زمینی زندگی مریخ پر زندہ رہ سکتی ہے: ناسا

امریکی خلائی ادارے ناسا کی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ زمینی عناصر مریخ جیسے ماحول میں عارضی طور پر زندہ رہ سکتے ہیں۔

19 فروری 2021 کی اس تصویر میں ناسا    کی پریزروینس روور  کو مریخ کی سطح پر اترتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے (تصویر: اے ایف پی)

خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ زمینی عناصر مریخ جیسے ماحول میں عارضی طور پر زندہ رہ سکتے ہیں۔

یہ تحقیق سائنسدانوں کو ہمارے سیارے سے باہر کے ماحول کے بارے میں مزید جاننے میں مدد فراہم کرے گی۔

ناسا اور جرمن خلائی ایرو سپیس سینٹر (ڈی ایل آر) کی مشترکہ تحقیق میں سائنسدانوں نے مائیکرو آرگنیزمز (خوردبینی حیات) کی برداشت کا جائزہ لینے کے لیے انہیں سرخ سیارے جیسے ماحول میں غباروں کے ذریعے لانچ کیا جو بلندی تک پرواز کر گئے۔ جائزے میں سامنے آیا کہ اس سفر کے دوران ان میں سے کئی آرگنزمز زندہ رہے۔ 

تحقیق کی شریک مصنفہ ڈی ایل آر کی مارٹا فلیپا کورٹیساو کا کہنا ہے: ’ہم نے بیکٹیریا اور فنگی کو مریخ جیسے ماحول تک بھیجنے کے نئے طریقے آزمائے ہیں اور اس کے لیے سائنسی غبارے استعمال کیے گئے ہیں، جو ہمارے آزمائشی سامان کو زمین کے ماحول کی بلندی تک لے کر گئے۔‘

فرنٹیرز ان مائیکرو بائیولوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں زمینی زندگی سے تعلق رکھنے والے مائیکرو آرگنزمز کو ماحول میں لانچ کیا گیا تاکہ مریخ کے ماحول جیسے حالات کو پیدا کیا جا سکے جو کہ زمین پر تخلیق کیے جانے نا ممکن ہیں۔

جرمن ایروسپیس سینٹر میں کام کرنے والی اور اس تحقیقی کی شریک مصنفہ کیتھرینہ سیمز کا کہنا ہے کہ ’مریخ پر طویل عرصے کے لیے بھیجے جانے والے مشن، جس میں عملہ بھی ہوگا، کے لیے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ انسانوں سے تعلق رکھنے والے مائیکرو آرگنزمز سرخ سیارے پر کیسے زندہ رہیں گے کیونکہ ان میں سے کچھ خلا بازوں کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’اس کے علاوہ کچھ مائیکروبز خلائی تحقیق کے لیے قیمتی ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ ہمیں زمین سے آزادانہ طور پر خوراک اور سامان رسد پیدا کرنے میں مدد دے سکتے ہیں جو ہمارے لیے زمین سے دور ہونے کی صورت میں اہم ہوسکتے ہیں۔‘

یہ مائیکروبز ’مارس بوکس‘ یعنی (مائیکروبز اِن اٹموسفیر فار ریڈی ایشن، سرواوئیل، اینڈ بائیولوجیکل آؤٹ کمز ایکسپیری منٹ) کے اندر لانچ کیے گئے تھے جس کے اندر مریخ کے ماحول کے برابر ہوا کے دباؤ کو برقرار رکھا گیا تھا اور ایک مصنوعی ماحول کو مشن کے مکمل دورانیے تک قائم رکھا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’اس ڈبے میں دو تہیں موجود تھیں جبکہ نچلی تہہ تابکاری سے محفوظ رہنے والی تھی، جس کی وجہ سے ہم اس کے دوران دوسری تہہ کے مقابلے میں تابکاری کے اثرات کا الگ سے جائزہ لینے میں کامیاب ہوئے اور تجربے کے دوران خشکی، ماحول اور درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے سکے۔ اوپر والی تہہ کے نمونے نچلی تہہ کے مقابلے میں تابکاری سے ہزار گنا زائد متاثر ہوئے۔ یو وی تابکاری کی یہ سطح ہماری جلد کو جلا سکتی ہے۔‘

تحقیق میں سامنے آیا کہ اس سفر کے دوران تمام مائیکروبز باقی نہیں رہ سکے۔ سیاہ پھپھوندی اسپرگلوس نائجر واپس آنے کے بعد ہی بحال کی جا سکی۔ اس سے قبل یہی پھپھوندی بین الااقوامی خلائی سٹیشن پر بھی دریافت ہو چکی ہے۔

یہ تحقیق ہمارے سیارے سے باہر زندگی کے امکانات میں مائیکروبز کے کردار کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔

یہ تحقیق ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ناسا کی پریزروینس روور حال ہی میں سرخ سیارے کی سطح پر اتری ہے، جسے امریکی خلائی ایجنسی کی تاریخ کا اہم ترین اور پر عزم مشن قرار دیا جا رہا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس