ہندوؤں کے سب سے بڑے مندر کی تعمیر، مودی حکومت کی انتخابی چال؟

’مسلمانوں کے پاس مکہ اور مدینہ کی مسجدیں ہیں، عیسائیوں کے پاس ویٹیکن ہے۔ ہندوؤں کو بھی بھگوان رام کے لیے ایک عظیم الشان مندر کی ضرورت ہے۔‘

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی پانچ اگست 2020 کو رام مندر کا سنگِ تعمیر رکھنے کے موقعے پر (اے ایف پی/انڈین پریس انفارمیشن بیوریو)

انکیت کمار کہتے ہیں، ’مسلمانوں کے پاس مکہ اور مدینہ کی مسجدیں ہیں، عیسائیوں کے پاس ویٹیکن ہے۔ ہندوؤں کو بھی بھگوان رام کے لیے ایک عظیم الشان مندر کی ضرورت ہے۔‘

انکیت کمار بھارت کی برسر اقتدار دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو دارالحکومت دہلی میں مقامی سطح پر چلانے والے تقریباً دو سو افراد میں شامل ہیں (ان کی درخواست پر یہ ان کا تبدیل شدہ نام ہے)۔

اس سال کے اوائل میں کمار اور ان کی تین سو رکنی ٹیم نے آر ایس ایس سے منسلک تنظیم وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے لیے تقریباً 45 دنوں پر محیط چندہ مہم کی قیادت کی جس میں دس روپے سے دو لاکھ مالیت تک کی رقم ہندو دیوتا بھگوان کرشنا کے مندر کی تعمیر کے لیے جمع کی گئی۔ وہ کہتے ہیں انڈیا میں موجود ایک ارب ہندوؤں کے ایمان کے لیے مندر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔

اگرچہ تنظیم کے اراکین مندر کے لیے جمع کی گئی رقم کی صحیح مالیت بتانے سے انکار کرتے ہیں لیکن انتہائی محتاط اندازے کے مطابق یہ تعمیر کے لیے درکار رقم سے کم از کم تین گنا زیادہ ہے۔ حزب اختلاف سے وابستہ سیاست دان زمین کی خریداری میں کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں جبکہ دائیں بازو کے سرگرم کارکنان چندہ دینے کے لیے انڈین معاشرے کے تمام ہندو گروہوں میں نچلی سطح تک پھیلے ’جنون‘ کا دعوی کرتے ہیں۔

مندر کی تعمیر پانچ اگست 2020 کو ہندوستان کے شمال میں واقع ریاست اتر پردیش میں ایودھیا کے مقام پر شروع ہوئی جس کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نریندر مودی نے رکھا۔

یہ اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں تعمیر ہو رہا تھا جس کے تحت ایودھیا کے مقام پر جاری کئی دہائیوں کے تنازع حل ہو۔ اسی جگہ پر 1992 میں ہندو جتھے کے حملے سے پہلے تک بابری مسجد موجود تھی۔ نومبر 2019 میں فیصلہ دیتے ہوئے انڈین سپریم کورٹ نے مسجد مسمار کرنے کے طریقہ کار کی مذمت کی لیکن اس مقام کو مندر کی تعمیر کے لیے حکومت کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔

یہ فیصلہ مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی ایک بڑی فتح کے طور پر دیکھا گیا جس نے طویل مدت سے رام مندر کی تعمیر اپنے بنیادی ترین انتخابی وعدوں میں شامل کر رکھی تھی۔ اکثر ہندو اس مقام کو رام کی جائے پیدائش سمجھتے ہیں اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بابری مسجد سے پہلے یہاں مندر تھا، اگرچہ اس بات کے حق میں آثار قدیمہ کے ملنے والے شواہد متنازع ہیں۔

 قدیم دہلی کے انتہائی گنجان آباد علاقے، جس میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے، میں رہائش پذیر کمار کے بقول چندہ مہم پر مقامی افراد میں سے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

 کمار کہتے ہیں، ’اپنے علاقے میں مقامی انتظامیہ سمیت سبھی ہمیں جانتے ہیں اور احترام کرتے ہیں۔ دراصل بہت سے مسلم رہنما جو بی جے پی سے منسلک ہیں انہوں نے بھی ہمیں چندہ دیا۔‘

بابری مسجد کی مسماری سے انڈیا میں اچانک فسادات اٹھ کھڑے ہوئے اور آنے والے کئی برسوں تک فرقہ وارانہ کشیدگی جاری رہی۔ البتہ عدالت نے ایودھیا میں پانچ ایکڑ پر محیط ایک زمینی ٹکڑا مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے فراہم کرنے کے احکامات بھی جاری کیے جسے بعض لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔

 حزب اختلاف کے سیاست دان اسد الدین اویسی نے اس موقع پر کہا ’ملک اب ہندو قوم پرست ریاست بننے کے راستے پر گامزن ہے۔‘

35 سالہ کمار جن کی اپنے علاقے میں دکان ہے، وہ ایسے بہت سے مواقع کا ذکر کرتے ہیں جب کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ تک ان کی ٹیم کو چندہ دینے آئے۔

وہ کہتے ہیں، ’کئی ناقابل فراموش واقعات ہیں، ہم نے بازاروں، رہائشی مقامات، گلی کوچوں اور دیگر بہت سی جگہوں سے چندہ جمع کیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ کیسے ایک رکشہ ڈرائیور نے چندہ جمع کرنے کی مہم کے دوران نہ صرف کرایہ وصول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ 50 روپے بھی اپنی جیب سے بطور عطیہ دیا جو ان کی دن بھر کی کمائی کا اچھا خاصا حصہ ہو گا۔ ٹوکریاں بیچتی ایک خاتون نے انہیں پانچ ہزار اور ایک گھریلو خاتون نے 20 ہزار دیے۔

دوسری طرف کچھ مالدار افراد نے ایک لاکھ سے بھی زائد رقم بطور عطیہ پیش کی۔ کمار کہتے ہیں غریبوں سے جو بھی بن پڑا انہوں نے حاضر کر دیا جو لارڈ رام سے گہری عقیدت کی عکاسی کرتا ہے۔ ’ایک ٹیلی فون بوتھ چلانے والے لڑکے نے اپنی دن بھر کی کمائی 620 روپے پیش کر دی۔‘

کمار کہتے ہیں دہلی شہر میں انہوں نے چندہ اکٹھا کرنے والی مہم میں ایک یونٹ کی قیادت کی جو ایسی ہی تقریباً 180 اکائیوں میں تقسیم تھا اور جس نے 34 لاکھ روپے جمع کیے۔ وہ کہتے ہیں، ’انتہائی محتاط اندازے کے مطابق دہلی بھر سے کم از کم ایک ارب روپیہ جمع کیا گیا۔‘

وی ایچ پی کے مرکزی نائب صدر سریندر گپتا محض دہلی سے جمع ہونی والی چندے کی حتمی رقم بتانے سے بھی انکار کرتے ہیں لیکن وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ لوگوں میں عطیات دینے کا جنون دیکھا گیا۔

گپتا انڈپینڈنٹ کو بتاتے ہیں کہ ’ایک شخص نے 51 ہزار کی رقم جمع کروائی جو انہیں اپنے والد نے دس سال قبل اپنی موت کے وقت مندر کی تعمیر کے لیے دی تھی کہ جب بھی شروع ہو۔ حالیہ دنوں میں ایک والد ہمارے پاس آئے۔ ان کی بیٹی 50 ہزار عطیہ کرنا چاہتی تھی جو اس کی پہلی تنخواہ تھی۔ اگرچہ عملی طور پر ہماری چندہ مہم ختم ہو چکی ہے لیکن لوگ آن لائن عطیات جمع کروا سکتے ہیں۔‘

’عطیات جمع کروانے کا جنون جاری ہے‘

میوزیم اور ریسرچ سینٹر سمیت مندر کی پوری عظیم الشان عمارت کی تعمیر کی لاگت اندازے کے مطابق دس ارب روپے کے قریب بنے گی۔ میڈیا رپورٹس نشان دہی کرتی ہیں کہ فنڈ جمع کرنے والے ابھی تک تقریباً اکتیس بلین روپے (تین سو اشاریہ ایک ملین پاؤنڈ) جمع کر چکے ہیں جو درکار رقم سے تین گنا زیادہ ہے۔

 جنم بھومی تیرتھ کھشتیریا ٹرسٹ جسے حکومت نے قائم کیا اور تعمیراتی کام کی نگرانی کر رہا ہے، اس کے رکن ڈاکٹر انیل مشرا کہتے ہیں یہ مقدس مقام عوام کے لیے دسمبر 2023 تک کھول دیا جائے گا، جس کے چھ ماہ سے بھی کم عرصے بعد 2024 کے طے شدہ پارلیمانی انتخابات ہیں۔

حتی کہ ابھی یہ بننے کے مراحل میں ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی مہم کے دوران ہندو ووٹروں کی ہمدردیاں جیتنے کے لیے مندر کی اہمیت بنیادی ہے۔ دلت برادری (جسے پہلے اچھوت کہا جاتا تھا) کے رہنما میواتی کے زیر انتظام بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے گذشتہ ماہ وعدہ کیا ہے کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ مندر کی تعمیر تیزی سے مکمل کریں گے، اس اقدام کا مقصد برہمن اشرافیہ کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ برہمن یو پی کی کل آبادی کا 15 فیصد سے بھی کم ہیں لیکن وہ غیر معمولی اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔ بی ایس پی کے سربراہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے برہمن اور دلتوں کا اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مل کر ریاست کی 23 فیصد آبادی بنتی ہے۔

مشرا کہتے ہیں مندر کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری ہے اور مندر کی بنیادوں کا 60، 65 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ ایک بار بنیادوں کا کام مکمل ہو گیا تو باقی حصے شروع ہوں گے۔‘

وہ کہتے ہیں ابھی تک کی 31 ارب کی جمع شدہ رقم ایک اشاریہ ایک ارب خاندانوں سے آئی ہے جس میں چار سو سے زیادہ دیہاتیوں کے لوگ شامل ہیں۔

ان کے بقول ’چند دیگر علاقوں سے جمع ہونے والے عطیات کا آڈٹ ابھی جاری ہے اور ممکن ہے اس کا نتیجہ مزید ایک یا دو ارب روپے کی صورت میں ظاہر ہو‘ لیکن وہ ابھی تک تعمیراتی منصوبہ میں خرچ کی گئی رقم کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیتے ہیں۔

پانچ فروری 2020 کو مودی نے بھارتی پارلیمنٹ میں ایک ٹرسٹ قائم کرنے کا اعلان کیا اور اسی روز وزارت داخلہ نے علامتی طور پر ایک روپیہ نقد ٹرسٹ کے حوالے کیا تاکہ تعمیراتی کام شروع کرے۔

فروی 2021 میں مودی کی ہی جماعت سے وابستہ اتر پردیش حکومت نے سالانہ بجٹ پیش کیا جس میں انہوں نے رام مندر اور ایودھیا دھام تک پہنچانے والی سڑک کی تعمیر کے لیے تین ارب روپے فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ یو پی کی حکومت نے سیاحتی سہولیات کی ترقی کے لیے بھی ایک ارب روپے کا اعلان کیا۔

لیکن اس سے ہٹ کر مندر اور اس سے منسلک کمپلیکس کے لیے زیادہ تر رقم عوامی عطیات سے جمع ہوئی۔

ٹرسٹ کے ایک رکن اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ ’گذشتہ چند مہینوں کے دوران ٹرسٹ کے بعض اراکین نے کہا ہے کہ چندے کے ذریعے جمع کی گئی اضافی رقم مندر کی مزید وسعت اور شان و شوکت پر خرچ کی جائے گی یا شہر کے دیگر تمام مندروں کی مرمت پر۔‘

وہ انڈپینڈنٹ کو بتاتے ہیں، ’تاہم ابھی حتمی اور سرکاری فیصلہ ہونا باقی ہے۔ ٹرسٹ اراکین اس بارے میں کوئی فیصلہ مستقبل میں کریں گے ، ابھی ساری توجہ اس بات کو یقینی بنانے میں صرف ہو رہی ہے کہ مندر انتہائی شاندار اور ترتیب کے مطابق ہو۔‘

بہت سے ہاتھوں سے گزرنے والی چندے کی خطیر رقم تنازعات سے پاک نہیں۔ غیر سرکاری ذرائع کی اطلاعات سے چندے کے معاملات پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے تعمیراتی مقام سے منسلک زمین کی خریداری پر کرپشن کے الزامات عائد کیے۔ انڈیا ٹوڈے نے جون میں دو ایسے زمینی ٹکڑوں کی خبر شائع کی جن کی اصل قیمت چار اشاریہ سات ملین تھی لیکن نہایت مہنگی رقم تقریباً ساڑھے تین کروڑ کے بدلے ٹرسٹ کو فروخت کی گئی۔

ایودھیا سے تعلق رکھنے والی حزب اختلاف کی جماعت سماج وادی پارٹی کے ترجمان پون پانڈے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے زمین کی خریداری میں کرپشن کی نشاندہی کی۔

پانڈے کہتے ہیں ’ایودھیا میں ایک عظیم الشان اور خوبصورت مندر بننا چاہیے، کسی کا مذہب جو بھی ہو کوئی اس کے خلاف نہیں۔ تاہم جس انداز میں دس گنا زائد رقم کے بدلے زمینوں کی خریداری کی جارہی ہے اس نے ایودھیا کو متنازع بنایا ہے۔ یہ ملک بھر کے ہندوؤں کے ایمان کے ساتھ مذاق ہے۔‘

جس طرح زمینوں کے معاہدے کیے گئے یہ ملک (کی عوام) کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے جو بھگوان رام کا پیروکار ہے، یہ بے ایمانی ہے۔ ہم سہی معنی میں بھگوان رام کے عقیدت مند ہیں اور جب سے ہم نے اس معاملے کو اٹھایا تب سے یقینی بنایا ہے کہ ایودھیا میں مندر کے لیے کوئی زمین باقاعدہ تصدیقی عمل سے گزرے بغیر نہیں بیچی جا سکتی۔ ٹرسٹ لوگوں کا اعتماد کھو چکا ہے۔‘

یو پی میں حزب اختلاف کی قومی جماعت کانگریس کے سربراہ اجے کمار للو کہتے ہیں کہ اس مقام کے رہائشی افراد ’مذہب کے نام پر مزید بیوقوف نہیں بنائے جا سکتے،‘ وہ برسر اقتدار جماعت پر کسانوں کے احتجاج ، بے روزگاری اور کرونا کی عالمی وبا سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے مندر کو استعمال کرنے کے الزام لگاتے ہیں۔

للو کہتے ہیں، ’ریاست میں صحت عامہ کا سارا ڈھانچہ بکھر گیا ہے لیکن حکومت اس پر بات کرنے سے بھاگ رہی ہے اور لوگوں کو گم راہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

مشرا مندر سے متعلق زمین خریداری میں ہونی والی کرپشن کے الزامات پر بات کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ سے کہا کہ وہ رام جنم بھومی تیرتھ کشھترا ٹرسٹ کے جنرل سیکریٹری چمپت رائے سے رابطہ کریں۔ رائے سے بار بار کال پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

رام مندر کا مسئلہ انڈیا کی سیاست میں کافی تہلکہ خیز رہا ہے اور گذشتہ چار دہائیوں سے بی جے پی نے انتخابات میں اسے بطور چال استعمال کیا۔ ہندوؤں کے تفاخر کو ازسرنو زندہ کرتے ہوئے اس سے اٹھنے والی لہر کے دوش پر سوار ہو کر اِس وقت ریاست اتر پردیش اور مرکز دونوں جگہ پر برسر اقتدار مودی کی جماعت پرامید ہے کہ مندر کی کامیابی سے تکمیل ان کے بنیادی ووٹروں کو خوش کر دے گی اور اقتدار میں رہنے کے لیے ان کا راستہ ہموار کرے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا