تحریر سکوئر کے 10 سال: مصر نے اس تجربے سے یہ سبق سیکھے

گذشتہ آٹھ سال سے برسر اقتدار عبدالفتاح السیسی نے مصر میں ریاستی جبر کا ایسا کڑا نظام مسلط کر رکھا ہے جس کے سامنے انور سادات یا حسنی مبارک کی آمریت کچھ بھی نہیں۔

قاہرہ کے وسط میں واقع تحریر سکوئر پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید ہنگامہ آرائی رہی (اے ایف پی)

ایک دہائی قبل 25 جنوری کو قاہرہ میں نیشنل پولیس ڈے پر نوجوانوں کی بڑی تعداد سمیت ہزاروں مصری اپنی قوم کی تقدیر بدلنے کا سپنا سجائے سڑکوں پر نکل آئے۔

11 روز پہلے انقلاب کے ذریعے تیونس کے حکمران زین العابدین بن علی کا تختہ الٹنا اس احتجاج کا ابتدائی محرک تھا، جس کا دائرہ گذشتہ سال سکندریہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان کی یاد نے مزید وسیع کر دیا، جو حسنی مبارک کے 2010 میں جعلی پارلیمانی انتخابات کے بعد طاقت ور ترین فرد بننے کا بہیمانہ اظہار تھا۔ 

حسنی مبارک کی جانب سے طاقت کا اندھا استعمال تبدیلی کے خواہش مند نوجوانوں اور حزب اختلاف کی مرکزی جماعت اخوان المسلمین کا جذبہ سرد نہ کر سکا اور پولیس گردی کے خلاف قصر نیل کے پل سے دارالحکومت کے تاریخی مقام تحریر سکوئر تک مشتعل ہجوم کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا، ’عوام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘ 

کئی دن تک تحریر چوک مظاہرین کا مرکز بنا رہا، جنہوں نے سینکڑوں نہتے شہریوں کی جان لینے والے حکومتی ایما پر آئے لٹیروں کے حملے کو پسپا کر دیا جو نہ صرف ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے بلکہ ان میں بعض شتر سوار بھی شامل تھے۔

تحریر چوک کے احتجاجی مظاہرے کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور 11 فروری، 2011 میں حسنی مبارک کے استعفے نے بظاہر ان کی فتح پر مہر ثبت کر دی لیکن خوشی کا لمحہ پوری طرح روشن بھی نہ ہوا تھا کہ مصر کی فضا میں آمریت اور مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے۔

حزب اختلاف میں حسنی مبارک کی مخالفت کے سوا بہت کم نقطہ اشتراک تھا۔ ملک کے طاقت ور ترین اور قدامت پسند ادارے فوج نے سیاسی و سماجی تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مصر میں جمہوریت کا پودا اگتے ہی روند ڈالا۔

 گذشتہ آٹھ سال سے برسر اقتدار سابق فوجی افسر اور انٹیلی جنس چیف عبدالفتاح السیسی نے مصر میں ریاستی جبر کا ایسا کڑا نظام مسلط کیا جس کے سامنے 1970 کی دہائی میں انور سادات یا حسنی مبارک کی آمریت کچھ بھی نہیں۔

انسانی حقوق کے نگران ادارے کی عالمی رپورٹ برائے 2021 کے مطابق ملک السیسی اور ان کے سیکورٹی سٹیبلشمنٹ حکام کی 'بدترین آمریت کی زد میں ہے۔' ہزاروں مخالفین، صحافی اور انسانی حقوق کے علم بردار سلاخوں کے پیچھے ہیں جن میں بعض پر باضابطہ فرد جرم عائد کرنے کی زحمت تک نہ کی گئی۔

اختلاف کی ہر آواز کو فوراً خاموش کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر جنسی تفریح کی پاداش میں زندہ دلان مصر کو اس لیے سزا بھگتنا پڑی کیونکہ ان کا یہ عمل السیسی کی اخلاقیات پر پورا نہ اترتا تھا۔ 

مصر میں امریکہ کے سابق سفیر اور اب کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے بطور محقق وابستہ مشیل ڈن کہتی ہیں، ’السیسی حکومت کا بدترین مسئلہ جبر اور اختیار کا عدم توازن ہے جس کا جھکاؤ مبارک اور سادات کی نسبت کہیں زیادہ جبر کی طرف ہے۔

’مصر کے لوگ اپنے اور ریاست کے درمیان خوف کی دیوار حائل دیکھتے ہیں۔ السیسی نے یہ دیوار کھڑی کرنے کے لیے بدترین تشدد کا استعمال کیا۔ اس سے پہلے انسانی حقوق کی پامالی اور سیاسی دباؤ بڑھانے کے لیے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی ادارے ایک خاص سطح سے آگے نہ بڑھتے تھے لیکن افسوسناک ترین حقیقت یہ ہے کہ اب تمام حدیں پار ہو چکی ہیں۔‘

 السیسی کے جبر کی ایک شکل بھاری بھرکم منصوبے ہیں جن سے ان کے ساتھیوں کو عوامی خزانے کی مدد سے اچھا خاصا فائدہ ہو جاتا ہے جبکہ ایک عام مصری کی زندگی بہت کم بہتر ہوتی ہے۔ ان مہنگے منصوبوں میں نہر سوئز پر کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری اور دارالحکومت کے مشرقی جانب صحرا میں 'نئے قاہرہ' کی تعمیر سر فہرست ہیں۔

اس کے بعد 32 ملین ڈالرز کی لاگت سے افریقہ کے سب سے بڑے فیرس ویل (ہنڈولا) ’عین القاہرہ‘ کی تیاری ہے، جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ فضائی آلودگی سے متاثرہ دارالحکومت کی طرف سیاحوں کی بڑی تعداد کھینچ لائے گا۔

اس رائے سے اختلاف ممکن ہے لیکن السیسی کے منصوبے مہنگے، ماحولیاتی مسائل کا باعث اور ایک ایسے ملک کے لیے غیر ضروری ہیں جہاں نہ صرف غریب لوگوں کی اکثریت مناسب پانی اور صفائی کے مسائل سے دوچار ہے بلکہ متوسط طبقہ بھی صحت اور تعلیمی بدحالی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔

ایسی بدسلوکیوں اور بے اعتدالیوں پر دنیا کی خاموشی نے السیسی کے حوصلے بڑھا دیے اور جیسے دل میں آئے وہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ بدستور دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے چہچہتے ہیں کیونکہ وہ ان سے مسلسل ایسے جدید ترین ہتھیار خرید رہے ہیں جن کی مصر کو ضرورت ہی نہیں۔

ڈن کے مطابق السیسی نے امریکہ، روس، فرانس اور دیگر ممالک سے تقریباً اتنی ہی مالیت کے ہتھیار خرید لیے جتنی رقم کرونا وائرس کے نام پر آئی ایم ایف سے ملکی مستقبل کی پروا کیے بغیر قرض لی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 حیران کن طور پر بے شمار خطروں کے باوجود مصری عوام کرپشن، ریاستی جبر اور زوال پذیر معیار زندگی کے خلاف پورے 2019 بالخصوص اکتوبر کے مہینے گلی کوچوں میں احتجاج کرتی نظر آئی۔

کسی بھی قسم کی بہتری کی امیدیں کھو چکی ہیں۔ السیسی نے ملکی معاملات کی فیصلہ سازی پرلے درجے کے خوشامدی ساتھیوں اور ذاتی وفا داروں کے سپرد کر رکھی ہے۔

اپنے مخالفین میں سے انہوں نے اسلام پسندوں کی گرفتاری، جیل، بدترین تشدد اور پھانسی پر بس نہیں کی بلکہ لبرل، بائیں بازو کے افراد اور یہاں تک کہ آمرانہ طرز حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے قوم پرست بھی خاموشی اور جیل کے اندھیرے میں دھکیل دئیے گئے۔

10 برس قبل حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کے لیے مختلف سیاسی و سماجی قوتوں کا جو اتحاد وجود میں آیا تھا وہ آج آپس میں بھی اتنے ہی بد گمان ہیں جتنے موجودہ حکومت سے۔

 شاید 25 جنوری، 2011 کا بنیادی سبق ہی یہی ہے کہ آمریت کا خاتمہ کرنے کے تمنائی احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے سے پہلے آپس میں یہ طے کر لیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور اس کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ ڈن کہتی ہیں کہ ’مبارک کو گرانے کے معاملے میں وہ بالکل واضح تھے۔ لیکن انہیں یہ پتہ نہ تھا کہ اس کا متبادل کون ہو گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا