بلوچستان میں چار ہزار سکول بند پڑے ہیں

سیکریٹری ثانوی تعلیم بلوچستان شیر خان بازئی کا کہنا ہے کہ اکثر سکولوں میں صرف ایک استاد تعینات ہے، اور جب کوئی استاد چھٹی لیتا ہے، ریٹائر ہوتا ہے یا پھر انتقال کر جاتا ہے تو سکول بند ہو جاتا ہے۔

(تصاویر: ندیم خان)

ساجدہ ایک روز کالج سے چھٹی کر کے گھر واپس جا رہی تھیں کہ راستے میں انہیں محلے کے بچے اپنے مسقبل سے بے خبر کچرے کے ڈھیر پر کھیلتے نظر آئے۔

یہ منظر ساجدہ کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوا، وہ اس سوچ میں پڑ گئیں کہ جس عمر میں بچوں کو سکول جانا چاہیے وہ کس طرح سکول نہیں جا رہے۔ تب ہی انہوں نے بچوں کو بلا معاوضہ پڑھانا شروع کیا۔

ساجدہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے قریب 50 کلومیٹر دور واقع ضلع مستونگ کے علاقے پڑنگ آباد، کلی کاریز کی رہائشی ہیں۔

 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق اس ضلعے کی کل آبادی 266461 ہے۔ یہاں اکثریت لوگوں کا گزر بسر کھیتی باڑی اور باغات پر ہے۔ ساجدہ نے 2010 میں جامعہ بلوچستان سے ایم اے اسلامیات اور پھر بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی، وہ گذشتہ دس سال سے زائد عرصے سے بلا کسی معاوضے کے بچوں کو اپنے گھر میں پڑھا رہی ہیں۔

ساجدہ نے بتایا: ’ہمارے صوبے میں تعلیم کی صورت حال خراب ہے۔ اکثر بچے کسی نہ کسی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے، جب میں نے محلے کے بچوں کو گھر میں پڑھانے کا ارادہ کیا تو مجھے بچوں کے والدین سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’والدین نے بچوں کو پڑھانے سے صاف انکار کر دیا۔ لیکن بعد میں میری منت سماجت کے بعد بچوں کے والدین پڑھانے پر راضی ہو گئے۔ اور اب دس کے قریب بچے میرے گھر پر پڑھنے کی غرض سے آتے ہیں تاہم شدید سردی کے باعث پڑھائی کا یہ عمل کچھ عرصے تک رکا ہوا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں نہ صرف اپنے ضلعے بلکہ پورے صوبے میں تعلیم کے نظام میں بہتری دیکھ سکوں۔‘

کرونا (کورونا) وائرس کی عالمی وبا کے دنوں میں جہاں نظام تعلیم متاثر ہوا تو وہیں ساجدہ نے احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے پڑھائی کے اس عمل کو جاری رکھا۔

2017  کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی 12,344,408 ہے۔ صوبے کی وزات برائے ثانوی تعلیم ہر سال رئیل ٹائم سکول مانیٹرنگ سسٹم (آر ٹی ایس ایم) کے تحت بک لیٹ کی شکل میں اعداد شمار جاری کرتی ہے۔ جاری کردہ 19-2018 کی بک لیٹ کے مطابق صوبے میں کل سکولوں کی تعداد 14855 ہے، جس میں سے 73.4 فیصد یعنی 10971 سکولوں کی مانیٹرنگ کی گئی۔ ان سکولوں میں سے 2998 سکول بند پائے گئے۔ 73.4 فیصد سکولوں میں سے بچوں کے 31.1 فیصد جبکہ بچیوں کے 33.4 فیصد سکولوں میں بیٹھنے کے لیے میز، کرسیاں یا پھر چٹائی جیسی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔

سیکریٹری ثانوی تعلیم شیر خان بازئی نے بند سکولوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا:  ’بند سکولوں کی تعداد اس وقت چار ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، سکول بند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر سکولوں میں صرف ایک استاد تعینات ہے۔ جب کوئی استاد چھٹی لیتا ہے، ریٹائر ہوتا ہے یا پھر انتقال کر جاتا ہے تو سکول بند ہو جاتا ہے۔‘

بازئی نے بتایا: ’صوبے بھر میں 12 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ کرونا وبا کے باعث رئیل ٹائم مانیٹرنگ کی رپورٹ برائے20-2019 جاری نہیں کی جا سکی جو کہ جلد جاری کی جائے گی جس میں تازہ اعداد شمار شامل ہوں گے۔‘

وکیل و سماجی کارکن رخسانہ عزیز آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 اے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتی ہیں کہ 73 کے آئین کی رو سے ’پانچ سال سے لے کر 15 سال تک کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دی جائے گی، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو آئینی حقوق فراہم کرے۔ چونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری صوبوں کی بنتی ہے کہ وہ 15 سال تک عمر کے بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم فراہم کرے۔‘

رخسانہ نے مزید بتایا: ’میں محکمہ تعلیم کے ساتھ متعدد پراجیکٹس پر کام کر چکی ہوں محکمہ کی انتظامی امور چلانے والے اکثر افسران کو اقوام متحدہ کے مختص کردہ سسٹین ایبل ڈیویلپ گول (ایس ڈی جیز) جو کہ 2030 تک پورے کرنے ہیں اس کے بارے میں پتہ تک نہیں، حالانکہ تعلیم کل 17 ایس ڈی جیز میں سے چوتھا نمبر  ہے۔ بچوں کی سکول میں انرولمنٹ کو بہتر بنانے میں محکمہ اقدامات کرے اور ساتھ ہی ساتھ والدین کے لیے آگاہی مہم ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے پر رضامند ہوں۔‘

بلوچستان نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو بلوچستان اسمبلی کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئیرمین ہیں۔ اختر حسین بتاتے ہیں: ’محکمہ تعلیم میں کرپشن دیگر محکموں کی نسبت زیادہ ہے۔ پسماندہ اضلاع کو تو چھوڑیں یہاں کوئٹہ جو کہ صوبائی دارالحکومت ہے، یہاں کے اکثر سکولوں میں ڈیسک اور کرسیوں جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ ریکارڈز کی حد تک تو سکولوں کے لیے فرنیچر وغیرہ کا سامان خرید لیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔‘

اختر حسین نے بتایا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئیرمین کی حیثیت سے انہوں نے محکمہ تعلیم میں سب زیادہ انکوائریاں کروائیں۔ اساتذہ کی ٹریڈ یونین اس قدر طاقتور ہیں کہ حکومت بھی ان کے سامنے بے بس ہیں۔ اکثر اساتذہ سکول میں پڑھانے کے لیے جاتے تک نہیں کیونکہ ان کی پشت پناہی یونین کر رہی ہوتی ہے۔

اختر حسین نے بتایا: ’اکثر اساتذہ یونین کی مضبوطی کی وجہ سے ڈیوٹی سر انجام نہیں دیتے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے میں نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر لازمی سروس کا بل منظور کروایا لیکن حکومت بے بس ہے اور اس بل پر تاحال عمل در آمد نہیں ہو پا رہا جس کی وجہ سے محکمہ تعلیم کی کارکردگی خراب ہے۔‘

صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند کے مطابق: ’تعلیم کی بہتری ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ میں نے برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ محکمہ میں اساتذہ کی شدید قلت سمیت بجٹ کا بھی کم ہونا ہے۔ تاہم میں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے درخواست کی ہے وہ محکمہ تعلیم کا بجٹ بڑھائیں تاکہ تعلیمی نظام میں بہتری آسکے۔ تعلیم کی بہتری کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا:  ’ہم بلوچستان کے 33 اضلاع میں ریزیڈیشنل سکول قائم کرنے جا رہے ہیں اور اساتذہ کو تربیت کے لیے امریکہ بھی بھیجا جائے گا۔ لیکن ہمارے صوبے کی حالت ایسی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو سکول تک نہیں بھیج سکتے۔‘

سیکریٹری ثانوی تعلیم شیر خان بازئی بتاتے ہیں: ’محکمہ تعلیم کو پانچ سالہ جامع منصوبہ بندی کے تحت 72 ارب روپے کی ضرورت ہے، جبکہ محکمہ مالی بحرانوں کا شکار ہے۔ اس سال چار ہزار اساتذہ کی تقرریاں کی گئی ہیں۔ تاہم مزید چھ سے سات ہزار تک اسامیاں خالی ہیں۔ وہ سکول جہاں ایک استاد پڑھایا کرتا تھا وہاں اب اساتذہ کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے، تاکہ ایک استاد کے جانے سے پورا سکول بند نہ ہو۔‘

پروفیسر ڈاکٹر ملازم حسین اپنے وسیع تعلیمی تجربے کی روشنی میں بتاتے ہیں: ’والدین شعور میں کمی، غربت اور تعلیمی وسائل کی عدم فراہمی کی بنیاد پر اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل نہیں کرا پاتے۔ اگر کوئی داخل کرا بھی دے تو سکولوں میں طلبہ کے لیے بیٹھنے کے لیے میز یا کرسی کا نہ ہونا ایک لحاظ سے بچوں کی عزت نفس مجروع کرنا ہے جس کے نفسیاتی طور پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘

پروفیسر ملازم حسین نے تجاویز دیتے ہوئے بتایا کہ تعلیم کے بجٹ کو بڑھانا، سکولوں میں تمام تر بنیادی سہولیات فراہم کرنا، اساتذہ کی وقت کے ساتھ منساب تربیت سمیت، والدین میں اساتذہ کی جانب سے اگاہی فراہم کرنا کہ وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کروائیں۔ تو تب ہی جاکر تعلیمی نظام میں بہتری آ سکے گی، جبکہ مناسب وقت کے ساتھ محکمہ تعلیم کا آڈٹ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ محکمہ میں کوئی بے قاعدگی نہ ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان