جنرل نگار استاد کی مار سے کیسے بچ جاتی تھیں؟

ان کا فون آیا تو مجھے اپنے مخصوص نام (مانیہ) سے مخاطب کرتے ہوئے ٹیٹھ صوابی وال پشتو میں اپنا مخصوص جملہ بولا کہ ’مانیہ سہ دے کول (مانیہ کیا کر رہے ہو؟)‘ تو میں نے برجستہ کہا کہ مانیہ بچپن کی اس مار پیٹ کو یاد کر رہا ہے جو کبیر استاد کے ہاتھوں کھائی تھی۔

فروری 2017 میں  نگار جوہر کو  میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی (تصویر: ہلال فار ہر میگزین)

کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ اپنی عزیز بھانجی اور حال ہی میں جنرل کے عہدے پر پہنچنے والی پہلی خاتون جنرل نگار جوہر کی شخصیت اور ماضی کے حوالے سے بات کروں۔

ایک تو اس طرح کے معاملات میرا موضوع سخن نہیں ہوتے اور دوم یہ کہ گھر کی کسی خاتون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، مجھ جیسا دیہاتی اور قدرے پرانی وضع کا حامل آدمی (لکھاری) فطری طور پر ایک جھجک اور شرماہٹ سی محسوس کرتا ہے۔

لیکن یہ گھریلو خاتون (نگار) چونکہ اب قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی شدید محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر ایک قابل فخر شناخت اور شہرت سمیٹ چکی ہیں اور ساتھ زمانے کی تبدیلی اور ارتقائی عمل بھی ایک واضح حقیقت کی شکل میں سامنے ہے، اس لیے مجھے کسی حد تک ایک سہولت اور آسانی میسر آئی اور خود کو یہ کالم لکھنے پر آمادہ کیا۔

پاکستانی فوج نے 30 جون کو خاتون میجر جنرل نگار جوہر کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس طرح وہ پہلی خاتون افسر ہیں جنہیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والی نگار جوہر پاکستانی فوج کی پہلی خاتون سرجن جنرل ہیں۔

چونکہ میں ایک سویلین ہوں اور عسکری معاملات کو زیادہ نہیں سمجھتا، اس لیے جنرل نگار کے ذاتی حوالے تک ہی اپنی بات محدود رکھوں گا۔

یادوں کی گٹھڑی کھول کر بیٹھا تو سامنے ستر کا عشرہ ہے۔ ضلع صوابی کے سرسبز اور پرسکون گاؤں پنج پیر میں دریا کے کنارے عظیم علمی مرکز کے عقب اور پھل دار درختوں کے جھنڈ میں ایک وسیع مہمان خانے میں ہم درجن بھر بچے جن میں ہم بہن بھائی، کزنز اور بھانجے بھانجیاں افغانستان سے تعلق رکھنے والے مولانا کبیر (مرحوم) سے قرآن پاک کا درس لیتے ہیں۔ مولانا کبیر چونکہ شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیر صاحب کے پرانے اور لاڈلے شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی سخت مزاج بھی ہیں۔

اس لیے ہم سب بچے معمولی سی غلطی یا سبق یاد نہ کرنے پر بلا ناغہ زدوکوب بھی ہوتے رہتے تھے۔ صرف ایک بچی مار پیٹ سے ہمیشہ اس لیے بچ جاتی ہے کیونکہ وہ سبق بھی اچھی طرح یاد کر لیتی ہے اور ہم سب کی طرح جھوٹ اور بہانوں سے بھی کام نہیں چلاتی۔ وہ بچی آج کی جنرل نگار ہیں۔

وقت آگے بڑھتا ہے نگار کا ایف ایس سی کا نتیجہ آتا ہے تو وہ بورڈ میں پوزیشن لے لیتی ہیں۔ شیخ القرآن پنج پیر کی سب سے بڑی بیٹی اور نگار کی والدہ گاؤں آ کر اپنے والد کے سامنے سنھبل کر بیٹھ جاتی ہیں اور محتاط انداز سے بات شروع کرتی ہیں کہ نگار نے نمبر تو سب سے زیادہ لیے ہیں اور اسے میڈیکل میں داخلہ بھی مل سکتا ہے لیکن۔۔۔۔

لیکن کیا؟

روشن فکر عالم دین والد قدرے غصے کے ساتھ اپنی بیٹی کی بات کاٹ دیتے ہیں اور حسب معمول مختصر لیکن مدلل اور جامع بات کرتے ہیں کہ اگر اس نے محنت کی ہے تو مزید پڑھنا چاہیے اور یہ تم لوگوں سے کس نے کہا ہے کہ علم صرف مدرسوں میں حاصل کیا جاتا ہے؟ یہی روشن فکری ہی تو اس عالم دین کو منفرد اور اہم ترین  بنا رہی ہے۔

وقت مزید آگے بڑھتا ہے اور نگار آرمی میڈیکل کالج سے اعزازی پوزیشن کے ساتھ فارغ ہو کر کیپٹن ڈاکٹر بن جاتی ہیں۔ مہمانوں کی گیلری میں آ کر ہم سب کے گلے لگ جاتی ہیں، تو ان کے والد جذباتی ہو کر اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کے ناکام کوشش کرتے ہیں۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جنرل نگار کے والد کرنل ریٹائرڈ عبدالقادر خان انتہائی صاحب مطالعہ لکھاری تھے اور اس زمانے میں ڈان اخبار میں باقاعدہ کالم لکھا کرتے تھے۔ ان کا آخری کالم بھی ان کی موت کے دن ہی چھپا تھا جس کے ساتھ اخبار انتظامیہ نے ایک دردناک پیغام بھی لکھا تھا۔

اس کے بعد مختلف شہروں میں کیپٹن نگار کی پوسٹنگ ہوتی ہے لیکن اپنے گاؤں اور رشتوں  سے ان کا رومانس نہیں ٹوٹتا۔ جوں ہی چھٹیاں ہوتیں تو مجھے فون کر کے کہتی کہ ’مانیہ‘ (وہ مجھے بچپن سے اسی نام سے پکارتی ہے) مجھے لینے آؤ اور میں جا کر انہیں گاؤں لے آتا۔ گھر میں ہم سب ہم عمر پھل دار درختوں کے نیچے دوپہریں اور راتیں گھر کی کھلی چھت پر گپیں ہانکتے اور بزرگوں کی ڈانٹ سنتے گزارتے۔

جب چھٹی ختم ہوتی تو ہم دونوں گاؤں سے طویل فاصلہ پیدل طے کرکے کسی ہم عمر کی ویگن میں بیٹھ جاتے اور میں انہیں پہنچا کر دوسرے دن واپس آجاتا۔ وہ مجھ سے عمر میں چند سال بڑی ہیں لیکن ہم مزاج ہونے کے سبب ہم دونوں بچپن ہی سے بہت قریب رہے۔

اس دوران ان کی شادی درویش مزاج میجر جوہر سے ہوئی اور دونوں بہت اچھی زندگی گزارنے لگے لیکن اللہ تعالٰی نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔

18 ستمبر 1990 کو نگار کے والد، والدہ اور دونوں چھوٹی بہنیں ایک سڑک حادثے میں حیدرآباد کے قریب  لقمہ اجل بن گئیں۔ ابھی  پچھلے سال ان کے شوہر بھی ان کا ساتھ چھوڑ کر لحد میں اتر گئے۔ گویا کامیابیاں اور دکھ ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ چلے لیکن حیرت انگیز طور پر انہوں نے مضبوطی کے ساتھ اپنی شخصیت کو ان مسلسل دکھوں کے باوجود بھی تھامے رکھا۔

کامیابیوں کے باجود بھی رویہ ہمیشہ باوقار ہی رکھا۔ وہ نہ منتشر ہوئیں، نہ بکھریں، نہ ہی تکبر ان کے مزاج میں آیا، نہ جھوٹ اور نظرانداز کرنا انہوں نے سیکھا۔

اشتعال اور چڑچڑاپن تو دور کی بات ہے بلکہ ہمیشہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ یکسو، سٹریٹ فارورڈ، پرجوش اور مثبت مزاج ہی رہیں حتیٰ کہ اپنی حس مزاح پر بھی خراش تک نہیں آنے دی۔

کل شام ہی ان کا فون آیا تو مجھے اپنے مخصوص نام (مانیہ) سے مخاطب کرتے ہوئے ٹیٹھ صوابی وال پشتو میں اپنا مخصوص جملہ بولا کہ ’مانیہ سہ دے کول (مانیہ کیا کر رہے ہو؟)‘ تو میں نے برجستہ کہا کہ مانیہ بچپن کی اس مار پیٹ کو یاد کر رہا ہے جو کبیر استاد کے ہاتھوں کھائی تھی۔

مجھے معلوم تھا کہ اب ان کی ہنسی نہیں رکے گی کیونکہ وہ بھی میری طرح ناسٹیلجک (ماضی پرست) بہت ہیں اور پرانے واقعات کا لطف بہت لیتی ہیں۔

اس لیے تو شاہد قادر کے (نگار کے بھائی جو ماشا اللہ اس وقت ایک اہم عہدے پر ہیں) بچپن کی ناقابل فراموش بے وقوفیوں اور حماقتوں کا ذکر ہمارا مشترکہ اور پسندیدہ موضوع ہے جن پر ہمارے قہقہے نہیں رکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنرل نگار اس وقت اپنی محنت اور قابلیت کے سبب اگرچہ چھائی ہوئی ہیں لیکن بتانا ضروری ہے کہ ظاہری وضع قطع (جو ان کی ورکنگ ویمن کی حیثیت سے مجبوری ہے) سے ذاتی زندگی قدرے مختلف ہے۔

ان کی شخصیت اگرچہ بہت مدہم اور باوقار ہے لیکن کمزور ہرگز نہیں۔ بظاہر وہ غافل نظر آئیں گی لیکن سامنے آنے والے ہر فرد کو وہ چند سیکنڈ میں پوری طرح پرکھ لیتی ہیں۔ ان کا رویہ حد درجہ دوستانہ ہوتا ہے لیکن وہ بہت گہرائی کے ساتھ سمجھتی ہیں کہ دل اور دماغ کے رشتے اور لوگ الگ الگ ہوتے ہیں اور کس کس کو کہاں کہاں رکھنا ہے۔ اس مضبوطی اور سمجھ داری کے پیچھے ان کے خاندان کا تاریخی پس منظر بھی ہے۔

ان کی تربیت پختون خطے کے سب سے بااثر روحانی رہنما اور تاریخ ساز ریفارمر شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیر کے گھر اور زمانہ ساز ماموں میجر عامر کے زیر سایہ ہوئی جن سے رشتہ تو ماموں کا ہے لیکن جاننے والوں کو معلوم ہے کہ درحقیقت یہ ایک والد اور بیٹی ہی کا رشتہ ہے۔ اس تاریخ کے پیچھے دکھوں کے طویل موسم میں میجر عامر کی مسلسل اٹھائی ذمہ داریاں ہی ہیں کیونکہ والدین کی وفات کے بعد یہی ماموں ہی ان کا سہارا بنے۔

سو جنرل نگار کی شخصیت اور کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے  کہنا یہی ہے کہ تکبر، جھوٹ اور دغا بازی کے بغیر بھی اہم منصب پر پہنچا جا سکتا ہے اور ایمانداری، صلہ رحمی اور دوسروں کے احترام کے ساتھ اس منصب پر رہا بھی جا سکتا ہے بشرط یہ کہ کوئی نگار کی مانند اسے سیکھ تو لے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین