می ٹو تحریک: ’غلط الزام لگانے والے کو سزا ملنی چاہیے‘

میری مزاح سے پُر اور طنزیہ گفتگو کی عادت ہے، اگر کسی کو میرا مذاق پسند نہیں تو یہ اس کا مسئلہ ہے: نعمان اعجاز۔

ہمارے یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تنازعات بنا دیے جاتے ہیں کیونکہ اس سے کچھ لوگوں کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں: نعمان اعجاز۔

نعمان اعجاز کو پاکستان کی شوبز صنعت میں آئے 35 سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ اس دوران انہوں نے متعدد یادگار ڈراموں میں کئی لازوال کردار نبھائے۔

پی ٹی وی کے ایک چینل سے درجنوں نجی ٹی وی چینلوں کے ڈراموں تک کا سفر انہوں نے بہت کامیابی سے طے کیا۔ حال ہی میں ان کے دو ڈراموں پر بہت زیادہ اعتراضات کیے گئے، جن میں جنسی ہراسانی کا غلط الزام سہنے والے پروفیسر پر بننے والا ڈرامہ ’ڈنک‘ اور ’رقیب سے‘، جس میں ایک شادی شدہ شخص کے گھر اس کی سابقہ محبوبہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے آ جاتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے کراچی میں نعمان سے خصوصی ملاقات میں ان سے پوچھا کہ وہ یکایک تنازعات میں کیوں گھر گئے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تنازعات بنا دیے جاتے ہیں کیونکہ اس سے لوگوں کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ ’یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بات کس تناظراور ماحول میں کی گئی بلکہ بات پکڑ لی جاتی ہے، تاہم تاویلات دینا میری عادت نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ تنازعات سے نہیں بلکہ غلط بات سے دور رہتے ہیں، اگرچہ دوسرے الفاظ میں تنازعے کو اگر غلط مان لیا جائے تو وہ واقعی دور ہی رہتے ہیں۔

ڈرامہ سیریل ’ڈنک‘ میں جھوٹے الزام کا شکار ہونے والے پروفیسر کا کردار کرنے پر کچھ حلقوں نے ان پر کڑی نکتہ چینی کی، اس پر نعمان کا کہنا تھا کہ نکتہ چینی ان پر نہیں بلکہ اس کردار یا موضوع پر کرنی چاہیے تھی۔ ’تاہم یہ ایک سچا واقعہ ہے، جہاں سے اس کا مرکزی خیال مستعار لیا گیا، یہ واقعہ پنجاب میں ہوا تھا اور پروفیسر پر جھوٹا الزام لگا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ الزام لگانے والے یہ نہیں دیکھتے کہ الزام کا اثر اس شخص اور اس کے خاندان پر کیسے پڑے گا، پروفیسر کا کردار الزام نہیں سہہ سکا اور اس نے خود کُشی کرلی۔

انہوں نے کہا کہ اس ڈرامے کے ذریعے ’می ٹو‘ تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ وہ خود اس کے حق میں ہیں کیونکہ کسی مرد یا عورت کو حق نہیں کہ وہ کسی کو بھی ہراساں کرے، اس کی سزا ہونی چاہیے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کوئی اس موومنٹ کو غلط استعمال تو نہیں کررہا؟ اسی لیے کسی کو سزا دینے سے پہلے تحقیق اور تصدیق کرلی جائے تو بہتر ہے۔

’ہمارے معاشرے میں ایسا کئی بار ہوا کہ کسی تحریک کا غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، اس لیے حکومت کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ جھوٹا الزام لگانے کی بھی سزا ہونی چاہیے۔‘

اپنے کردار پروفیسر ہمایوں کے خودکشی کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ تو پھر بھی سات ہفتے بعد ہوا، لوگوں نے تو سات دنوں میں خودکشی کرلی، البتہ اب ان کا کردار اس ڈرامے سے ختم ہوگیا ہے، اس پر وہ اپنے مداحوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کا کام پسند کیا گیا۔

 

عفت عمر کے انٹرویو سے اٹھنے والے تنازعے پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے میں صرف اللہ اور اپنی اہلیہ کو جواب دہ ہیں اور وہ اس بارے میں کوئی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام 18 ماہ پہلے ریکارڈ ہوا تھا اور ان کی مزاح سے پُر اور کچھ طنزیہ گفتگو کی عادت ہے، اگر کسی کو ان کا مذاق پسند نہیں تو یہ اس کا مسئلہ ہے۔

ان دنوں نعمان کا ایک اور ڈرامہ ’رقیب سے‘ بھی چل رہا ہے، جس میں معروف گلوکارہ حدیقہ کیانی اداکاری کر رہی ہیں۔ نعمان نے ان کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھی گائیک ہیں، اس ڈرامے میں انہوں نے اتنی اچھی اداکاری کی کہ ان کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔

’رقیب سے‘ کی کہانی معاشرے کی روایات سے متصادم ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کی زبان تو نہیں روک سکتے البتہ کہانی آگے بڑھتی جائے گی تو لوگوں کو سمجھ میں آتا جائے گا۔

اس ڈرامے میں اپنے کردار کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ عام ڈگر سے بہت مختلف کردار ہے اور ابھی صرف ابتدا ہے، کہانی آگے بڑھے گی۔

’یہ ڈرامہ بہت ذہین افراد جیسے مصنفہ بی گُل اور ہدایت کار کاشف نثار کی پیشکش ہے اور جب اتنے باصلاحیت افراد نے یہ ڈرامہ بنایا ہے تو اس میں ضرور کچھ تو ہوگا۔‘

نعمان کو 30 سال سے زیادہ عرصے اس شعبے میں ہوگیا ہے، اتنے عرصے میں پاکستانی ڈرامے کا معیار کہاں پہنچا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ اگر اخلاقی معیار رکھا جائے تو یقیناً یہ گرا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سرکاری ٹی وی کے زمانے میں ہر صوبے سے ڈرامہ آتا تھا اس لیے وہاں کی روایت اور اس ڈرامے میں اس صوبے کے بارے میں بہت سی معلومات مل جاتی تھیں۔ ڈرامہ اس دور میں لوگوں کو معلومات فراہم کرتا تھا، اب پاکستانی ڈرامہ بہت محدود ہوگیا ہے، اب تو ایک گھر کے اندر ہی ختم ہوجاتا ہے، ڈرائنگ روم، باورچی خانے اور بیٹھک میں ڈرامہ ختم ہوجاتا ہے، اس لیے کسی حد تک ڈرامے بننے کی تعداد میں تو اضافہ ہوا ہے تاہم ہماری ترقی رک گئی ہے۔‘

اپنے بیٹے زاویار کے اداکاری شروع کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کبھی اس کام میں نہیں آنے دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے انہیں اپنی تعلیم مکمل کرنی چاہیے

’جب انہوں (زاویار) نے مجھ سے اس کا اظہار کیا تو میں نے انہیں وزن کم کرنے کا مشورہ دیا، جس کے بعد انہوں نے چھ ماہ کے دوران 22 کلو وزن کم کیا۔

’انہوں نے تھیٹر کی تربیت کینیڈا سے حاصل کی ہے، تو میں نے کہہ رکھا ہے کہ آڈیشن لیا جائے اور اگر وہ ٹھیک ہو تو پھر دیکھا جائے۔‘

پاکستان میں سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی نکتہ چینی پر نعمان اعجاز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حقیقی معنوں میں بلاگرز نہ ہونے کے برابر ہیں، باقی تو فصلی ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر اس کام میں گھسے ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی