فوجی خواتین آج بھی جنسی ہراسانی کی شکار ہیں

خواتین سپاہیوں کو اپنے ہی ساتھیوں سے جن خطرات کا سامنا ہوتا ہے اس کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

فوجی خواتین کے بارے میں تفتیش کی سربراہ ایک رکن اسمبلی نے کہا ہے کہ انہوں نے چند ’ہولناک کہانیاں‘ سنی ہیں (پکسا بے)

سابقہ فوجی خواتین اور اراکینِ اسمبلی بتاتی ہیں کہ جنسی ہراسانی اور جنسی تعصب کے مسائل آج بھی قائم و دائم ہیں۔

مسلح افواج میں ملازمت کے دوران خطرے سے جان بچانا معمول کی بات ہے، تاہم خواتین سپاہیوں کو اپنے ہی ساتھیوں سے جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

لیفٹیننٹ کرنل ڈائے این ایلن کہتی ہیں کمرے تک پیچھا کرنے والے ساتھی کو مکے جڑنے سے لے کر آدھی رات کو دروازے پر سپاہیوں کی دستک سمیت وہ کئی بار ایسے حملوں سے بمشکل بچ سکیں۔

مبینہ امتیازی سلوک کے سبب مستعفی ہونے والی لیفٹیننٹ کرنل ایلن ذہن پر زور دیتے ہوئے ماضی کے واقعات یاد کرتی ہیں کہ کیسے 21 سال کی عمر میں جب ان کی تعیناتی ہوئی تو بار سے نکلتے ہوئے ایک سینئر مرد آفیسر نے مبینہ طور پر ان کا تعاقب کیا۔

تین دہائی پر پھیلی اپنی طویل مدت ملازمت کا بیشتر حصہ انٹیلی جنس کے شعبے میں گزارنے والی سابقہ آفیسر انڈپنڈنٹ کو بتاتی ہیں کہ ’وہ بار میں نہایت مستقل مزاجی سے آتا۔ میں نے اس سے معذرت چاہی۔ لیکن اس نے تعاقب جاری رکھا۔ اس نے مجھے اپنے کمرے میں داخل ہونے سے جسمانی طور پر روکنے کی کوشش کی۔

’میں کراٹے سیکھی ہوئی تھی۔ میں نے زور دار مکے سے اسے زمین پر گرا دیا اور اس سے پہلے کہ وہ اٹھتا کمرے میں داخل ہو کر اندر سے کنڈی لگا دی۔ وہ غائب ہو گیا۔ میں نے کبھی اس کی رپٹ کبھی نہیں درج کروائی۔‘

محض 18 برس کی عمر میں برطانوی ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ سے تربیت حاصل کرنے والی اور تاریخ کی ایسی چند اولین خواتین میں سے ایک لیفٹیننٹ کرنل ایلن کہتی ہیں کہ ریپ اور جنسی حملوں کے الزامات پر مسلح افواج کے اندرونی طور پر خود ہی تحقیق کر سکنے کے امر نے ’چپ سادھنے کا کلچر‘ پروان چڑھایا ہے جو متاثرین اور گواہوں کو بولنے سے روکتا ہے۔

 اپنی عسکری زندگی کے متعلق پیشگی آگاہی (Forewarned ) کے نام سے کتاب لکھنے والی سابقہ آفیسر کہتی ہیں جب 1980 کی دہائی میں انہوں نے عسکری ملازمت شروع کی تب فوج میں جنسی تعصب کسی ’بیماری کی طرح‘ پھیلا ہوا تھا۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’آہستہ آہستہ 1990 کی دہائی میں یہ مزید پیچیدہ قسم کے جنسی تعصب میں ڈھل گیا۔ میرا نہیں خیال کہ صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔

یہ ابھی تک 1990کی دہائی والی سطح پر کھڑی ہے۔ واقعی اس میں تب سے لے کر اب تک کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ لوگ اس کے خلاف ہیں اور یہ ملازمت کے قانون کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود یہ گھٹیا رویہ روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔‘

لگ بھگ 25  برس کی عمر میں مردوں کے پیادہ فوجی یونٹ میں سکائی انسٹرکٹر کے طور پر کام کرنے کے وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے تجربات پر بھی بات کرتی ہیں۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’وہ سارا دن میرے لیے مختلف مقامات کی پیشکش کرتے رہتے۔ جب مجھے بار جانے کی دعوت دیتے تو میں نظر انداز کر دیتی۔ پورا ہفتہ شام کے وقت میں اپنی کمرے سے باہر نہیں نکلی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر میں بار جاتی تو اپنے لیے دشواریاں پیدا کرتی۔

آخری رات میں نے کمرہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھے شور کی آواز سے اٹھنا پڑا۔ ایک شیشے کے دروازے سے میں نے دیکھا کہ وہ میرے کمرے کے دروازے پر ٹھوکریں مار رہے تھے کہ میں باہر نکلوں لیکن خطرے کو بھانپتے ہوئے میں نے پہلے ہی کمرہ بدل لیا تھا۔‘

ملٹری می ٹو موومنٹ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل ایلن کہتی ہیں فوج معاشرے میں ایک ’کائناتِ صغری‘ کی طرح ہے جس کے اندر تہہ در تہہ بہت سی اہم پرتیں ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں، ’مردوں سے بھری بری فوج پر کمزور قیادت تباہ کن ہو سکتی ہے۔ مسلح افواج کے باقی شعبے ہرگز ایسے نہیں۔‘

لیفٹیننٹ کرنل ایلن کے بقول محض آٹھ سے دس فیصد کی شرح کے ساتھ خواتین فوج میں ابھی تک اقلیتی گروہ ہیں اور وہ بری، بحری اور فضائیہ کی سینیئر قیادت کو خبردار کرتی ہیں کہ یہ محض کہنے کی حد تک ہے کہ ’وہ مسائل کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں‘ کیونکہ ’ان کے اقدامات اس کی عکاسی نہیں کرتے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’کئی خواتین میری پاس آئی ہیں جنہیں جنسی ہراسانی، جنسی تعصب، جنسی حملوں اور صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ کئی قسم کی ہیں۔ ریپ، منشیات کے استعمال اور ریپ کے کئی طرح کے واقعات ہیں۔‘

ان کے خیالات کی بازگشت اراکینِ اسمبلی کی باتوں میں سنائی دیتی ہے جو ریپ اور جنسی ہراسانی کے واقعات میں ’سزا کی شرمناک حد تک کم شرح‘ سے خبردار کرتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ کو چند سینیئر افراد نے بتایا ہے کہ جنسی تعصب اور جنسی ہراسانی پر قابو پانے کے لیے مسلح افواج میں پیش رفت نہایت سست روی کا شکار ہے اور خواتین کو اکثر فوج میں ’جنسی تعصب کی ثقافت‘ اور ’مردانہ طاقت کے اظہار کے رویے‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کراؤن پراسیکیوشن سروس کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2019-2020 کے دوران عام سول عدالتوں میں دائر ہونے والے ریپ کیسوں میں 68 فیصد کا انجام سزا کی صورت میں ہوا جبکہ 2019 کے دوران فوجی عدالتوں میں چلنے والے ریپ کیسز میں سزا کی شرح محض 20 فیصد رہی۔

حکومتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2019 میں فوجی عدالتوں میں سنے گئے جنسی حملوں کے 57 کیسوں میں سے محض 17 میں سزا سنائی گئی اور ریپ کے ٹوٹل 15 کیسوں میں سے محض تین کا نتیجہ سزا کی صورت میں نکلا۔

’اینڈ وائلنس اگینسٹ ویمن کولیشن‘ کی سربراہ اینڈریا سائمن کہتی ہیں، ’دراصل واقعات کی بڑی تعداد عدالت تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ریپ کو موثر طریقے سے جائز بنانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

’جرائم پر انصاف فراہم کرنے کا نظام بحران کا شکار ہے اور یہ ہوش ربا اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں کیسوں پر پیش رفت اور بھی سست روی کا شکار ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے وزارت دفاع کو باقی حکومتی شعبوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔‘

مسلح افواج میں خواتین: بھرتی سے عام زندگی تک کے نام سے حکومتی تحقیق کی سربراہ سارہ ایتھرٹن انڈپینڈنٹ کو بتاتی ہیں کہ انہوں نے حاضر سروس اور سابقہ خواتین سپاہیوں سے گذشتہ سال کچھ ’دل دہلا دینی والے واقعات‘ سنے ہیں۔

برطانوی علاقے ریکسم سے کنزرویٹو پارٹی کی رکن اسمبلی، جو باقاعدہ فوجی پس منظر رکھنے والی پہلی خاتون رکن اسمبلی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے غنڈہ گردی، صنفی امتیاز، ہراسانی اور ریپ کے واقعات سنے ہیں۔ ہماری ذیلی کمیٹی کی نظر بھرتی سے ملازمت اور عام شہری زندگی کی جانب پلٹنے تک کے عسکری تجربات کے تمام پہلوؤں پر ہے اور ہمارے جائزے میں 4,106 سابقہ و موجودہ خواتین شریک تھیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ملازمت کے متعلق ہمارے اندراج شکایات کے نظام میں خواتین کو زیادہ مواقع دیے گئے ہیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ خواتین کے لیے فوج میں حصول انصاف کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں اور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس تحقیق میں پہلی بار خواتین کے ’فوجی تجربے کا گہرائی میں جا کر جائزہ‘ لیا گیا ہے۔

حکومتی دفاعی کمیٹی میں شامل مسز ایتھرٹن کہتی ہیں یہ طویل عرصے سے واجب الادا مکالمہ ہے۔ فوج میں مردانہ طاقت دکھانے کی ثقافت کا خاتمہ، موجودہ چیف آف ڈیفنس سٹاف کے الفاظ، کسی جماعت کی حکمت عملی سے ماورا اور گذشتہ کئی نسلوں تک پھیلا ہوا ہے۔

’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مسلح افواج میں عورتوں کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ بالخصوص جب میں فوج میں تھی اس کی نسبت اب ماحول کہیں زیادہ بہتر ہوا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت کچھ کرنے کو ابھی باقی ہے۔‘

اگرچہ حاضر سروس ملازمین کے لیے میڈیا کے افراد یا ممبران اسمبلی سے بات چیت ممنوع ہے لیکن ان کی تحقیق کے دوران ایسی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔

حزب اختلاف کی نمائندگی کرنے والی مسلح افراد کے وزیر سٹیون مورگن کہتے ہیں یہ ’افسوسناک حقیقت‘ ہے کہ ملازمت کے دوران خواتین کو بہت سی ’سنگین مشکلات‘ سے نبٹنا پڑتا ہے۔

پورٹسمتھ سے لیبر پارٹی کے رکن اسمبلی مزید کہتے ہیں ’ملازمت میں خواتین بہت کم ہونے کے باوجود ملازمت کے متعلق شکایات میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جس کے بعد انہیں ریپ اور جنسی ہراسانی کے کیسوں میں شرمناک حد تک کم سزاؤں کے سخت مرحلے سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔

’یہ محض ملازمت پیشہ افراد سے متوقع شان کے خلاف ہی نہیں بلکہ یہ بھرتی اور ملازمت کے لیے بھی خطرے کا باعث ہے کیونکہ اس وجہ سے کام کاج کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں لیبر پارٹی مسلح افواج بل کے ذریعے اس مسئلے کے حل کی کوشش کرے گی تاکہ افواج کو زیادہ سے زیادہ ’منفرد اور قابل اعتماد‘ بنایا جا سکے۔

22 برس تک مسلح افواج کا حصہ رہنے کے بعد نومبر 2019 میں کنارہ کشی اختیار کر لینے والی سیلی اورنج کہتی ہیں سماجی تقریبات میں شراب کے ساتھ انہیں ’تھوڑی بہت چھیڑ خوانی‘ بھی برداشت کرنا پڑتی تھی۔

فوج میں ماہرِ نفسیات کے طور پر کام کرنے والی 46 سالہ اورنج کہتی ہیں کہ جنسی تعصب اس لیے پروان چڑھا کیونکہ پہلے تربیتی مشقیں ایک ہی جنس پر مشتمل گرہوں اور جتھوں کی صورت میں دی جاتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ اپنی بات جاری رکھتی ہیں کہ ’یہ نادانستہ طور پر عورت کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کرنے کا باعث تھا۔ مجھے خود اس سے گزرنا پڑا لیکن شاید ہی کبھی ارادتاً ایسا ہوا ہو۔ کیا مجھے اس پر حیرت ہوئی؟ بالکل بھی نہیں۔ مسلح افواج سے ہی یہ مخصوص نہیں ہے بلکہ لندن کی مرکزی مارکیٹ جیسے بہت سے دیگر کاروباری مراکز میں بھی ایسے مسائل ہیں۔‘

وزارعت دفاع کے ایک نمائندے کے بقول ہر قسم کی ہراسانی ’ناقابل برداشت‘ ہے اور وہ مسلح افواج میں ’خوشگوار اور یکساں ماحول‘ پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ’مسلح افواج بل مقدمہ چلانے والے دونوں اداروں پر ذمہ داری ڈالتا ہے کہ خطرناک جرائم کا سامنا کیسے کرنا چاہیے، وہ مل کر اس کی واضح حکمت عملی وضع کریں۔ یہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ فیصلے کیس بائی کیس کیے جائیں تاکہ ہر جرم کے لیے انصاف کا موزوں ترین راستہ اختیار کیا جائے۔

’سروس جسٹس سسٹم میں ریپ کیسز کا نسبتاً کم اندراج اور پھر ان میں سے پراسیکیوٹرز تک پہنچنے والی بڑی تعداد میں سے نسبتاً سزا پر منتہج ہونے والے تھوڑے اعداد و شمار دراصل پوری تصویر سامنے لانے کے لیے ناکافی ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین