افغانستان بحران: ’جنون کی حد تک سیاسی اور پر امن حل کے خواہاں ہیں‘

وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی نے کہا: پاکستان پڑوسی ملک افغانستان کی موجودہ صورت حال سے متعلق مذاکرات کے ذریعے پر امن حل کے علاوہ کسی دوسرے آپشن پر غور نہیں کر رہا۔‘

 ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی  پریس کانفرنس کے دوران معید یوسف مسئلہ افغانستان کے سیاسی اور پر امن حل کے علاوہ کسی دوسرے آپشن پر گفتگو کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے (فوٹو: انڈپینڈنٹ اردو)

 

وزیر اعظم عمران خان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان پڑوسی ملک افغانستان کی موجودہ صورت حال سے متعلق مذاکرات کے ذریعے پر امن حل کے علاوہ کسی دوسرے آپشن پر غور نہیں کر رہا۔

جمعے کو اسلام آباد میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا: ’دنیا اور خصوصاً امریکہ کو افغانستان میں صرف اور صرف پر امن حل کے لیے کوششیں کرنی چاہییں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ تمام تر منفی عوامل کے باوجود مسائل کا مذاکرات کے ذریعے پر امن حل  ہمیشہ ایک بہتر راستہ ہوتا ہے اور پاکستان نے تمام توانائیاں اور توجہ اسی جانب مرکوز کر رکھی ہیں۔

مشیر برائے قومی سلامتی نے کہا: ’ہم نے طالبان کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ مسئلہ افغانستان کا فوجی حل ناقابل قبول ہو گا اور انہیں دنیا میں اس حوالے پائی جانے والی ترجیحات سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے پڑوسی ملک میں کسی ایک فریق کا طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ اگر طالبان سیاسی طور پر قانونی حیثیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی سیاسی حل کی طرف توجہ دینی ہوگی۔

تاہم انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تشدد بھی سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔

تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی پریس کانفرنس کے دوران معید یوسف مسئلہ افغانستان کے سیاسی اور پر امن حل کے علاوہ کسی دوسرے آپشن پر گفتگو کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے۔

انہوں نے کہا: ’ہم جنون کی حد تک سیاسی اور پر امن حل کے خواہاں ہیں اور اسی لیے اسلام آباد میں دوسری چیزوں پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ پاکستان اس سلسلے میں آخری لمحے تک اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ زمینی حقائق سیاسی یا پر امن حل کی امید کے بالکل برخلاف ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ تمام منفی حالات کے باوجود پاکستان آخری لمحے تک سیاسی حل کی کوششیں جاری رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں جاری جنگ اور تشدد کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے اور اس لیے اب اسلام آباد صرف سیاسی اور پر امن حل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سوال کے جواب میں کہ طالبان مستقبل قریب میں کابل پر قبضہ کر سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ’اگر افغانستان میں طاقت کی بنیاد پر حکومت بنتی ہے تو پاکستان دنیا کی طرف دیکھے گا کہ اس حوالے سے کیا رویہ اپنایا جاتا ہے۔‘

معید یوسف نے افغانستان میں جاری جنگ کے نتیجے میں افغان پناہ گزینوں کی پاکستان آمد سے متعلق اسلام آباد کی ممکنہ پالیسی کے حوالے سے سوال کے جواب میں سیاسی اور پرامن حل کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا: ’ہم چاہیں گے کہ ایسی کوئی صورت حال پیدا نہ ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے اگر طاقت کی بجائے سیاسی عمل سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوششیں کی جائیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ماضی میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا رہا ہے اور اس وقت بھی بڑی تعداد میں افغان باشندے پاکستان میں موجود ہیں۔ ’لیکن اب پاکستان اپنے اندرونی مسائل اور معاشی مشکلات کے پیش نظر پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘

مشیر برائے قومی سلامتی نے کہا کہ گذشتہ مہینے کے دوران افغانستان میں ہونے والی تبدیلیاں واضح کر رہی ہیں کہ صورت حال کس طرف جا رہی ہے اور اس صورت حال میں پاکستان نے دونوں فریقوں کو لڑائی سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ افغان فوج طالبان کے خلاف لڑنا نہیں چاہ رہی، جس کی وجہ وہاں کے نظام پر اعتماد کا فقدان یا قانونی حیثیت ہوسکتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کو دنیا پر واضح طور پر افغانستان سے جانے کو فوجی انخلا قرار دینا چاہیے اور دنیا کو بتایا جائے کہ افغانستان میں سیاسی عمل اور ترقی میں امداد جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کو افغانستان میں امن کی واپسی کی غرض سے فریقین کے درمیان مذاکرات کروانے میں کردار ادا کرنا چاہیے اور اس عمل میں خطے کی اہم طاقتوں کو بھی شامل کیا جائے۔

افغانستان میں بھارت کے کردار سے متعلق انہوں نے کہا کہ نئی دہلی کا اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں بنتا کیونکہ وہ نہ تو پڑوسی ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی دوسری اہمیت ہے۔

معید یوسف نے مزید کہا کہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرکے دراصل پاکستانی عوام کے دلوں میں افغان عوام اور افغان پناہ گزینوں کے خلاف نفرت بڑھائی جا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان