خلائی سفر: ’لوگ مریں گے سہی،‘ لیکن جائیں گے ضرور

ٹیسلا اور سپیس ایکس کمپنی کے بانی ایلون مسک کا یہ کہنا کہ ان کے خلائی سفر کا شوق لوگوں کی موت کا سبب ہو گا بھلے احساس سے عاری سہی لیکن دیانتدارانہ طرز عمل ہے۔ نئی چیزوں کی تلاش کسی بھی شکل میں خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔


سپیس ایکس کا راکٹ فالکن ہیوی 2018 میں اڑان بھر رہا ہے، اور اس پر ٹیسلا کی کار روڈسٹر بھی سوار ہے جو مریخ کے مدار کے قریب گردش کرے گی (اے ایف پی)

یاد رہنے والے فقرے کہنے والے ایلون مسک سرعام یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ ان کا خلائی پرواز کا شوق ممکنہ طور پر کئی افراد کی موت کا باعث ہوگا۔ ان کے سامعین میں سے کچھ افراد کے شاید یہ وہم و گمان میں بھی نہ ہو، لیکن خلائی سفر ہمیشہ سے خطرناک رہا ہے اور کئی  لحاظ سے ہم ابھی تک خوش قسمت رہے ہیں۔ خلائی تحقیقاتی منصوبے کے دوران ناسا نے اپنے عملے کے سات میں سے دو خلا باز اچانک کھو دیے اور کئی دیگر زمین پر پہنچنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئے۔

پہلی اور اہم ترین بات کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ بلکہ کوئی شخص دلائل دیتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ ہماری جدید زندگی موت کے خیال سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ ہماری حد سے زیادہ پُرسہولت اور یخ کمروں والی زندگی نے ہمیں اتنا سہل پسند بنا دیا ہے کہ ہم مستقبل قریب میں خلائی منصوبوں کو درپیش مشکلات کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ زمین کے گرد بحری جہاز کے ذریعے چکر لگانے والے پہلے انسان پرتگالی مہم جو فرڈینینڈ میجیلن تھے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ سفر مکمل ہونے سے قبل مر گئے اور ان کے بعد سینیئر افسر ہوان سباستیئن ایلکانو 1522 میں جہاز واپس لائے تھے۔ اس سفر میں صرف 18 لوگ بچ پائے تھے۔

دریافتوں کے سنہرے عہد میں سفر پر جانے والے افراد میں سے 25 سے 50 فیصد کے درمیان افراد کا  بندرگاہ تک واپس پہنچنے سے پہلے مر جانا معمول کی بات تھی۔ زندہ لوٹنے والے افراد ساحل پر چند ہفتے آرام کرنے کے بعد واپس  نئے محاذ پر نکل کھڑے ہوتے۔

ہم جس چیز کی بات کر رہے ہیں اگرچہ وہ مختلف عہد تھا اور اس کے تقاضے بھی مختلف تھے لیکن زمین کے گرد چکر لگانے اور کسی دوسرے سیارے کی سمت اڑان بھرنے کے خطرات کے درمیان اگر آپ کے خیال میں کوئی مناسبت ہی نہیں تو آپ سخت غلطی پر ہیں۔ مسک اپنے تیز رفتار خلائی جہاز میں بیک وقت 100 خلا باز بھیجنے میں سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں اور اس صورت میں انسانی جانوں کے نقصان کا خطرہ کہیں بڑھ جائے گا۔

 یہ بات تو ہو چکی اب آگے بڑھتے ہیں۔ روسی خلا نورد ویلری پولیاکوف نے سوویت یونین کے میر سپیس سٹیشن پر مسلسل 438 دن گزارے۔ یہ ریکارڈ ابھی تک قائم ہے۔  امریکی خلا باز ٹم پیک 21ویں صدی کی دوسری دہائی میں ایک سال سے تھوڑا کم وقت ہی خلا میں گزار پائے ہیں۔

انٹرنیشنل سپیس سٹیشن (آئی ایس ایس) کی بدولت اب ہم جانتے ہیں کہ زمین کے نچلے مدار میں تقریباً ایک سال تک کیسے زندہ رہا جا سکتا ہے۔ خلائی سٹیشن سے متعلقہ امریکی سکائی لیب کے اعداد و شمار کے مطابق خلائی پرواز کے مدار میں رہنے کے لیے تقریباً ابتدائی ایک مہینہ مشکل ترین وقت ہے۔ صفر کشش ثقل میں رہنے کی عادت پڑنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگتا ہے اور جب آپ کا جسم اس کے مطابق ڈھل جاتا ہے تو پھر زمین پر واپسی کے بعد کشش ثقل کے مطابق ڈھلنے میں دوبارہ ایک مہینہ لگتا ہے۔

صفر کشش ثقل مزے دار چیز ہے اور جدید خلائی منصوبوں نے کہیں زیادہ مزے دار ویڈیوز مہیا کی ہیں لیکن وہ 1970 کی دہائی میں سکائی لیب کی فراہم کردہ ویڈیوز جتنی مزے دار نہیں جو اپنی طویل مدتی کی وجہ سے آج بھی ریکارڈ ہے۔ کچھ ہی عرصے میں خلا باز کمزور پڑنا شروع ہو جاتے ہیں کہ سب کچھ بغیر کوشش خود ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ ان کی ہڈیوں میں کیلشیئم کی کمی اور پٹھے کمزور ہونے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ اعضائے قلبی بیکار ہونے لگتے ہیں اور زمین پر لوٹنے کے بعد کھڑے رہنا بھی ان کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس دان ہر طرح کے اضافی کیلشیئم، ہڈیوں کو توانا رکھنے والی ادویات، ہڈیوں کو مضبوط رکھنے اور جسمانی پٹھوں کا وزن برقرار رکھنے والی جدید مشینوں کی مدد سے اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ مدت بعد ہی بہت سے خلا باز ورزش سے اکتانے لگتے ہیں جو روزانہ تقریباً تین گھنٹوں سے زائد جاری رہتی ہے، لیکن ورزش کے بغیر واپسی پر ان کا جسم ٹوٹ پھوٹ سے ملبے میں تبدیل ہو چکا ہو گا۔

صفر کشش ثقل کے بنیادی تجربات ان رضا کاروں پر کیے جاتے ہیں جو مسلسل کئی ماہ تک سیدھا لیٹے رہنے پر رضامند ہوتے ہیں۔

زمین کے نچلے مدار میں محض زندہ رہنا بھی ایک مشکل کام ہو سکتا ہے۔ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن کے حالیہ امور کی انجام دہی کے لیے روزانہ دو افراد کو آٹھ گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم چھ ماہ کے لیے آئی ایس ایس کے تین کارکن شمار کر لیں تو کسی بھی وقت ان میں سے محض ایک ہی مفید کام کر رہا ہوتا ہے، باقی بس اضافی ہوتے ہیں۔ امریکہ کے ڈریگن جیسے نئے خلائی جہازوں کی آمد سے یہ تبدیل ہونے لگا ہے اور جس وقت میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں، 11 افراد آئی ایس ایس میں سوار ہو چکے ہیں۔ ربوٹ کے ذریعے تازہ اشیا کی فراہمی کے سبب اب یہ ممکن ہے کہ جہاز میں سوار افراد تک دیگر ضروری سامان کے ساتھ تازہ پھل اور سبزیاں بھیجی جا سکتی ہیں۔

لیکن اگر کوئی بہت خطرناک صورت حال پیش آجائے تو؟ تباہ کن حادثے کے خطرات بہت زیادہ ہیں اور کئی لحاظ سے ابھی تک انسانی سواری والے خلائی جہاز خوش قسمت رہے ہیں۔ پرواز کے دوران جدید انسانی سواری والی خلائی مشینوں میں بچ نکلنے والے آلات موجود ہوتے ہیں کہ جیسے ہی مشین کے پھٹنے کا امکان ہو عملہ چھلانگ لگا کر اس سے بچ سکتا ہے۔ ایسے آلات بہت مہنگے اور خطرے سے خالی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ امریکی خلائی شٹل چیلنجر جیسی خوفناک تباہی سے بچا سکتے ہیں۔

اگر خلا باز زمین کے نچلے دائرے میں ہیں تو وہ اس سے باہر نکل کر چند گھنٹوں میں زمین پر واپس پہنچ سکتے ہیں۔ ممکن ہے وہ صحیح طریقے سے نہ اتر سکیں لیکن انہیں معلوم ہو جائے گا کہ بچ نکلنا ممکن ہے۔ یاد رہے کہ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن محض 250 میل کی دوری پر واقع ہے۔

اگر سب کچھ ٹھیک چلتا رہا تو ہمیں اس دہائی کے اختتام تک چاند پر ہونا چاہیے اور یہ ہمارے خلا بازوں کے لیے آئی ایس ایس سے مزید ہزار درجے بلند ترین مقام ہو گا۔ چاند کی سطح سے فرار ہونے کے لیے عملے کو پہلے تو چاند کی سطح سے تیز رفتار راکٹ کی مدد سے نکلنا پڑے گا، اس کے بعد وہ زمین کے نچلے مدار کی نسبت کہیں زیادہ رفتار سے زمین کی فضا میں داخل ہو گا، لیکن اس کے باوجود چاند سے فرار قرینِ قیاس ہے۔

اصل مشکل مرحلہ چاند کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مریخ یا کسی دوسرے قریبی سیارے کے لیے بہت احتیاط سے پرواز کا وقت متعین کیا جاتا ہے۔ زمین اور مجوزہ مقام دونوں متحرک ہوتے ہیں اور دونوں کی رفتار مختلف ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ کسی بھی وقت حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آپ اپنی مرضی سے واپسی کا راستہ اختیار کرسکیں۔ مریخ پر کسی ہنگامی صورت حال میں راکٹ لانچ کرنے سے پہلے عملے کو طے شدہ مناسب دورانیے کا ہر حال میں انتظار کرنا پڑے گا۔

دوبارہ سامان پہنچانا بہت مشکل اور تازہ پھلوں کی رسائی ناممکن ہے۔ ساری خوراک ڈبہ بند ہو گی، لیکن ملاح زمین پر صدیوں سے ایسے ہی گزارہ کرتے چلے آئے ہیں۔ یاد رہے کہ ایٹمی آبدوزوں کے عملے کے لیے 12 ماہ تک زیر آب رہنا ایک معمول ہے جہاں تنگ سی جگہ پر سو سے زیادہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ سمندر میں زندگی بسر کرنا بہت قدیم اور کئی لحاظ سے خلا میں زندہ رہنا اس کی نسبت آسان ہے۔

عملی طور پر خلائی پرواز کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تابکاری ہے۔ کئی سال پہلے ابتدائی ترین خلائی پروازوں کے دوران جیمز وان ایلن نے دریافت کیا کہ زمین کے گرد کئی تابکار حلقے ہیں۔ یہ زمین کی سطح سے ہزاروں میل دور تک پھیلی ہوتی ہیں اور یہ شمسی شعاعوں اور زمین کے مقناطیسی میدان کے باہمی تعامل سے بنتی ہے۔ واں ایلن تابکاری بیلٹس میں سے گزرنے کے بعد ابتدائی اپالو خلابازوں میں سے ایک بیمار ہو کر قے کرنے لگے تھے جس سے ایک بار ان کی صحت کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔

عملی طور پر واں ایلن تابکاری بیلٹس زمین اور اس کے ساتھ نچلے زمینی مدار میں رہنے والے خلا بازوں کی بھی حفاظت کرتی ہیں۔ جیسے ہی ہم واں ایلن تابکاری بیلٹس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں عملے کے لیے خطرہ بڑھنے لگتا ہے۔ خطرہ روزانہ کے حساب سے دوگنا ہوتے ہوئے بڑھتا چلا جاتا ہے اور مریخ کی طرف ایسے سفر میں پانچ سو دن لگتے ہیں۔ پولیاکوف کا ریکارڈ حوصلہ افزا ہے مگر خلا کے مختلف ماحول میں شاید وہ اتنی مدت تک شاید وہ زندہ نہ رہتا۔

خلا میں نصف تابکاری سورج کی ہے اور باقی نصف ستاروں سے پیدا ہونے والی تابکاری ہے۔ انورس سکوئر لا کی بدولت چاند کی نسبت مریخ زیادہ محفوظ مقام ہے لیکن زمین کے برعکس مریخ پر مقناطیسی میدان موجود نہیں ہے اور جب سورج کی شعاعیں اس کی اوپر والی سطح سے ٹکراتی ہیں تو یہ سیارے پر موجود چند مالیکیول گیسوں کو ختم کرنے میں متحرک کردار ادا کرتی ہے۔ تابکاری کی زیادہ تر مقدار کامیابی سے یہ سطح پار کر لیتی ہے اور عملے کو ہدایات دینا پڑیں گی کہ اپنی گاڑی کے ذریعے جتنا جلد ممکن ہو، مریخ کی کھلی فضا سے بچنے کی کوشش کریں۔

کرہ ارض کے چاند کی طرح کسی بھی خلا باز انسان کو اپنی رہائش گاہ پتھروں اور ریت کی بھاری مقدار کے نیچے تعمیر کرنا ضروری ہوگی تاکہ تابکار شعاعوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ سیاروں کی طرف سفر کے لیے وقت اور دیگر حالات سے باخبر رہنے کے لیے تابکاری ڈوز نہایت احتیاط سے استعمال کرنا ضروری ہو گی۔ بعض سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ تابکاری زندگی کا حصہ ہے۔ بہت پہلے سے یہ جان لیا گیا تھا کہ برطانوی علاقے کارنوال میں سخت پتھریلے گھروں میں رہنے والے افراد ایٹمی مراکز میں کام کرنے والے عام لوگوں کی نسبت تابکاری کے خطرے سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جہاز کے عملے کو جس قدر اس کی خوراک ملتی جاتی ہے اس کی مقدار کافی زیادہ ہے۔ ممکن ہے وقت کے ساتھ ساتھ ہم ایسی ادویات تیار کر لیں جن میں تابکاری کے مضر اثرات موجود نہ ہوں لیکن ابھی تک طویل خلائی پرواز کے لیے تابکاری اہم ترین مسئلہ ہے۔

لیکن ان تمام مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک بہت آسان طریقہ ہے۔ اپنے خلائی جہاز کی رفتار بڑھائی جائے۔ خلا میں دور دراز سفر کے لیے زیادہ تر تخمینے قیاس پر مبنی ہیں کہ ہمارے جہاز انجن کے اندر جلنے والے ایندھن کے دھکے سے زور پکڑے گا اور معمول کے مطابق توانائی خارج کرے گا۔ اس طرح چھ ماہ کے سفر میں یہ اوپر پہنچے گا اور واپسی کے لیے بھی اتنا ہی وقت لگے گا۔

اس حقیقت کے پیش نظر سفر کو جواز بخشنے کے لیے ہمیں کم سے کم تین ماہ وہاں گزارنے چاہییں، ہم محض 15 سے 18 ماہ کے دوران صفر کشش ثقل اور خلائی تابکاری کے خطرات سے واقف ہو جائیں گے۔ اگر ہم بہتر رفتار کا انتظام کر سکیں تو ممکن ہے دونوں طرف کے سفر سے الگ الگ دو تین مہینے کم کیے جا سکیں۔ سفری اوقات میں معمولی سی کمی بھی نقل و رسد کے بہت سے مسائل حل کر دے گی۔ اس وقت سائنس دان پلازما ڈرائیوز اور محض ایٹمی توانائی سے چلنے والے انجنوں پر کام کر رہے ہیں۔

اس قسم کی ٹیکنالوجی کی تیز رفتار خلا میں دور تک سفر ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایلون مسک کا حالیہ بیان بلاجواز نہیں، ممکن ہے مریخ پر بہت سے افراد موت کا شکار ہو جائیں۔ جب پتہ ہو کہ چھ ماہ تک ایک ڈبہ بند خوراک پر ہی گزارہ کرنا ہے تو اچھے خاصے پرعزم خلابازوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔

کام کاج کی ہر جگہ پر صنفی خلیج کو پاٹنے کے رجحان کے سبب عملے کو جنسی تناؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، جو نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرن کے درمیان نہیں تھا۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک شخص جو چھوٹے سے اپالو کیپسول میں زندہ رہ سکتا ہے (تقریباً 12 دن تک) وہ اس فرد سے بالکل مختلف شخصیت رکھتا ہے جو خلا میں بہت گہرائی تک جا کر 18 مہینے تک صبر کر سکتا ہے۔

عملے کو محفوظ رکھنے کے لیے خلائی جہاز کو سیسے کی بھاری چادروں سے ڈھک دینے کا خیال پرکشش محسوس ہوتا ہے، لیکن جدید دور کی خلائی مشینری میں جو حقیقی بہتری آئی ہے وہ ہلکے مواد سے ڈھانچے تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ بھاری جہاز کی نسبت کم وزن خلائی جہازوں کے وزن اور طاقت کی شرح بہتر ہوتی ہے اور یہ ممکنہ طور پر زیادہ تیز رفتار ہوتے ہیں۔ اگر ہم خلائی جہاز پر سیسہ تھوپنا شروع کر دیں تو ہلکی الیکٹرونکس اور بہتر مواد کی ٹیکنالوجی کے تمام فوائد ضائع ہو جائیں گے۔

کچھ لوگوں نے تجویز پیش کی ہے کہ مریخ پر پہلے سفر کرنے والے افراد دانش مند اور بڑی عمر کے لوگ ہونے چاہییں، یعنی 60 سال سے زائد عمر افراد جن کے بچے پیدا ہو چکے ہیں اور اب وہ مریخ پر سفر کے دوران اپنی توانائی کھو دینے سے متعلق زیادہ فکر مند نہیں ہوں گے۔ اسی طرح شاید وہ اس بات سے زیادہ آگاہ ہوں کہ ان کی زندگی بہت زیادہ باقی نہیں اور اگر کسی خطرے سے دوچار ہوتے بھی ہیں تو کھونے کے لیے پہلے ہی ان کے پاس بہت کم رہ گیا ہے۔

لیکن یہ تمام مسائل کامیابی کی راہ میں ممکنہ رکاوٹوں کی وجہ سے ہیں اور بالآخر تمام رکاوٹوں پر قابو پایا جا سکتا ہے اور پا لیا جائے گا۔ لوگ ایسا کر گزریں گے لیکن کتنا جلدی اور واپس کس حالت میں پہنچیں گے یہ نہیں معلوم۔ گذشتہ چند ہفتوں میں بھی انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں۔ مریخ پر حال ہی میں اترنے والے پرسویئرنس پر نصب آکسیجن پیدا کرنے والا آلہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی معمولی مقدار سے قابل تنفس آکسیجن پیدا کر چکا ہے اور مریخ کی فضا ہوبہو یہی ہے۔ مریخ پر اپنے لیے خود آکسیجن تیار کرنے کا خواب حقیقت نظر آنے لگا ہے۔

اسی طرح مریخ پر برف کی موجودگی کی امید (اور ممکنہ طور پر چاند پر بھی) اس بات کا امکان روشن کرتی ہے کہ شاید اسی سیارے پر دوبارہ ایندھن بھرنا اور مقامی مواد سے سیال آکسیجن اور ہائیڈروجن تیار کرنا ممکن ہو۔ الیکٹریکل پاور جہاز پر موجود نیوکلیئر ری ایکٹر یا سولر پینل سے ہی آئے گی لیکن گذشتہ سالوں میں سولر پینل ٹیکنالوجی بھی تو بہت بہتر ہوئی ہے اور مشکل ہے کہ الیکٹریکل پاور بذاتِ خود ہماری راہ میں رکاوٹ بن سکے۔

اس خلا کو دیکھتے رہیے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس