’کاسٹ اچھی نہیں‘: جب مادھوری کی زندگی کا پہلا کردار مسترد ہو گیا

مادھوری ڈکشٹ نے سخت محنت اور عرق ریزی کے بعد دور درشن کے لیے ڈراما تیار کیا، جسے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ ’کاسٹ اتنی اچھی نہیں۔‘

مادھوری ڈکشٹ کو طویل جدوجہد کے بعد قبولیت حاصل ہوئی (اے ایف پی)

مادھوری دکشت کو سکرپٹ ملا تو ان کی بانچھیں کھل گئیں۔ انہیں ایسا لگا کہ جس منزل کی تلاش میں تھیں، وہ اب ان کے در پر خود آ کھڑی ہوئی ہے۔

اس سے پہلے وہ اس ڈرامے کی کہانی میں اپنے کردار کے متعلق دریافت کرتیں، ان کے کانوں میں ہدایت کار انیل تیجانی کی آواز گونجی، جو بتا رہے تھے کہ فی الحال ہم اس ڈراما سیریل کی پائلٹ قسط بنا کر دور درشن ہیڈ کوارٹر روانہ کریں گے، اگر وہاں سے گرین سگنل مل گیا تو پھر اصل کام کا آغاز ہو گا۔

اس لمحے مادھوری کے ذہن میں خدشات اور تحفظات بھی آئے کہ مسترد ہو گیا تو کیا ہو گا، خاص کر ایسے میں جب وہ شوبزنس کی دنیا میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ہر در کھٹکھٹا چکی ہیں۔

کئی فلم سٹوڈیوز کا چکر لگانے کے بعد یہی کہا جاتا کہ اگر کوئی کردار ان کی عمر کے مطابق ہو گا تو انہیں ضرور طلب کیا جائے گا۔

ذکر ہو رہا ہے 1984 کا جب17 برس کی مادھوری نے بھی کئی بھارتی لڑکیوں کی طرح خود کے لیے فلم نگری کی راہ کا انتخاب کیا تھا۔ فلمیں دیکھ دیکھ کر وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھیں اور خواہش تھی کسی اچھے موقعے کی۔

مادھوری کو جب فلموں میں کوئی امید نظر نہ آئی تو انہوں نے چھوٹی سکرین پر ہی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ راج شری پروڈکشن جو ان دنوں فلمیں اور ٹی وی ڈرامے بھی تخلیق کرتا تھا، اسے دور درشن کے لیے ایک ڈراما سیریل ’بمبئی میری ہے‘ تیار کرنے کی پیش کش ملی۔ جس کی پائلٹ قسط کے لیے آخر کار مادھوری دکشت کا چناؤ ہی ہو گیا۔

ہدایت کار انیل تیجانی کی آواز سماعت سے ٹکرائی تو مادھوری کی نگاہیں سکرپٹ کے بجائے اب ان پر تھیں۔ مادھوری کو بتایا گیا کہ ان کا مرکزی کردار ہو گا اور ان کے مقابل بینجمن گیلانی ہوں گے۔

مادھوری ان سے بخوبی واقف تھیں، جو ٹی وی کے منجھے ہوئے اداکار تصور کیے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنا مادھوری اپنی خوش قسمتی تصور کر رہی تھیں۔

صرف وہی نہیں اس ڈرامے میں مظہر خان اور شوبھا کھوٹے بھی شامل تھیں۔ کہانی کا پس منظر تھا بمبئی میں رہنے والے ایک متوسط خاندان کا، جو زندگی کی ہنگامہ خیزی سے نمٹ رہی ہے لیکن ساتھ ساتھ آنے والی دشواریوں اور مشکلات کو اپنی ذہانت اور کفایت شعاری کے ذریعے دور کرتا ہے۔

مادھوری کو کہانی ہی نہیں اپنا کردار بھی پسند آیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ بینجمن گیلانی، مظہر خان اور شوبھا کھوٹے جیسے فنکاروں کی موجودگی میں ان کو وہ پذیرائی مل جائے گی، جس کے بعد ان پر قسمت کی دیوی کے مہربان ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

مادھوری نے ملنے والے اس موقعے کو ضائع نہ کرنے کا اٹل فیصلہ کر لیا تھا۔ اسی لیے دل و جاں سے جہاں انہوں نے اپنے کردار کی کیفیت کو ذہن نقش کر لیا، وہیں جب کیمرا آن ہوتا تو وہ کمال مہارت سے ہر منظر میں غیر معمولی اور فطری اداکاری دکھاتیں، مکالموں کی ادائیگی میں بھی وہ منجھی ہوئی اداکارہ بن جاتیں۔

یہاں تک کہ بعض دفعہ ہدایت کار انیل تیجانی منظر سے مطمئن ہوتے لیکن مادھوری یہ سمجھ کر کہ کہیں ان کی اداکاری میں کوئی جھول نہ رہ جائے، دوبارہ سے اس منظر کو عکس بند کراتیں۔

ڈراما سیریل ’بمبئی میری ہے‘ کی پائلٹ قسط جب تکمیل کے مراحل سے گزر کر تیار ہوئی تو پوری سٹار کاسٹ خوش تھی۔ راج شری پروڈکشن تو مادھوری کے پیشہ ورانہ رکھ رکھاؤ اور فنکاری سے خاصا متاثر ہوا تھا۔

پائلٹ قسط دور درشن حکام کو روانہ کی گئی اور انتظار ہونے لگا کہ کب گرین سگنل ملتا ہے تاکہ اس کی بقیہ اقساط عکس بند کی جائیں۔

جیسی توقع تھی، اس کے برخلاف دور درشن حکام نے ’بمبئی میری ہے‘ کو مسترد کر دیا۔ یہ خبر مادھوری کے سر پر بم پھٹنے کے مترادف تھی۔ جس محنت اور عرق ریزی کے بعد انہوں نے جس ڈرامے کو تیار کیا گیا، اسے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ ’کاسٹ اتنی اچھی نہیں ہے۔‘

مادھوری کے تو دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس قسط میں انہوں نے اس قدر محنت سے فنکاری دکھائی، اسے مسترد کر دیا گیا ہے۔

ہدایت کار انیل تیجانی بھی مادھوری کی کیفیت سے واقف تھے، جو اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ نئے فنکاروں کے ساتھ ازسر نو ڈرامے کی عکس بندی سے معذرت کر لی لیکن وہ مادھوری کی فنکارانہ صلاحیتوں کے سب سے بڑے معترف ہو گئے۔

انہوں نے راج شری پروڈکشن کے ذمے داروں سے کہا کہ جب بھی کوئی اور تخلیق بنائیں تو اس لڑکی کو ضرور موقع دیا جائے۔

مادھوری کی محنت کا پھل انہیں اسی سال یعنی 1984میں مل گیا۔ جب راج شری پروڈکشن نے ’ابودھ‘ کی عکس بندی شروع کی تو مادھوری دکشت کو اس فلم میں بطور ہیروئن بنا کر پیش کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اور بات ہے کہ یہ فلم ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن راج شری پروڈکشن کو مادھوری پر اعتماد تھا، جبھی اگلے سال دور درشن کے لیے ’پیئنگ گیسٹ‘ بنایا تو اس کی پہلی قسط میں پھر سے مادھوری مہمان اداکارہ بن کر جلوہ گر ہوئیں۔

مادھوری نے ’ابودھ‘ کے بعد آوارہ باپ، اتردکھشن، سواتی، حفاظت اور خطروں کے کھلاڑی میں بھی کام کیا لیکن کامیابی کی منزل ان سے کوسوں دور نظر آئی۔

اور پھر 1988 کا سورج طلوع ہوا۔ اس سال جب ’تیزاب‘ ریلیز ہوئی تو اس کے بعد بقول شخصے، بھارتی فلمی تاریخ کا نیا باب کھل گیا۔ اسی فلم سے مادھوری کی بالی وڈ پر وہ حکمرانی قائم ہوئی، جسے کوئی اور دوسری اداکارہ ہلا نہ سکی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ راج شری پروڈکشن جس نے مادھوری کو ٹی وی اور پھر فلم میں بریک دیا، ’دھک دھک گرل‘ کو پھر سے راج شری پروڈکشن کے ساتھ کام کرنے کے لیے 10 سال کا طویل انتظار کرنا پڑا، جب 1994 میں میوزیکل رومنٹک سپر ہٹ فلم ’ہم آپ کے ہیں کون‘ سنیما گھروں کی زینت بنی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم