افغان جنرل کی بیٹی ڈنمارک کی فٹبال ٹیم میں

افغانستان سے تعلق رکھنے والی نادیہ ندیم نے ڈنمارک کی فٹبال ٹیم میں شامل ہوکر اپنا عالمی کھلاڑی بننے کا خواب بل آخر حقیقت بنا لیا۔

ڈنمارک کی فارورڈ کھلاڑی نادیہ ندیم 2017 کے یویفا ویمن یورو ٹورنامنٹ کے فائنل مقابلے میں ہالینڈ کی کھلاڑی سے بال بھگاتے ہوئے۔ تصویر: اے ایف پی

ایک افغان جنرل کی بیٹی نادیہ ندیم جنہوں نے ایک پناہ گزین کیمپ سے ملحق میدان میں کئی برس تک فٹبال کھیلا اور اب ڈنمارک کی بین الاقوامی کھلاڑی بن چکی ہیں کہتی ہیں: ’میں ماضی کے بارے میں نہیں سوچتی کہ کیا ہوا۔‘

اکتیس سالہ نادیہ جنہوں نے حال ہی میں مانچیسٹر سٹی سے پیرس سینٹ جرمین کی ٹیم میں شمولیت اختیار کی کہتی ہیں: ’میں خوش قسمت ہوں جہاں میں فٹبال کھیل سکتی ہوں اور اپنی پسند کا کام کر رہی ہوں۔‘

ان کی کہانی قابل ذکر ہے۔ وہ محض 10 سال کی تھیں جب ان کے والد کو طالبان نے قتل کر دیا تھا۔ ان کے خاندان نے افغانستان سے فرار ہوکر ڈنمارک میں پناہ لی۔

ہرات میں ان کے گھر سے یہ سفر براستہ پاکستان کافی طویل تھا۔ وہ انسانی سمگلروں کے ذریعے پہلے اٹلی پہنچیں۔ برطانیہ جہاں ان کے رشتہ دار ہیں جانا چاہتی تھیں لیکن ڈنمارک میں ہی رک گئیں۔

نادیہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم 2000 میں ڈنمارک آئے جب میں10 یا 11 سال کی تھی اور ہم ایک کیمپ میں مقیم تھے۔ اس کیمپ کے ساتھ ہی زبردست فٹال کے میدان تھے۔ ہر روز میں اور کیمپ کے دیگر بچے سکول کے بعد اس میدان میں کھلاڑیوں کو پریکٹس کرتے دیکھتے تھے۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ آیا میں بھی کھیل سکتی ہوں اور کوچ نے کہا ہاں کیوں نہیں۔‘

اپنے ملک کے انتشار سے دور ان کے جوانی کے دن ڈنمارک میں پرامن تھے، اور انہیں کامکس، سکول اور خصوصاً کھیل پسند تھے۔

وہ بتاتی ہیں: ’میں ہر روز خوش ہوں اور شکر گزار ہوں۔ میں خوش قسمت ہوں جہاں میں فٹبال کھیل سکتی ہوں، وہ کھلاڑی بن سکتی ہوں جو میں بننا چاہتی ہوں اور لوگوں سے مل سکتی ہوں۔‘نا

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دیہ جو ایک سرجن بننے کی تعلیم اب حاصل کر رہی ہیں کہتی ہیں کہ کھیل سماجی برابری کا عظیم ذریع ہے۔ ڈنمارک میں اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کر کے وہ کہتی ہیں کہ مختلف علاقوں سے کئی بچے تھے۔ عرب، عراقی، بوسنیائی، صومالیہ کے اور کسی کو نہ اپنی اور نہ ہی انگریزی زبان آتی تھں۔ ’ایک زبان جو ہر کوئی بول سکتا تھا وہ تھی کھیل۔‘

’یہی بات مجھے کھیل کے بارے میں پسند ہے کہ کوئی آپ کو مختلف ہونے کی وجہ سے منع نہی کرسکتا ہے۔ ہر کوئی اس میں شریک ہوسکتا ہے۔ آپ سیاہ ہیں یا سفید، مسیحی ہیں یا مسلمان اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔‘

اگرچہ ڈنمارک میں عورتوں کی برابری کی صورتحال قدرے بہتر ہے، نادیہ مانتی ہیں کہ اس کے مقابلے میں افغانستان میں صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے۔ ’افغانستان میں لڑکیوں کو کھیلنے کی اجازت نہیں، وہ شارٹس نہیں پہن سکتی ہیں۔‘

’لیکن آپ کھیل کے ذریعے نظریات تبدیل کرسکتے ہیں۔۔۔میں نے یہ خود دیکھا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’جب میں جوان تھی میری ماں مجھے کہتی تھیں کہ لڑکوں کے ساتھ فٹبال نہ کھیلا کرو کیونکہ میرے دوست سمجھتے ہیں کہ کچھ اور چل رہا ہے۔ میں اپنے آپ کو گلی میں چھپا لیتی تھی۔ ہم گلیوں میں فٹبال کھیلا کرتے تھے۔ اگر وہ آپ کو دیکھتی تھیں اور آپ کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیتی تھیں۔ یہ بےوقوفانہ عمل تھا۔‘

نادیہ آگے چل کر ڈنمارک کی بین الاقوامی کھلاڑی بنیں اور 2017 کی یورپین چیمپین شپ میں حصہ لیا جہاں انہوں نے پہلا گول سکور کیا لیکن اپنی ٹیم کو ہالینڈ کے ہاتھوں 4-2 کی شکست سے نہ بچا سکیں۔ وہ فرانس میں اس سال جون کے عالمی کپ کے لیے بھی کوالیفائی نہ کرسکیں۔

تاہم وہ اس بات سے متفق نہیں کہ ورلڈ کپ عورتوں کے فٹبال کے لیے اہم موڑ ثابت ہوگا۔ ’میرا نہیں خیال کہ ایک مقابلہ یا ٹورنامنٹ ہر چیز تبدیل کر دے گا۔ اس میں وقت لگے گا لیکن ہم درست سمت میں جا رہے ہیں۔‘

کھیل کو خیرباد کہنے کے بعد ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے طبی کیرئر کے ساتھ ساتھ انسانی مدد کو ملا سکیں گی۔ انہوں نے کہا: ’میرے خیال میں ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز زبردست کام کر رہے ہیں۔ میں ان کے ساتھ چند سال تجربہ حاصل کرنے کے لیے کام کرنا چاہوں گی۔ میں ایسے علاقے میں موجود ہونا چاہوں گی جہاں صرف آپ وہاں کے لوگوں کی مدد کرسکیں۔‘  

زیادہ پڑھی جانے والی فٹ بال