انتہائی دائیں بازو نظریات سے تعلق رکھنے والی آسٹریلین سینیٹر پولین ہینسن پیر کو احتجاجاً برقع پہن کر پارلیمنٹ آئیں جسے مسلم سینیٹرز نے نسل پرستانہ اقدام قرار دیا۔
پولین ہینسن نے پارلیمنٹ میں برقع پہن کر احتجاج کیا کیوں کہ انہیں وہ قانون پیش کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی جس میں عوامی مقامات پر خواتین کے برقع پر پابندی کی تجویز تھی۔ یہ دوسرا موقع تھا جب پولین ہینسن نے پارلیمنٹ میں برقع پہن کر اس اسلامی لباس پر پابندی کے حق میں مظاہرہ کیا۔
جب پولین ہینسن برقع پہن کر سینیٹ چیمبر میں داخل ہوئیں تو ایوان میں شدید غصے کا ماحول پیدا ہو گیا اور جب انہوں نے برقع اتارنے سے انکار کیا تو پارلیمان کی کارروائی معطل کر دی گئی۔
نیو ساوتھ ویلز سے تعلق رکھنے والی مسلم سینیٹر مہرین فاروقی نے اس اقدام کو نسلی تعصب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہینسن ایک نسل پرست سینیٹر ہیں جو کھلے عام نسل پرستی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔‘
ویسٹرن آسٹریلیا کی آزاد سینیٹر فاطمہ نے بھی اس احتجاج کو ’شرمناک‘ قرار دیا۔
حکمران لیبر پارٹی کی سینیٹ لیڈر پینی وونگ اور اپوزیشن کی ڈپٹی لیڈر این رسٹون دونوں نے پولین ہین سن کے رویے کی مذمت کی۔ پینی وونگ نے کہا کہ یہ طرز عمل کسی بھی آسٹریلوی سینیٹر کے شایان شان نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے برقع نہ اتارنے پر انہیں معطل کرنے کی قرارداد پیش کی جس کے بعد ہینسن نے ایوان چھوڑنے سے انکار کیا جس پر سینیٹ کی کارروائی روک دی گئی۔
کوئنزلینڈ سے منتخب پولین ہینسن 1990 کی دہائی میں ایشیائی اور مسلم پناہ گزینوں کی مخالفت کے باعث شہرت حاصل کی اور وہ اپنی سیاسی زندگی کے دوران اسلامی لباس کے خلاف مسلسل مہم چلاتی رہی ہیں۔ انہوں نے 2017 میں بھی پارلیمنٹ میں برقع پہن کر اس لباس پر قومی سطح پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔
ہینسن کی جماعت ’ون نیشن‘ کے پاس سینیٹ میں چار نشستیں ہیں۔ ان میں سے دو نشستیں رواں سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ملی تھیں جن میں انتہا پسندی اور امیگریشن مخالف مہمات کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
بعد ازاں فیس بک پر جاری بیان میں پولین ہین سن نے اپنے اس اقدام کو سینیٹ کی جانب سے بل مسترد کیے جانے کے خلاف احتجاج قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا: ’اگر پارلیمنٹ اس لباس پر پابندی نہیں لگائے گی تو میں اس ظلم، انتہا پسندی اور غیر مذہبی نقاب کو بار بار پارلیمنٹ کے فلور پر لا کر دکھاؤں گی تاکہ ہر آسٹریلوی کو اس کے نتائج کا احساس ہو۔‘