ایف اے ٹی ایف: کیا پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جائے گا؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا ورچوئل اجلاس آج اختتام پذیر ہو رہا ہے جس میں پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا جائے گا اسے گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ میں ڈالا تھا (تصویر: ایف اے ٹی ایف)

بین الاقوامی مالیاتی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا ورچوئل اجلاس آج اختتام پذیر ہو رہا ہے جس میں پاکستان کو امید ہے کہ وہ اس مرتبہ گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

اس سے قبل رواں سال فروری میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو چار مہینوں کی مہلت دی گئی تھی اور ایف اے ٹی ایف کی طرف سے اس وقت جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو تین شعبوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ان شعبوں میں ’(1) نامزد شدت پسندوں یا جو ان کے لیے یا ان کی جگہ کام کر رہے ہیں، ان پر مالی پابندیاں لاگو کرنا، (2) دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمات اور ان افراد یا اداروں کو ٹارگٹ کرنا، جو ان کی جگہ کام کر رہے ہیں اور (3) دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف متناسب یا مکمل پابندیوں کی صورت میں کارروائی شامل ہے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ میں ڈالا تھا۔

اس کے بعد سے پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے گذشتہ کچھ عرصے میں کئی قانون متعارف کروائے ہیں۔ ان قوانین میں انسداد منی لانڈرنگ قوانین میں ترامیم، انسداد دہشت گردی قانون میں ترامیم، وقف پراپرٹیز قانون، میوچل لیگل اسسٹنس قانون سمیت 14 وفاقی اور تین صوبائی قوانین شامل ہیں۔

وفاقی وزیر برائے توانائی اور ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے معاملات دیکھنے والے حماد اظہر نے چار جون کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 40 میں سے 31 سفارشات کو پورا کر لیا ہے اور صرف دو سالوں میں ایسی کارکردگی ایف اے ٹی ایف کی تاریخ میں کسی ملک نے حاصل نہیں کی۔‘

ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989 میں جی سیون سمٹ کی جانب سے پیرس میں عمل میں آیا، جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد بڑھا دیے گئے۔

ان مقاصد میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنا اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات طے کرنا تھا۔

ادارے کے کُل 38 ارکان میں امریکہ، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔ ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے۔

گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہے؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلیک لسٹ میں ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔

گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعادہ کریں۔

گرے لسٹ سے نکلنے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

گرے لسٹ میں رہنے والے ممالک کے ساتھ لین دین سے مالیاتی ادارے اور سرمایہ کار ہچکچاتے ہیں۔ اگر پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کی معاشی سمت اور عالمی تاثر بہت ہو پائے گا۔

بلیک لسٹ میں جانے سے پاکستان کو کیا نقصان ہو گا؟

بلیک لسٹ میں جانے سے پاکستان کی معیشت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ معیشت کا سب سے اہم جزو دنیا کے سامنے پاکستانی معیشت کا تصور ہے اور بلیک لسٹ میں جانے سے اس تصور کو شدید دھچکا لگے گا۔

اگر پاکستان بلیک لسٹ میں جاتا ہے جس کے امکانات کم  ہیں تو یہ قوی امکان ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ پروگرام ختم کر دے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے خاتمے کے ساتھ دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسا کہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی پاکستان کے ساتھ لین دین روک سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے پاکستان کے ساتھ کاروباری لین دین بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا