ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے ہٹنے کے لیے قوانین میں ترامیم

پاکستانی پارلیمان نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1957 اور اقوام متحدہ (سکیورٹی کونسل) ایکٹ 1948 میں ترامیم کی منظوری دے دی، جس کے تحت اثاثوں کا منجمد اور ضبط کیا جانا اور افراد اور اداروں پر سفری اور اسلحے کی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو جون 2018 سے گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔(تصویر: ایف اے ٹی ایف ویب سائٹ)

پاکستانی پارلیمان نے ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے باہر لانے کے لیے دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام سے متعلق ضروری دو قوانین میں متعدد ترامیم کی منظوری دے دی ہے تاہم 180 روز تک حراست میں رکھنے کی تجویز اپوزیشن کے دباؤ کی وجہ سے شامل نہیں کی گئی۔

جن قوانین میں ترامیم کی گئیں، ان میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1957 اور اقوام متحدہ (سکیورٹی  کونسل) ایکٹ 1948 شامل ہیں۔

اس قانون سازی کے ذریعے وفاقی حکومت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت شکایات کے پیش نظر اقدامات اٹھانے کا اختیار حاصل ہو گا، جن میں اثاثوں کا منجمد اور ضبط کیا جانا اور افراد اور اداروں پر سفری اور اسلحے کی پابندیاں لگانا شامل ہو سکتی ہیں۔

ترمیمی بلز کی منظوری جمعرات کے روز قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاسوں میں دی گئی۔

حزب اختلاف کی طرف سے مخالفت اور ممکنہ ناکامی کے پیش نظر تحریک انصاف حکومت نے پہلے سے بلایا گیا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ترمیمی بل دونوں ایوانوں کے الگ الگ اجلاسوں میں پیش کیے گئے۔

دنیا میں دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو جون 2018 سے گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔

گرفتای کا اختیار

وفاقی حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے حوالے سے پارلیمان میں متعارف کرائے گئے بلوں کے ساتھ ایک ایسا بل بھی پیش کیا جس کا تعلق بظاہر منی لانڈرنگ سے نہیں تھا۔

اس قانون کی طرف سب سے پہلے توجہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے حکومت اور اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس میں دلائی۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت اس قانون کے ذریعے کسی بھی شہری کی گرفتاری کا حق حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس حق کو نیب کے لیے استعمال کیا جاتا۔

مجوزہ قانونی ترمیم بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ میں کی جا رہی تھی، جس کے تحت حکومت کسی بھی شہری کو 180 روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے جبکہ اس گرفتاری کا فیصلہ سرکاری ملازمین پر مشتمل ایک کمیٹی کرتی۔ 

تاہم حزب اختلاف کی مخالفت کے بعد حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں کی جانے والی یہ مجوزہ ترمیم واپس لے لی۔

ابتدائی طور پر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 27 شرائط پورا کرنے کا ہدف دیا تھا، جن میں سے 13 شرائط کی تکمیل ہونا باقی تھی۔ ان 13 شرائط کا تعلق دہشت گردی کی مالی اعانت کو روکنے، کالعدم تنظیموں کے خلاف قوانین کے نفاذ اور قانونی نظام کو بہتر بنانے سے متعلق ہے۔

پارلیمان کی جانب سے مذکورہ دو قوانین میں ترامیم کا مقصد ایف اے ٹی ایف کی باقی 13 شرائط کی تکمیل ہے۔ 

اس سال فروری میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے جون 2020 تک کا وقت دیا تھا، تاہم کرونا وائرس کی وبا کے باعث اب ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ستمبر میں ہوگا۔

تاہم اسلام آباد کو ایف اے ٹی ایف کی شرائط پورا کرنے سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کی رپورٹ 6 اگست تک ایشیا پیسیفک گروپ کو پیش کرنی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کے شور شرابے کے دوران ترمیمی بلوں کی منظوری دی گئی تھی۔

جمعرات کو ترمیمی بل سینیٹ کے سامنے رکھے جانے سے پہلے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں پیش کیے گئے، جہاں سینیٹر جاوید عباسی کی صدارت میں کمیٹی نے حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی گئی تبدیلیوں کو مجوزہ ترامیم میں شامل کیا۔ 

اگرچہ قوانین بدھ کو قومی اسمبلی نے پہلے ہی منظور کر لیے تھے، تاہم سینیٹ میں مجوزہ ترامیم میں تبدیلیوں کے ساتھ منظوری کے بعد قانوناً ان کی قومی اسمبلی سے دوبارہ منظوری ضروری ہو گئی تھی، اسی لیے جمعرات کی شام تین بجے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

حزب اختلاف کی تجاویز قانون سازی میں شامل ہونے کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں  میں قانون سازی میں مسائل پیش نہیں آئے اور تمام ترمیمی بل آسانی سے منظور کر لیے گئے۔

تاہم حزب اختلاف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) نے اس قانون سازی پر تنقید کی۔

سینیٹ کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے جے یو آئی ف کے سینیٹرز عطا الرحمٰن اور غفور حیدری نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف اور بین الاقوامی اداروں کی شرائط اس لیے مانی جا رہی ہیں کہ پاکستانی حکومت کمزور ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزاد ریاستیں اس طرح سے کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتیں اور اگر کرتی ہیں تو اپنے کمزور ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی قانون سازی کے طریقہ کار پر تنقید کی۔ 

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر قوانین کے بل پارلیمان میں پیش کرنے کی کوشش کی۔

اس سے قبل سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس قانون سازی کے بعد ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط پوری ہو جائیں گی اور اب پاکستان کا گرے لسٹ میں گرے لسٹ میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس میں پاکستان کو وائٹ لسٹ میں شفٹ کر دیا جائے گا۔

انہوں نے حزب اختلاف کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی سے متعلق حکومت نے کوئی چیز خفیہ نہیں رکھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان