کہ کسی کے والدین اور ان کی پیشہ ورانہ زندگی سے متعلق سوال نہیں کرنا، کہیں ایسا نہ ہو وہ پلٹ کر یہی سوال اس سے پوچھ لیں۔‘

وہ مزید سوالات کے ساتھ آگے بڑھنے کا اشارہ دیتی ہیں۔ انٹرویو کے دوران ان کا نرم خو بیٹا نکولس خاموشی اوڑھے تمام وقت ادھر ہی موجود رہا۔

تاہم جیل سے فرار کو چند مہینے ہی گزرے تھے کہ اولیورا پہلے سے طے شدہ ایک ڈکیتی کے لیے ایتھنز جا پہنچیں۔ جیل میں گزرے وقت نے اولیورا کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ماؤف کر دی تھیں۔ جرائم پیشہ زندگی سے تائب ہونے کی بجائے وہ دوبارہ اسی میں کود گئیں۔ یونان ایک برا انتخاب تھا لیکن زبان دانی کی بنیاد پر یہی ایک واحد راستہ تھا۔ وہ اپنی قسمت آزما رہی تھیں جو 29 نومبر 2012 کو دھوکا دے گئی۔ پولیس نے اولیورا کے خفیہ ٹھکانے پر چھاپہ مارا اور 30 کلو سونا برآمد کر لیا۔

 وہ بتاتی ہیں، ’ساڑھے نو کا وقت تھا۔ باہر شور ہوا، میرے اپارٹمنٹ کا دروازہ تڑاخ سے کھلا اور پیچ پرزے دور جا گرے۔ پولیس کے خصوصی دستے ٹوٹ پڑے۔ میرے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ میں ایک ہی جگہ ساکت رہی اور ہلنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اپارٹمنٹ کی تلاشی لی لیکن کوئی اور موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد اصل کارروائی شروع ہوئی۔ انہوں نے پردے اور فرنیچر پٹختے ہوئے مطلوبہ مال اٹھا لیا۔‘

 کیا آپ خوفزدہ تھیں؟ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں، ’نہیں، میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی۔ انہیں گمان گزرا میں نشے میں دھت ہوں اسی لیے ایسے پرسکون بیٹھی ہوں۔‘

انہیں گرفتار کرکے 32 سال کے لیے بطور سزا حوالات میں بند کر دیا گیا۔ ان پر چوری چکاری کی 116 سنگین وارداتوں اور ہتھیاروں کے زور پر تین ڈکیتیوں سمیت کل ملا کر 55 لاکھ ڈالر مالیت کے الزامات عائد کیے گئے۔ دوبارہ جیل میں پہنچنے کے بعد وہ مصوری کے لیے درکار ضروری سامان سے محروم رکھی گئیں۔ مصوری کا راستہ بند دیکھ کر متبادل کے طور پر وہ پڑھنے لکھنے کے شغل میں لگ گئیں۔

’میں نے اب ڈائری لکھنی شروع کر دی۔ بعد میں ان کی ڈائری یادداشتوں پر مبنی کتاب ’میں: پنک پینتھر‘ کا پہلا مسودہ ثابت ہوئی۔

’لوگوں کو میری خودنوشت پر اپنے معنی جاری کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ مجھے یہ بات دو ٹوک الفاظ میں کہہ دینی چاہیے کہ میں کسی کے لیے رول ماڈل نہیں بننا چاہتی بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ میں چاہتی ہوں میری یادداشتیں جرائم کے خلاف ذہن سازی کریں۔ میں لوگوں کو اس طرف جھانکنے سے بھی باز رکھنا چاہتی ہوں کیونکہ اس سے میری زندگی تباہ ہوئی۔ مجرم بننے سے اجتناب کرو۔‘

 حیران کن طور پر 2017 میں اچھے رویے کی بنیاد پر ان کی باقی 27 سالہ قید معاف کرتے ہوئے رہا کر دیا گیا۔ تو اب کوئین پینتھر کے کیا ارادے ہیں؟ ان کا جواب دو ٹوک تھا کہ ’سلاخیں اور دیواریں مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ جذبات دبا کر شدید گھٹن سے دوچار کرتی ہیں۔ میں جیلوں میں اصلاحات کے لیے جدوجہد کرنا چاہتی ہوں۔ کوئی نفسیات دان یا صاحب علم یہ کام نہیں کر سکتا بلکہ صرف جو اس نظام سے گزرے ہیں وہی مسائل حل کر سکتے ہیں۔‘

 وہ بہت کھلے دل سے اقرار کرتی ہیں کہ کیسے جیل نے انہیں بدل کر رکھ دیا۔ اس تجربے نے انہیں مزید سخت جان بنا دیا اور کسی قیدی کے لیے اپنی انقلابی صورت حال کو استعمال میں لانے کا مناسب ترین وقت رہائی کے بعد ہوتا ہے۔ کیا یہ سب سندر باتیں اور سہانے سپنے ہیں جو حقیقت کا روپ کبھی نہ دھاریں گے؟

 وہ کہتی ہیں ’نہیں، میں واقعی اس جگہ بطور اتالیق واپس جانا چاہتی ہوں جہاں قید رہی اور ممکنہ طور پر این جی اوز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہوں۔‘

کیا آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں شرارت گدگدی کرتی ہے؟ کیا آپ میں پیشہ ورانہ جرائم کی طرف لوٹنے کی خواہش انگڑائی نہیں لیتی؟

وہ فوراً بول اٹھتی ہیں، ’نہیں، میری بس ہو گئی۔ اب یہ میرے پوتے پوتیوں کے لیے ایک کہانی رہ گئی ہے، جسے یاد کرتے ہوئے وہ کہیں گے جب دادی اماں جیل سے فرار ہوئی تھیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین