کیا شیریں فرہاد کی کہانی نے چکوال میں جنم لیا؟

شیرین فرہاد کی مشہور لوک داستاں ایران سے منسوب ہے لیکن مقامی روایت کے مطابق اس نے چکوال کے علاقے میں جنم لیا۔

شیریں فرہاد کی کہانی فارسی اور اردو شاعری کا بڑا موضوع ہے ، جب کہ اس پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں اور بہت سی منی ایچرز بھی بنائی گئی ہیں (پبلک ڈومین)

اسلام آباد سے 93 کلومیٹر ایم ٹو موٹر وے پر نیلہ دلہہ انٹر چینج آتا ہے۔ یہاں سے تقریباً چار کلومیٹر بعد ایک گاؤں نیلہ واقع ہے۔ جیسے ہی آپ گاؤں میں داخل ہوتے ہیں ایک خوبصورت مندر کی عمارت سامنے کھڑی نظرآتی ہے۔ پوٹھوہار میں جتنے مندر ہیں یہ ان سب میں نہایت اچھی حالت میں ہے۔ لگتا ہے اسے تقسیم کے آس پا س ہی بنایا گیا تھا۔

لیکن آج اس گاؤں میں آنے کا مقصد آپ کو کسی مندر یا قلعے کی سیر کرانا مقصود نہیں بلکہ آپ کو یہاں صدیوں سے چلی آتی ایک ایسی لوک داستان سے روشناس کرانا ہے جس کا تاریخی تعلق تو ایران سے بتایا جاتا ہے مگر مقامی لوگ اسے ایران کے بجائے دریائے سواں کے کنارے پر آباد اس گاؤں سے منسوب کرتے ہیں۔

گاؤں کا ہر بزرگ نہ صرف اس داستان کو بیان کرتا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ ان کے آبا و اجداد سے یہ داستان اسی طرح سینہ بسینہ چلی آرہی ہے۔ اس داستان کو چکوال کے معروف مؤرخ انور بیگ اعوان نے اپنی کتاب ’دھنی ادب و ثقافت‘ مطبع 1967 میں بھی درج کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’شیریں فرہاد کی داستان کا تعلق اگرچہ ایران سے بیان کیا جاتا ہے جہاں پر قصر شیریں اور فرہاد کی کھودی ہوئی نہر کے آثار بیان کیے جاتے ہیں مگر بعض محققین ایسے بھی ہیں جو اسے ایران کے بجائے مکران بلوچستان سے تعبیر کرتے ہیں۔ پھر چکوال جسے عہد قدیم میں دھنی کہا جاتا تھا اس سے یہ داستان کیسے منسوب ہو گئی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دھنی علاقہ ایرانی بادشاہ دارا یوش اوّل کے عہد ِ سلطنت (518ق م) میں ایرانی سلطنت کا ہی حصہ تھا۔ ان دنوں وادی سندھ ایران کا 20 واں صوبہ تھی۔ لیکن مقامی داستان میں ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کی جگہ راجہ نیل وائے کا ذکر ہے جس کا محل نیلہ میں واقع ہے اور شیریں بادشاہ کی بیٹی ہے۔ اس داستان میں کوہ بیستون کی بجائے پوٹھوہار کی پہاڑیاں ہیں اور محل وقوع ایران کی بجائے سواں کا کنارہ ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں موضع نیلہ میں نیل نام کا ایک راجہ حکومت کرتا تھا۔ اس نے دریائے سواں کے کنارے ایک ٹیلے پر اپنا محل تعمیر کروایا جس کے آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب یہاں تھانہ اور ریسٹ ہاؤس کی عمارتیں ہیں۔ اس محل کی تعمیر فرہاد نامی ایک ترکھان کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ جب محل بن گیا تو بادشاہ اس کی خوبصورتی سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے ترکھان کو کہا کہ وہ جو مانگے گا اسے عطا کیا جائے گا۔

معمار نے کہا، ’جان کی امان پاؤں تو عرض کروں؟‘

راجہ نے کہا، ’مانگو جو بھی مانگنا ہے۔‘

معمار نے کہا، ’مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیں۔‘

بادشاہ یہ سن کر سٹپٹا گیا لیکن کیا کرتا، بھرے دربار میں وعدہ جو کر لیا تھا۔ لیکن اندر سے یہ بات بادشاہ کو گُھن کی طرح کھانے لگی کہ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی، کہاں شہزادی اور کہاں ترکھان۔ مصاحبین نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ آپ وعدے سے مکر جائیں مگر شاہی غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا۔

بادشاہ کے مشیروں نے کہا کہ کیوں نہ اس رشتے کو کڑی شرائط سے مشروط کر دیا جائے۔ باشاہ اس پر رضا مند ہو گیا اور فرہاد کو کہلا بھیجا کہ ہم دلہن کو ہرنیوں کے نو من دودھ میں نہلانا چاہتے ہیں۔ اگر تم نو من ہرنیوں کو دودھ اکٹھا کر لاؤ تو شہزادی تمہارے حوالے کر دی جائے گی۔

فرہاد کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ یہ شرط کیسے پوری کرے گا تاہم عشق کے اعتقاد کے ساتھ وہ جنگلوں میں چلا گیا اور گیان دھیان کرنے لگا۔ روایت میں آتا ہے کہ بالآخر رحمت خداوندی کا نزول ہوا اور خواجہ خضر علیہ السلام نے ظاہر ہو کر فرہاد کو ایک بانسری دی اور کہا کہ اسے بجاؤ ہرنیاں خود تمہارے پاس اکٹھی ہو جائیں گی اور تمہیں جتنا دودھ درکار ہو گا مل جائے گا۔ فرہاد نے بانسری بجانا شروع کی تو چند لمحوں میں ہی ہرنیوں کے ریوڑ کے ریوڑ اس کے گرد جمع ہو گئے۔

اس نے راجہ کو پیغام بھیجا کہ میں نے ہرنیاں اکٹھی کر لی ہیں، راجہ اپنے کارندے بھیجے تاکہ وہ مطلوبہ دودھ دوہ لیں۔ بادشاہ کے کارندے یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ فرہاد بانسری بجا رہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں ہرنیاں جمع ہیں۔ یہ مقام آج بھی نیلہ کے قریب ہے اور اسے موضع ہرنیاں والا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

بادشاہ یہ سن کو سخت متفکر ہوا اور بیمار پڑ گیا۔ بادشاہ کے مشیروں نے ایک اور تدبیر سوچی کہ کیوں نے فرہاد کو کہا جائے کہ شہزادی نے شرط رکھی ہے کہ یہ شادی تب ہو گی جب تم ایک نہر کھود کر اسے محل کے نیچے سے گزارو گے۔ فرہاد نے یہ شرط بھی قبول کر لی اور پہاڑوں کی طرف اپنا تیشہ لے کر چل پڑا۔ لیکن کہاں تیشہ اور کہاں پہاڑ، یہاں بھی خواجہ خضر علیہ السلام مدد کو آئے اور فرہاد سے کہا کہ یہ چھڑ ی لے اور چلتے جاؤ دریا تمہارے پیچھے خود بخود چلتا آئے گا۔

فرہاد بڑا خوش ہوا اور وہ چھڑی لے کر دریا سے اپنی محبوبہ کے محل کی جانب چل پڑا۔ جب وہ تھک کر سو گیا تو پانی یہاں چکر کاٹنے لگا۔ بادشاہ کو خبر مل گئی کہ فرہاد دریا کو لے کر آ رہا ہے۔ بادشاہ بہت پریشان ہوا اور اس نے اپنے مشیروں کو بہت ڈانٹا کہ تم مجھے رسوا کرواتے ہو۔ مشیروں نے کہا کہ آپ ہمیں ایک موقع اور دے دیں ہم فرہاد سے آپ کی جان چھڑوا لیتے ہیں۔ انہوں نے مشہور کر دیا کہ شہزادی فوت ہو گئی ہے اور اس کی موت پر خیرات کی جا رہی ہے۔

ایک خاتون کو انہوں نے سمجھا کر بہت سا کھانا دے کر فرہاد کے پاس بھیج دیا کہ اسے کھانا پہنچاؤ اور خبر دے دو کہ شہزادی فوت ہو گئی ہے۔ فرہاد کو جب یہ خبر ملی تو ا س کے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ اس کی روح وہیں پرواز کر گئی۔ خاتون خوش ہو کر فوراً دربار پہنچی تاکہ انعام و اکرام حاصل کر سکے۔ اسی دوران راجدھانی میں ہاہاکار مچ گئی کہ سیلاب آیا۔ بادشاہ کے اہل خانہ بھی محل کی چھت پر چڑھ کر پانی کا نظارہ کرنے لگے۔ پانی محل کے گرد چکر کاٹنے لگا۔ اس میں ایک لاش بھی تیر رہی تھی۔ اسی خاتون نے بتایا کہ یہی لاش فرہاد کی ہے۔

یہ سننا تھا کہ شہزادی نے بھی محل سے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ شہزادی کو بچانے کے لیے لوگ بھی دریا میں کود گئے مگر دونوں لاشیں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جڑی ہوئی تھیں جیسے ایک دوسرے سے گلے مل رہی ہوں۔ لوگوں نے دونوں لاشیں نکال کر انہیں دریائے سواں اور نالہ پنھارن کے سنگم پر ایک بلند ٹیلے پر دفن کر دیا۔ یہ قبریں اب بھی وہاں موجود ہیں جہاں ہر سال ایک میلہ بھی لگتا ہے۔ اس واقعہ کو علاقے کے شاعروں نے بھی اپنے کلام کا حصہ بھی بنایا ہے۔

 پروفیسر شاہد آزاد یونیورسٹی آف چکوال میں انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایاکہ یہ کہنا کہ شیریں فرہاد کی کہانی نے چکوال میں جنم لیا شاید تاریخی طور پر درست نہ ہو لیکن لوک کہانیوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی صداقت ضرور ہوتی ہے۔ چکوال کی چونکہ تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے اس لیے یہاں سے مختلف لوک کہانیاں منسوب ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ شیریں فرہاد سے ملتے جلتے کرداروں نے یہ کہانی جنم دی ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے شیریں فرہاد کا نام دے دیا گیا ہو۔

باقر وسیم قاضی اصغر مال کالج راولپنڈی میں شعبۂ اردو سے منسلک ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے اس سلسلے میں تحقیق کی ہے اور سمجھتا ہوں کہ اس لوک داستان کا شیریں فرہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ ایک معروف داستان ہے اور تاریخی طور پر اس کے شواہد موجود ہیں۔ چکوال کی تاریخ میں بہت سے چیزیں گھڑی گئی ہیں، سینہ بہ سینہ چلنے والے گزٹ کو تاریخ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شیریں ایران کی ملکہ تھی۔ یہاں جس شیریں کی قبر موجود ہے اگر وہ شہزادی ہو تی تو اس کا مقبرہ ہوتا جو سلامت نہ بھی ہوتا تو اس کے کچھ آثار تو باقی ہو تے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی مقامی داستان ہے جسے شیریں فرہاد کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ