’حادثے نے میری درجنوں ہڈیاں توڑ دیں، مگر زندگی آج بھی پیاری ہے‘

2011 میں جم مور کی سائیکل ٹرک سے ٹکرا کر اس کے ٹا‏ئروں میں پھنس گئی تھی۔ ایک عشرہ گزرنے کے بعد بھی ان کے ذہن میں اس خوف ناک دن کی یادیں حیران کن حد تک واضح ہیں۔

10 سال بعد مجھے ایک چیز کا احساس ہے: زندگی قیمتی ہے: مور (Susannah Ireland/The Independent)

یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم ٹی وی شو دا سوپرینوز باکس کے چھٹے سیزن تک پہنچے اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ٹائم مشین کے ذریعے گذشتہ سال میں جا پہنچا جو میرے لیے کوویڈ کی وجہ سے پہلے باعث خوف اور باقی 2020 کا سال مزے دار چھٹیاں مناتے گزرا۔

قسط کا آغاز نیو جرسی کے غنڈوں کے سردار اور ٹی وی پر جیمز جیمز گینڈولفینی کے امر کردہ کردار ٹونی سے ہوتا ہے جسے ان کے چچا نے پانچویں سیزن کے آخر میں گولی مار دی تھی اور اب وہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔

وہ آئی سی یو میں ایک وینٹی لیٹر پر لیٹے نلکیوں کے گھیرے میں ہیں بالکل جیسے ایک دفعہ میں رائل لندن ہسپتال میں تھا۔ میرے ساتھ انکل جونیئر کی گولی کے بجائے سیمنٹ سے لدے ایک ٹرک کا حادثہ پیش آیا تھا۔ ٹرک میری سائیکل سے ٹکرایا اور جب رکا میں اس کے ٹائروں میں پھنسا ہوا تھا۔

یہ لندن ایئر ایمبولینس کی فوری طبی امداد اور ہسپتال میں جرات مندانہ آپریشنوں کی مہربانی ہے جو 10 سال بعد بھی میں ابھی تک زندہ ہوں۔ ہیلی کاپٹر میں مجھے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ انہوں نے جتنے زخمیوں کا علاج کیا ان میں بد ترین مریض میں ہی تھا جو بچ گیا۔

میری بیوی نے مجھ سے پوچھا ’کیا تم واقعی یہ دیکھنا چاہتے ہو؟‘ جبکہ اس کے چہرے کے تاثر سے واضح تھا کہ وہ کہہ رہی ہو ’تمہیں ہرگز نہیں دیکھنا چاہیے۔‘ ابھی تک محسوس ہوتے جسمانی مسائل کے ساتھ گہرے نفسیاتی صدمے سے نبٹنے میں میری مدد کرنے کے بعد اب وہ اکثر اوقات مجھ سے بہتر خطرات کو بھانپ لیتی ہیں۔

میں نے جواب دیا، ’مجھے یقین ہے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ میں نے نفسیاتی معالج کے ساتھ 50 سے زائد (میرا خیال ہے) نشستیں کی ہیں۔ میں کوئی بچہ تھوڑی ہوں۔ میں اس کا سامنا کر سکتا ہوں۔‘ مجھے ان کی بات مان لینی چاہیے تھی۔ چند منٹوں بعد میری آدھی توجہ دیکھنے اور آدھی آئی پیڈ پر کھیلنے میں صرف ہو رہی تھی۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ میری سانس رک رک کر چلنے لگی۔

ٹونی کی ہذیانی کیفیت والا کہانی کا حصہ میں با آسانی دیکھ سکتا تھا۔ ’دا سوپرینوز‘ میرے حساب سے بہت شاندار ہے لیکن مجھے تنقیدی نگاہ سے یہ دیکھنا تھا کہ آپریشن کے بعد ذہنی خلفشار کی یہ کتنی درست عکاسی کرتا ہے۔ میری مراد بیماری میں نشہ آور ادویات کی پیدا کردہ غیر حقیقی خواب آور کیفیت سے ہے جو کومے کے دوران انسان تجربہ کرتا ہے۔

یہ خواب بہت واضح ہوتے ہیں۔ حافظے میں دبے حقیقی زندگی کے واقعات اور موت سے لڑتے ہوئے تحت الشعور کی پیدا کردہ یادداشت کے درمیان امتیاز کرنے میں مجھے کئی سال لگے۔

بعض اوقات مجھے مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا جب وہ غیر حقیقی ثابت ہوتے۔ ایک سابق کولیگ کا ایک سابق رشتے دار کی پیچھ پر لات رسید کرنے کی یاد کا نقش اتنا پرلطف تھا کہ میں اسے اپنی یادداشت کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ یادیں اتنی ہی تلخ یا عجیب الخلقت بھی ہو سکتی تھیں، جیسے ڈرامے میں ٹونی کی غلط شناخت والا واقعہ اور لاس ویگس کے ہوٹل میں دشمنوں سے مڈبھیڑ جیسے واقعے اس کے لیے تھے۔

زندگی اور موت کی کشمکش سے گزرتے کردار اور اس کے گرد غم سے نڈھال خاندان کو دیکھنا میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ محض ضدی پن نے مجھے مجبور کیا کہ اسے پورا دیکھ کے چھوڑوں۔ لیکن ہمارے درمیان اتفاق ہو گیا کہ میں بعد والی قسطوں میں ایسے مقامات نہیں دیکھوں گا۔ میری بیوی دیکھتی اور مجھے کہانی کا خلاصہ سنا دیتی اور میں اگلی قسط دیکھنے سے پہلے اس میں وکی پیڈیا سے اضافہ کر لیتا۔

یقینی طور پر مجھے ماہر نفسیاتی معالج کے ساتھ مزید نشستوں کی ضرورت ہے۔ یقیناً موت کے منہ سے بچنے کا تجربہ کسی بھی درست یا غلط قدم کے نتیجے میں ایسی شدت سے لوٹ آتا ہے جیسے کل کی بات ہو اور لگتا ہے یہ ایسے ہی رہے گا۔ اس خوفناک دن کی یاد آج بھی حیران کن حد تک حقیقی محسوس ہوتی ہیں۔ ایک عشرے کی طویل مدت بھی وہ نقش مدھم نہ کر سکی۔

سچی بات یہ ہے کہ ہذیانی کیفیت کی پیدا کردہ یادداشتوں کے برعکس اصلی یادیں تمام کی تمام خوفناک نہیں ہیں۔ ایک خوشگوار یاد جس کا مجھے خیال ہی نہ تھا وہ آئی سی یو کے دوران وِپس کراس ہسپتال سے ملنی والی صحت مند بچی کے باپ بننے کی اطلاع تھی جو اب 10 سالہ زندہ دلی بٹیا اور میری زندگی کا چراغ ہے۔ لیکن زیادہ تر وہ ناگوار یادیں ہیں۔

 حادثے کو ایک دہائی گزرنے کے بعد ایسا لگتا ہے دا انڈپینڈنٹ کے لیے موت کے منہ سے بچنے کے بعد اس تجربے پر مشتمل پہلی تحریر کے بعد سے میرا کام برابر ٹھیک چلا آ رہا ہے ۔ جیسے آج بہت ساری دنیا گھروں سے کام کر رہی ہے ویسے ہی میں حادثے کے بعد آمد و رفت کے مسائل کی وجہ سے پہلے ہی گھر سے کام کر رہا ہوں۔ خوش قسمتی سے کہ مجھے ایک ایسے ملازم کی خدمات حاصل ہیں جو میری ملازمت کے لیے درکار ضروری بندوبست کرنے کے لیے مستعد رہتا ہے۔

ٹرک سے ٹکراؤ کے بعد مجھے درج ذیل چوٹیں لگیں: پھیپھڑے میں سوراخ، کولہے کی ہڈی کا دو ٹکڑوں میں بٹ کر خون میں لت پت ہو جانا، بائیں بازو کی ہڈیوں کا ٹوٹنا، کئی پسلیوں کی توڑ پھوڑ، بائیں بازو میں توڑ پھوڑ جو اب دائیں بازو سے کئی انچ چھوٹا ہے، ہنسلی کی ہڈی ٹوٹنا، دائیں پاؤں کا پنجہ ٹوٹنا، دماغی چوٹ اور کمر کی چند ہڈیوں کا ٹوٹنا۔ میری ریڑھ کی ہڈی محفوظ رہی (واہ) لیکن سائیٹک اعصاب کٹ گئے (آہ)۔ دوسرے مسئلے سے نجات ممکن ہوتی ہے۔ لیکن میں ٹھیک نہ ہو سکا۔ چہرے سے جلد کی زیادہ تر مقدار کُھرچی گئی تھی۔ کسی وجہ سے نئی جلد نہیں آئی اور گرمیوں تک میرا چہرہ دو رنگوں والا ہو گیا۔

یہ سب کچھ لکھنا اس لیے بھی برمحل لگا کیونکہ مجھے 2020 میں براہ راست کوویڈ 19 سے گزرنے کا تجربہ ہوا۔ اس سے میں اچھا خاصا بیمار ہو گیا اور یہ حادثے کے بعد بدترین مصیبت تھی لیکن یہ ٹرک کی طرح مجھے زیادہ قریب سے چھو کر نہیں گزرا جب گویا میری کہانی کا اختتام بس ہونے ہی والا تھا۔

ایک لاکھ سے زائد برطانوی شہری اس بلا کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے لیکن میری نظر سے ایسے افراد کے اعداد و شمار نہیں گزرے جن کے جسم کرونا سے متاثر ہونے کی وجہ سے اب ویسے کام نہیں کرتے جیسے پہلے کرتے تھے۔ امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق دل کے پٹھوں کی سوزش جیسی قلبی بیماریاں، سانس کے مسائل، گردوں کی شدید تکلیف، سر درد، پٹھوں کی تکلیف، ڈیپریشن اور تھکاوٹ جیسی طویل مدتی بیماریاں شامل ہیں۔

یہ ساری چیزیں اچھی خاصی معذوری کا سبب بن سکتی ہیں۔

ایسے جسم کا عادی ہونا جو پہلے کی طرح کام نہیں کرتا بہت ہی مشکل مرحلہ ہے، اور یہی حال فزیوتھراپی کا ہے۔ لیکن اس سے بھی بدتر خود کو ایسے معاشرے کا عادی بنانا ہے جو آپ کے لیے اس طرح سے کام نہیں کرتا جس طرح وہ دوسروں کے لیے کرتا ہے، اور آپ کو زیادہ سے زیادہ ایک الجھن اور کم سے کم آپ کو انسانی سطح سے نیچے اور دوسرے درجے کا شہری سمجھتا ہے۔

مستقل درد کی شدت کم کرنے کے لیے میں ادویات کا استعمال کرتا ہوں۔

میرے پاس ادویات ہوتی ہیں جو زندگی بھر ساتھ رہنے والے مسلسل درد کی شدت کم کر دیتی ہیں۔ اپنے دائیں پاؤں میں موجود مرچ کا عرق نئے سرے سے بھروانے کے لیے ہر چند مہینوں بعد میں رائل نیشنل آرتھوپیڈیکل ہسپتال جاتا ہوں۔ یہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے نیوروپیتھک درد بھی ایسا ہی تکلیف دہ ہے گویا دس ہزار شرارتی بچے بورس جونسن یا ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں مجھے گرم سوئیاں چبھو رہے ہوں۔

مرچوں کے علاج سے تکلیف کا خاتمہ نہیں ہوتا لیکن یہ ہے کہ میں ایک دو گھنٹے کے لیے جرابیں برداشت کرنے کے قابل ہو جاتا ہوں۔ لیکن ان میں سے کسی چیز سے دفتر شاہی کے عملے کو رتی برابر فرق نہیں پڑتا اور گھر سے نکلنے کے لیے درکار منصوبہ بندی اور نیلے کارڈ کے فارم بھرنے کے لوازمات میری ناختم ہونے والی تکالیف اور عدم تحفظ میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

یہ خیال مسلسل مجھے کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ میں گھوم پھر کے لکھتا اور رپوٹنگ کیا کرتا تھا لیکن اب گھر کے دروازے تک محدود ہو کے رہ گیا۔ اگر آپ معذور اور اپنی صلاحیتوں کے بارے میں عدم اعتماد کا شکار ہیں تو بحران مزید شدت سے حاوی ہونے لگتا ہے۔ میں مسلسل خوف کی فضا میں سانس لیتا ہوں، ایک احساس کہ کل صبح اٹھ کر دیکھوں گا کہ نیٹ فلکس کے ڈسٹوپیئن ٹی وی شو کا شکار میں ہوں گا۔

ایک لمحے کے لیے رک کر سوچیے کیا ہم پہلے ہی اس مرحلے میں نہیں ہیں۔

بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اسی کشتی کے مسافر ہیں بس انہیں اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں ڈس ایبلٹی رائٹس جیسی خیراتی سکیم بہت برے اثرات کی حامل ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں کو علاج تک رسائی دینی چاہیے۔ میرا خیال ہے نیشنل ہیلتھ سروس کو حالیہ دنوں میں جیسے مسائل کا سامنا ہے اس کے پیش نظر یہ ایک مشکل امر ہے۔ اس حساب سے میں خوش قسمت تھا۔ تب صورت حال کئی درجے بہتر تھی۔ تب اسے ایک عشرے کے مالی مسائل کا سامنا نہیں تھا۔

حادثے کے بعد زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ مجھے کیون او سلیون جیسے اچھے وکیل ملے جن کی فرم ’لیگل سائیکل‘ میرے جیسے کیسوں میں خصوصی تحقیق چھان پھٹک کرتی ہے۔ اس نے میری بہت مدد کی۔ بحالی پروگرام کے تحت مجھے ایک عمدہ ویل چئیر، کٹے پھٹے جسم کے لیے مناسب کرسی جیسی دفتری اشیا اور نفسیاتی معالج بہت آسانی سے مہیا کر دئیے گئے تھے۔

قانونی جنگ نے لامحالہ میری صورت حال کو مزید بدتر کر دیا تھا۔ یہ طویل اور پُرمشقت مرحلہ تھا جس نے ایک بار تو انشورنس انڈسٹری کے خلاف میرے تعصبات کو پھر سے پختہ کر دیا ۔ لیکن آخر کار جوا کھیلنے کے تجربے نے میری بہت مدد کی۔

ہم نے تصفیے کے لیے براہ راست بات چیت نہیں کی۔ مذاکرات انشورنس قانون کے ماہر کے دفتر میں ہوئے۔ ہمارے مخالفین ایک کمرے میں جبکہ ہم دوسرے میں تھے۔ ہمارے معزز وکلا نے اس وقت تک پیغام رسانی کا کام جاری رکھا جب تک دونوں گروہوں کا اتفاق نہ ہو گیا۔

مناسب رقم کے بغیر معاہدہ طے کرنے پر میں کسی طرح راضی نہ تھا اور بات چیت کے دوران پراعتماد رہا کہ دوسری صورت میں عدالت بھی جانا پڑا تو گریز نہیں کروں گا۔ اکثر لوگ ایسا ہی کرتے ہیں کیونکہ ایسے کیسوں کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ آخر کار معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ گیا۔ دوسرے فریق کے نمائندوں نے بھی مجھے مبارک باد دی۔ سچی بات ہے اس وقت میں تھا بھی ہواؤں میں۔

اب بات کرتے ہیں کہ میں کن نتائج پر پہنچا: حادثے میں زخمی ہونے والے افراد باقاعدہ معاوضے کے حقدار ہوتے ہیں۔ ان کے وکلا محض پیسے کی خاطر ہی سب کچھ نہیں کر رہے ہوتے۔ سسٹم کو لوگوں کے لیے سادہ روی اور مشکلات سے نکلنے کے لیے آسان روش اختیار کرنی چاہیے۔

برطانیہ کے متعلق مشہور ہے کہ معاوضے کا کلچر یہاں کسی وبا کی صورت عام ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اپنے حق کے لیے محدود وسائل کے ساتھ لوگوں کو بڑی بڑی تنظیموں کے خلاف طویل لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ اس جد و جہد کو جاری رکھنے کے لیے انہیں توانا عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن ایسا ہے کیونکہ حکومت انشورنس کمپنیوں اور ان کے پراپگنڈے پر بہت دھیان دیتی ہے اور میڈیا کا بھی یہی حال ہے۔

گذشتہ دنوں ایک دفتری ساتھی نے پوچھا کہ میں ان کے کسی دوست سے اگر اس تمام طویل مرحلے کے متعلق کچھ بات کر سکوں۔ ان کے والد کو بھی ایسا ہی بھیانک حادثہ پیش آیا تھا اگرچہ ان کو لگنے والی چوٹیں مختلف نوعیت کی تھیں (بر سبیل تذکرہ، ایک برے ڈرائیور کی گاڑی سے ٹکر کے بعد ایک سائیکل سوار پر کے جسم پر مرتب ہونے والے اثرات جاننا میرے لیے مایوس کن انوکھا تجربہ تھا)۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اب کیا کریں۔

اس بات کے جواب نے دلچسپ مشکل سے دوچار کر دیا۔ سب سے پہلے انہیں میں نے کہا کہ ایک مختصر لیکن اہم چیز یاد رکھیے کہ یہ محض ان کی ذات تک محدود نہیں ہے۔ اس میں ان کے چاہنے والوں کی بھاری رقم کا بھی عمل دخل ہے کہ وہ فوراً خرچ کرنے کے لیے تیار بھی ہیں کہ نہیں۔ یہ محض ایک فرد کا معاملہ نہیں رہا۔

مختلف صدموں سے گزرنے والے افراد کے درمیان نیند اور طبیعت کی خرابی طویل عرصے تک رہنا ایک معمول ہے۔ حادثاتی صدمے سے دوچار ہونے کے نتیجے میں کچھ اور مسائل بھی طویل مدت تک پیش آتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد نفسیاتی صدمے کا مرحلہ اور نئی حقیقت سے ہم آہنگ ہونے کا دورانیہ ہے جس میں کھوئے ہوئے اعضا کے بغیر جینے کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔

اس بات کا ادراک کہ جیسے پہلے میں زندگی گزار رہا تھا اب ویسے ممکن نہیں ایک بہت تکلیف دہ چیز ہے۔ بالکل اسی طرح دوستوں اور فیملی کا حد سے زیادہ خیال رکھنا غصے کا باعث بنتا ہے اگرچہ ان کی نیت اچھی ہوتی ہے۔

میری بیوی اور میرے درمیان ایک خوشگوار ہم آہنگی قائم ہونے میں وقت لگا۔ میرے لیے یہ کہ بعض اوقات مجھے مدد کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے کہ یہ کہ مجھے اس کا کتنا تعاون چاہیے۔ یہاں تک کہ اب بھی مجھ سے غلط سرزد ہو جاتی ہے جیسے ابھی گذشتہ دنوں میں ایسی ہی غلطی کی وجہ سے گرا اور مزید ایک ہڈی تڑوا بیٹھا (اس بار بائیں پاؤں کی)۔

جب آپ زندگی کو یکسر تبدیل کرنے والے حادثے کا شکار ہو چکے ہوں تو مایوسی اکثر و بیشتر آپ کی سانس میں شامل ہوتی ہے۔ غصہ آپ کے اندر شور مچاتا رہتا ہے۔ یہ سن کر مجھ پر سراسیمگی چھا گئی کہ میری بچی کے سکول کا عملہ مجھ سے کتراتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں تلخ زبان یا سخت تھا جیسے کچھ والدین ہوتے ہیں (میں نے خود کو پرکھ کر دیکھا) ۔ تو کیا میں خوفناک، تنک مزاج اور چڑچڑا ہوں؟

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میری بیوی نے مجھے بکھرنے سے بچایا۔ ایسا لگتا ہے وہ میری نسبت اصل وجوہات سے زیادہ بہتر آگاہ تھیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میرا رویہ جارحانہ نہیں تھا اور نہ میں نے اس کو کبھی پریشان کیا۔ اس کے برعکس ایسا لگتا ہے میرے دفاعی رویے نے مجھے لوگوں کی نظروں میں نمایاں کیا۔

جب آپ کثرت سے ’نہیں،‘ ’یہ مطلوبہ کام کیسے کر سکتا ہے‘ اور ’اسے دیکھو اور اس کی ذمہ داری دیکھو‘ جیسی باتیں سنتے ہیں تو حد درجہ حساس ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف دفتری عملے سے سننے کو نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ جب میں پارک میں ویل چئیر دھکیلتے ہوئے جاتا ہوں تو مجھے لوگوں کی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں، ’آپ کے ساتھ ایک گھنٹی لگی ہونی چاہیے‘ یا ’اس کی بریکیں بھی ہیں یا نہیں؟‘ بعض اوقات انہیں درمیانی انگلی کھڑی کر کے جواب دیتا ہوں۔ بالکل یہ ایک بچگانہ حرکت ہے۔ میں جانتا ہوں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس سے میری طبیعت خوشگوار ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بد قسمتی سے دفتروں میں ایسا ردعمل دینا ممکن نہیں۔ آپ کو پرسکون رہتے ہوئے پختہ عزم کا اظہار کرنا سیکھنا ہو گا، جواب میں انکار سن کر ڈٹے رہنے کی صلاحیت، جب تک جواب نہ ملے تب تک دروازے پہ لگی گھنٹی بجاتے رہنے کی پرزور خواہش اور کبھی کبھار اگر آپ کے سامنے وہ دروازہ بند بھی کر دیں تو اس کے بعد بھی یہ عمل جاری رکھنے کا حوصلہ۔ جب غصہ برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہو تب بھی پوری طرح اس پہ قابو رکھو۔ بالآخر انہیں آپ کا کام کرنا ہی پڑے گا، آپ سے جان چھڑانے کے لیے انہیں وہ کام کرنا ہی پڑے جس کے لیے وہ بیٹھے ہیں۔

آپ کو کچھ ایسے معاونین درکار ہوں گے جو آپ کا بوجھ بانٹ سکیں۔ کامیابی کا بس یہی راستہ ہے۔ آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔

بطور خاندان اب ہمیں اپنے آٹزم کے مریض میں مبتلا بیٹے کے لیے ایجوکیشن ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر پلان حاصل کرنے کے لیے ریڈ بریج کونسل کا مقابلہ درپیش ہے جو انکار کرنے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں پر عزم نظر آتی ہے۔ انکار، انکار، انکار۔ ہم بھی ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنا جانتا ہیں۔ کونسل کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم بھی آسانی سے ٹلنے والے نہیں۔ ہم اس کھیل کی باریکیوں سے خوب واقف ہیں۔

ہم ایسے عہد میں زندہ ہیں جہاں شرم نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ لیکن میں نے گذشتہ دس سال میں جانا کہ برطانوی حکومت کا دعوی کہ ’ہم معذوروں کے حقوق کے لحاظ سے دنیا کا چوٹی کا ملک‘ ہیں اس سے زیادہ بے شرمی اور بے حیائی کی کوئی دوسری بات نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ اس کا ریکارڈ بہت ناقص ہے۔

تاہم اس ناقص ریکارڈ کے پیچھے ناقص لوگوں کو دیکھ کر، پریشان کن خوابوں اور تکلیف کے باوجود میں دس سال میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زندگی بہت انمول شے ہے۔ اکثر اوقات اس کا ذائقہ اتنا میٹھا ہوتا ہے کہ ساری تلخی غائب ہو جاتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت