انسان کو چیزوں میں شکلیں کیوں نظر آتی ہیں؟

کیا وجہ ہے کہ بادلوں، درخت کی چھال، پتوں، بٹنوں، اور کافی کی پیالی میں ہمیں انسانی چہرے نظر آتے ہیں؟

فرانس میں یہ چٹان بس چٹان ہی ہے، مگر اس میں  ایک ’اداس‘ عورت کا  چہرہ نظر آتا ہے (وکی میڈیا کامنز)

ایک ہندوستانی لوک کہانی کے مطابق اندرا دیوتا بھکاری کا بھیس بدل کر کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں رات پڑ گئی۔ جنگل بیابان، دور دور تک آدم نہ آدم زاد۔ انہ وں نے سردی سے بچنے کے لیے آگ جلا لی۔

جنگلی جانوروں نے دیوتا کو پہچان لیا۔ گیدڑ ان کے لیے آموں کی سوغات لے آیا، اودبلاؤ نے مچھلیاں پکڑیں اور پیش کر دیں۔ بندر نے دہی پیش کیا۔

پیچھے رہ گیا خرگوش۔ اسے کچھ اور سمجھ نہیں آئی تو اندرا کے آگے جلتے الاؤ میں کود گیا تاکہ بھن جائے اور دیوتا اسے کھا لیں۔

کہا جاتا ہے کہ اندرا دیوتا کو خرگوش کی خود کو قربان کرنے کی ادا اس قدر پسند آئی کہ انہوں نے چاند پر اس کی شبیہ کندہ کر دی۔ ہندوستان کی ایک روایت کے مطابق چاند پر آج تک اسی خرگوش کی شکل دکھائی دیتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی امریکہ کی قدیم ایزٹک تہذیب کو بھی چاند میں خرگوش نظر آتا تھا، البتہ وہ کوئی اور خرگوش تھا۔ ہم نے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے بچپن میں جو کہانیاں سنیں، ان کے مطابق چاند پر ایک بڑھیا ہے جو بیٹھی چرخہ کاتتی رہتی ہے۔

یورپ میں کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے کمر پر گٹھا اٹھا رکھا ہے جسے ’مین ان دا مون‘ کہا جاتا ہے۔ تالمودی روایت کے مطابق یعقوب علیہ السلام کی شبیہ کندہ ہے۔ اسی طرح چینی صنمیات کے مطابق دیوی چانگے غلطی سے چاند پر چلی گئی تھی اور وہاں پھنس کر رہ گئی اور آج تک چاند پر دکھائی دیتی ہے۔

ادھر ہمارے میر صاحب کو اپنی محبوبہ کی تصویر دکھائی دیتی تھی:

نظر آئی اک شکل مہتاب میں
کمی آئی جس سے خور و خواب میں

دوسری طرف مذہبی شخصیات اور علامات کو جگہ جگہ دیکھنا بھی بہت عام ہے۔ مختلف مذہبوں کے پیروکاروں کو اپنی روحانی شخصیات کے چہرے کٹے ہوئے آلوؤں، بادلوں، جانوروں کی پشت، جلی ہوئی ڈبل روٹی، پتوں یا درختوں وغیرہ پر دکھائی دیتے ہیں۔ چند سال قبل گوہر شاہی نامی ایک صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ چاند کے علاوہ سورج میں بھی ان کی تصویر موجود ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور دعوے بھی تھے، جن کی بنا پر انہیں ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ وہ دعوے تو یہاں بیان نہیں کیے جا سکتے، البتہ اشیا میں چہرے تلاش کرنے کے عمل کے لیے باقاعدہ لفظ بھی موجود ہے، یعنی پیری ڈولیا pareidolia، جس کی تعریف ہے: فطری عناصر میں کوئی مخصوص شکل تلاش کر کے اس پر اپنی تعبیر چسپاں کر دینا۔

اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے؟

اب یونیورسٹی آف سڈنی کے سائنس دانوں نے اس معاملے پر تحقیق کر کے کہا ہے کہ اس کی جڑیں نظریۂ ارتقا سے جا ملتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ صلاحیت انسان کے ذہن میں ہارڈ وائرڈ ہے، یعنی قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق انسان کی بقا سے ہے۔

یونیورسٹی آف سڈنی کے سکول آف سائیکالوجی کے پروفیسر ڈیوڈ ایلس اور اس تحقیق کے سربراہ نے کہا کہ ’ارتقا کے نقطۂ نظر سے کسی انسانی چہرے کو نظرانداز کر دینا اس سے بڑی غلطی ہے بہ نسبت اس کے کہ بےجان چیزوں کو چہرہ سمجھ لیا جائے۔‘

انہوں نے کہا، ’چہرے شناخت کرنا بہت سودمند عمل ہے، لیکن یہ نظام بہت ڈھیلے ڈھالے طریقے سے کام کرتا ہے جس کی تعریف ہے: فطری عناصر میں کوئی مخصوص شکل تلاش کر کے اس پر اپنی تعبیر چسپاں کر دینا۔

اب یونیورسٹی آف سڈنی کے سائنس دانوں نے اس معاملے کا سائنسی جائزہ لیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی جڑیں نظریۂ ارتقا سے جا ملتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ صلاحیت انسان کے ذہن میں ہارڈ وائرڈ ہے، یعنی قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے۔

یونیورسٹی آف سڈنی کے سکول آف سائیکالوجی کے پروفیسر ڈیوڈ ایلس اور اس تحقیق کے سربراہ نے کہا کہ ’ارتقا کے نقطۂ نظر سے کسی انسانی چہرے کو نظرانداز کر دینا اس سے بڑی غلطی ہے بہ نسبت اس کے کہ بےجان چیزوں کو چہرہ سمجھ لیا جائے۔‘

یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان رسی کو سانپ سمجھ کر ڈر جاتا ہے کیوں کہ یہ اس کی فطرت میں موجود ہے۔ یہ غلطی ہے، کیونکہ اس میں چیزوں کی شناخت کا عمل ضرورت سے زیادہ فعال ہو جاتا ہے اور انسان ایک بےضرر چیز سے ڈر کر اچھل پڑتا ہے، چہرہ زرد ہو جاتا ہے، دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

مگر اس غلطی کی قیمت کم چکانا پڑتی ہے، زیادہ سے زیادہ سے یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہو اور وہ آپ کی بوکھلاہٹ سے لطف اندوز ہو کر ہنس پڑے۔

لیکن اس معمولی خجالت کے مقابلے پر اگر آپ سانپ کو رسی سمجھ لیں تو اس غلطی کی بہت بھاری قیمت دینا پڑے گی کیوں کہ یہ آپ کی آخری غلطی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

اس لیے ارتقا ان لوگوں کو آگے بڑھانے میں زیادہ معاون ثابت ہوا جو معمولی چیز کو دیکھ کر ڈر جاتے تھے اور ان لوگوں کی نسل آگے نہیں بڑھی جو خطرے کا ادراک نہیں کر پاتے تھے اور یوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔

پروفیسر ڈیوڈ ایلس نے میڈیا کو بتایا، ’چہرے شناخت کرنا بہت فائدہ مند عمل ہے، لیکن یہ نظام بہت ڈھیلے ڈھالے طریقے سے کام کرتا ہے اور جہاں دو آنکھیں اور ناک دیکھتا ہے اس پر چہرے کا لیبل چسپاں کر دیتا ہے۔ بہت ساری چیزوں میں اس قسم کی شکلیں مل جاتی ہیں اس لیے انہیں دیکھ کر یہ نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔‘

اس عمل کے تحت ذہن صرف چہرے ہی نہیں دیکھتا، بلکہ ان چہروں کے تاثرات کو بھی جانچنے کی کوشش کرتا ہے، یعنی کون سا چہرہ ناراض ہے، کون سا خوش و خرم۔

سائنس دانوں کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بڑی حد تک سماجی مخلوق ہے اور اسے عام زندگی گزارنے کے لیے دوسرے انسان کے چہروں کا قریبی مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ان کے ردِ عمل کا جائزہ لیا جا سکے۔

قدیم زمانے میں جب انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہتا تھا تو اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ اس کے معاشرتی برتاؤ کی بےحد اہمیت ہوتی تھی۔ چونکہ زندگی بےحد مشکل تھی، اور ہر دن زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی تھی، اس لیے اپنے دوستوں پر بھروسہ اور دشمنوں کی عزائم سے خبردار رہنے پر زندگی اور موت کا انحصار ہوا کرتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ لاکھوں برس کے ارتقائی عمل کے دوران انسان کے اندر لوگوں کے چہرے پڑھنے اور ان کے تاثرات کا جائزہ لینے کی پیدائشی صلاحیت پیدا ہو گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غار کے زمانے میں جو انسان دوسرے کے چہروں کو ٹھیک طرح سے پہچان نہیں پاتا تھا یا پھر ان کے جذبات کا چہرے سے اندازہ نہیں لگا پاتا تھا، اس کا بچنا اور نسل کا آگے بڑھنا مشکل ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چہرے پہچاننے والے کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور رفتہ رفتہ ان کے جین پوری نوعِ انسانی پر چھا گئے۔

یونیورسٹی آف سڈنی کے سائنس دانوں نے تحقیق کے دوران شرکا سے کہا کہ وہ اصل چہروں کے ساتھ مختلف چیزوں میں موجود ’مصنوعی‘ چہروں کے تاثرات کو جانچیں۔

ان مصنوعی چہروں میں ٹی وی کا ریموٹ، کافی کے کپ، ہینڈ بیگ، روٹی کے ٹکڑوں اور اسی طرح کی دوسری چیزوں میں چھپے چہرے شامل تھے۔

شرکا کو معلوم تھا کہ یہ اصل چہرے نہیں ہیں اس کے باوجود انہوں نے ان چہروں کے تاثرات جانچے کہ وہ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اکثر شرکا کے جوابات مشترک تھے، یعنی اگر ایک بٹن کسی کو پریشان نظر آیا تو دوسروں کو بھی اس میں وہ تاثرات ملے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی ذہن اصل اور نقلی چہروں کو ایک ہی انداز سے پرکھتا ہے۔

ڈاکٹر ایلس کہتے ہیں، ’پیری ڈولیا والے چہرے غلط قرار دے کر رد نہیں کر دیے جاتے بلکہ انہیں اصل چہروں کے تاثرات پرکھنے کے ایک جیسے عمل سے گزارا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ تیوری یا مسکراہٹ میں فرق کرنے کے لیے دماغ کا چہرے پڑھنے والا عمل سرگرم ہوتا ہے۔ اصل ہو یا نقل، چہرے ایک ہی عمل سے گزارے جاتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق