بابا خاکی شاہ، جس نے مجھے انصاف کا نظریہ پڑھایا

وہاڑی کے ایک مجذوب نے ایک پولیس افسر کو وہ سبق پڑھایا جو اسے بہترین ٹریننگ اکیڈمیوں میں بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔

بازار کی نکڑ پر مجھے وہی مجذوب خاکی شاہ دکھائی دیا جو ہوا میں انگلیوں کے اشارے سے کسی نادیدہ مخلوق سے گفتگو کر رہا تھا(فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیس ٹریننگ مکمل ہونے کے کے بعد بطور انچارج مہتمم تھانہ سٹی، ضلع وہاڑی میری پہلی تعیناتی تھی۔

میں 22 سال کی عمر میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم ایس سی کرنے کے بعد بذریعہ پنجاب پبلک سروس کمیشن، پنجاب پولیس میں ’ڈائریکٹ حوالدار کی بجائے ’ڈائریکٹ انسپکٹر‘ بھرتی ہوا تھا۔ ہمارا بیچ کئی حوالوں سے ایک اسپیشل بیچ تھا۔ ہمیں پنجاب گورنمنٹ نے امور تفتیش اور پبلک ڈیلنگ کی تربیت دلانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے تھے۔

سہالہ پولیس کالج راولپنڈی میں ہمارے بیچ کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے آفیسرز ٹرینگ ونگ بنایا گیا تھا۔ پنجاب کے ہر ضلع میں ہمارے لیے ’ماڈل‘ پولیس سٹیشن بنائے گئے تاکہ بوسیدہ پولیس کلچر میں تبدیلی لائی جا سکے۔

ہمیں میرٹ پر کاربند رہنے کا جنون تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید پختہ ہو رہا تھا، چنانچہ ہم نے اپنے ماتحت افسران اور سٹاف کو بھی واضح کر دیا کہ اگر کسی کی تفتیش میں انصاف میں جھول دکھائی دیا تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

سادہ الفاظ میں ہم ’زیرو ٹالرنس‘ کے اصول پر کاربند تھے۔

بہت جلد ہماری شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ جرائم پیشہ عناصر کے اندرونی سپورٹ نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ہم نے ایک دو ماتحتوں کے خلاف رپورٹیں افسران بالا کو بھجوائیں جن کے باعث انہیں پوسٹنگ سے ہاتھ دھونا پڑے۔

کیونکہ علاقہ تھانہ کے بیشتر مکین میری شکل سے واقف نہیں تھے، لہٰذا میری اسے غنیمت جانتے ہوئے اکثر فارغ اوقات میں سادہ لباس میں پیدل مارکیٹ کا رخ کرتا اور روزمرہ کی ضروری اشیا کی خریداری خود کرتا۔ ذہن میں یہ بھی تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پولیس کی سرکاری گاڑی دیکھ کر دکاندار مرعوب ہو کر ہم سے کم قیمت وصول کرے۔ جس قدر پذیرائی مل رہی تھی میرے اندر میرٹ، انصاف اور زیرو ٹالرنس کا بھوت مزید توانا ہوتا جا رہا تھا۔

ایک دن میں نے سٹی وہاڑی بازار میں اکثر ایک مجذوب کو دیکھا جس نے صرف ایک سیاہ لنگی نما تہمد باندھی ہوتی تھی اور اس کے سر پر راکھ پڑی تھی۔ پھر وہ کئی بار ادھر ادھر چلتے دکھائی دیا۔  اکثر اس کے ساتھ ایک دو کتے ضرور ہوتے۔ اس مجذوب کو لوگ خاکی شاہ کے نام سے جانتے تھے۔

ایک دن جب میں بازار سے کچھ اشیائے خورونوش خرید کر واپس گھر کی طرف آ رہا تھا تو بازار کی نکڑ پر مجھے وہی مجذوب خاکی شاہ دکھائی دیا جو ہوا میں انگلیوں کے اشارے سے کسی نادیدہ مخلوق سے گفتگو کر رہا تھا۔

جیسے ہی میں وہاں سے گزرا تو ایک آواز نے میرے پاؤں روک لیے، "بابو جی!‘

میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی مجذوب ہاتھ کے اشارے سے مجھے آپنی طرف بلا رہا تھا

میں واپس پلٹا۔ اس مجذوب کو سلام کیا تو اس نے صرف اتنا کہا کہ ’بابو جی کڑا انصاف نہیں کرتے۔‘ اور وہاں سے چل دیا۔

 بات میری سمجھ سے باہر تھی۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ شاید یہ کوئی فاترالعقل شخص ہے ورنہ ہم تو آج تک یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ لہٰذا میں نے اس مجذوب کی بات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا

رات کو جب میں اپنے بستر پر لیٹا تو وہی منظر پھر میری آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا۔ میں سوچ میں گم تھا کہ اس مجذوب نے مجھے ایسا کیوں کہا۔ میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ اگلی صبح میں نے بازار میں مختلف لوگوں سے اس مجذوب خاکی شاہ کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دی۔

ایک پرانے دوکاندار نے بتایا کہ وہ اس  مجذوب خاکی شاہ کو پچھلے چھ سات سال سے سٹی وہاڑی کے بازار میں دیکھتا آ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ’یہ نہ تو کسی سے کچھ مانگتا ہے اور نہ ہی کسی سے کچھ لیتا ہے۔ اس نے کبھی کسی سے زیادہ گفتگو بھی نہیں کی۔ سردی ہو یا گرمی، یہ اسی سیاہ چادر میں گھومتا رہتا ہے اور سخت سردی میں رات کو ہوٹل کے باہر لگے تنور کے قریب لیٹ جاتا ہے ۔

لیکن ایک بات ضرور ہے کہ یہ جب بھی بازار سے گزرتا ہے تو اردگرد کے کتے اس کے ساتھ چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔‘

میں ابتدائی معلومات لینے کے بعد واپس گھر آ گیا اور پھر اپنے معمولات زندگی میں مشغول ہو گیا، لیکن مجذوب کی وہ بات میرے دل و دماغ میں گرہ کی طرح اٹک چکی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک رات تقریباً دس بجے کے قریب میں گشت کرتے ہوئے سٹی وہاڑی بازار سے گزرا تو کوئی اکا دکا دکان کھلی تھی۔ اچانک میری نظر اس مجذوب پر پڑی جو ہوٹل کے تنور کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا اور دو کتے اس کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ اسے دیکھ کر پھر وہی بات میرے ذہن میں گردش کرنے لگی۔ میں اس مجذوب سے ملنے کے لیے بےتاب تھا تاکہ اس سے مزید استفسار کر کے اپنی الجھن دور کر سکوں۔

لیکن جب میں نے خود کو دیکھا تو فوری ملنے کا ارادہ موخر کر دیا کیونکہ ایک تو میں یونیفارم میں تھا اور دوسرا یہ کہ سرکاری گاڑی اور سٹاف بھی میرے ساتھ تھا۔ میں نے اگلے آدھ گھنٹے میں گشت ختم کی اور ڈرائیور سے کہا کہ مجھے گھر پر اتار دے۔

گھر جاتے ہی میں نے کپڑے تبدیل کیے اور بازار کی جانب نکل گیا، بازار میری رہائش گاہ سے زیادہ دور نہیں تھا چنانچہ میں چند منٹوں میں بازار پہنچ گیا۔

اس وقت بازار تقریباً بند ہو چکا تھا، چوکیدار کی  سیٹیوں کی آواز دور سے سنائی دے رہی تھی اور کوئی اکا دکا راہگیر گزرتا دکھائی دے رہا تھا۔ اگلے چند منٹوں میں، میں ہوٹل کے اس تنور پر پہنچ چکا تھا

مجذوب خاکی شاہ وہیں موجود تھا لیکن اب وہ نیم خوابیدہ حالت میں تھا وہی دو کتے اس کے قریب لیٹے ہوئے تھے۔ مجھے خدشہ تھا کہ شاید مجذوب وہاں موجود نہیں ہو گا مگر اسے سامنے دیکھ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔ جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ’جی بابو جی، کیسے آئے؟‘

میں اسی انتظار میں تھا کہ وہ مجھ سے مخاطب ہو۔ میں نے اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت چاہی

اس نے مسکراتے ہوئے تنور کے پاس پڑی ہوئی پٹ سن کی بوری کھینچ کر اپنے پاس کی اور مجھے کہا کہ ’بابو جی ہمارے پاس تو یہی کرسی ہے اگر آپ بیٹھنا چاہو تو ست بسم اللہ۔‘

میں نے شکریہ ادا کیا اور مجذوب کے پاس اس بوری پر بیٹھ گیا۔ مجذوب نے اپنی انگلیوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے پھر کسی نادیدہ مخلوق سے گفتگو شروع کر دی۔

میں نے کہا، ’بابا جی آپ نے اس دن مجھے روک کر کہا تھا کہ ’انصاف نہیں کرتے‘ یہ بات میرے پلے نہیں پڑی۔‘

وہ مجذوب فوراً میری طرف متوجہ ہوا اور کڑک لہجے میں کہنے لگا، ’میں نے انصاف سے نہیں ’کڑے انصاف‘ سے منع کیا تھا۔‘

میں نے کہا، ’بابا جی، معذرت کے ساتھ، میں آپ کی بات کو نہیں سمجھ سکا۔‘

مجذوب نے کہا، ’جھلیا، جو بےگناہ ہو وہ تو ہوتا ہی ہےگناہ ہے، اسے تو چھوڑنا ہی چھوڑنا ہوتا ہے لیکن جو گنہگار بھی ہو اس کے ساتھ بھی رعایت کا معاملہ کرتے ہیں۔‘

اب میرا جسم ساکت ہو چکا تھا۔ اندر کے بت ایک ایک کر کے ٹوٹ رہے تھے میں کسی بچے کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ میرا جسم بے جان ہو چکا تھا۔

مجذوب نے آگے بڑھ کر اپنی سیاہ چادر کے کونے سے میرے آنسو صاف کیے اور مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہنے لگا کہ ’آپ پاک پتن شریف سے نہ ہوتے تو میں کبھی آپ سے یہ نہ کہتا۔ بس کڑے انصاف سے بچنا چاہیے، ورنہ بندہ تو بے دھیانی میں پاؤں کے نیچے آ کر کچلی ہوئی چیونٹی کا حساب نہیں دے سکتا۔‘

اب وہ پیغام میرے اندر سرایت کر چکا تھا۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا، ’بابا جی آپ اللہ کے بندے ہیں، بس میری معافی کے لیے دعا فرما دیں۔‘

مجذوب نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہا، ’بس اب جاؤ۔‘

واپس گھر آتے ہوئے ایک عجیب اطمینان میرے اندر بھر چکا تھا میری سوچ بدل چکی تھی۔

اس کے بعد میں نے دنیا کے مختلف ممالک کے کریمنل جسٹس سسٹمز کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے ادراک ہوا کہ سزا کا نظام انسانوں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے بنایا گیا ہے۔ دنیا بھر میں سزائیں اصلاحی (Reformative) ہوتی ہیں تاکہ مجرم جو ذہنی طور پر بیمار ہوتا ہے اس کی اصلاح کر کے اسے دوبارہ معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جائے۔ سزائیں محض تعزیری (Punitive)

نوعیت کی نہیں ہوتیں۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سے جھگڑے اور تنازعات دونوں فریقین کو سننے کے بعد بات چیت سے حل ہو سکتے ہیں۔ جیسے پہلے زمانوں میں پنچایت کے ذریعے بہت سے معاملات حل کر لیے جاتے تھے۔

اس کے بعد میں جہاں جہاں بھی تعینات رہا میں نے حتی المقدور کوشش کی کہ تھانے میں رپورٹ ہونیوالے چھوٹے موٹے تنازعات کو ’کمیونٹی پولیسنگ‘ کے ذریعے حل کر لیا جائے اور مجھے اس حوالے سے بہت سی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔

میں نے تھانہ سٹی وہاڑی تعیناتی کے دوران کئ مرتبہ اس مجذوب خاکی شاہ سے ملنے کی کوشش کی لیکن میری ملاقات ان سے دوبارہ نہ ہو سکی۔ پھر میرا تبادلہ وہاڑی سے ملتان ڈسٹرکٹ ہو گیا

تقریباً دو سال کے بعد ایک مقدمے کی سماعت کے دوران شہادت کے لیے مجھے وہاڑی آنا پڑا۔ عدالت میں شہادت ریکارڈ کروانے کے بعد میں نے ایک پرانے دوست کے ساتھ وہاڑی بازار میں واقع ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس کے بعد میں وہاڑی بازار میں ہی ایک حجام شفیق (جس کے پاس اکثر میں اپنے اور بچوں کے بال ترشوانے کے لیے آیا کرتا تھا) کی دکان پر آ گیا اور اسے بال سیٹ کرنے کا کہا۔

شفیق مجھے اتنے عرصے کے بعد وہاڑی بازار دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اسے لگا کہ شاید میری تعیناتی دوبارہ اسی تھانے میں ہو گئی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ ’بھائی میں یہاں صرف ایک مقدمے کے سلسلے میں آیا ہوں۔‘

حجام بہت خوش اخلاق لڑکا تھا۔ اس نے بڑی محبت کے ساتھ میرے بال تراشے اور اسی دوران وہ مجھ سے پوچھے بغیر اپنے اسسٹنٹ کو چائے لانے کے لیے بھیج چکا تھا۔ بال سیٹ کروانے کے بعد جب میں جانے لگا تو اس نے بتایا کہ ’سر چائے آ رہی ہے اس کے بغیر آپ کو نہیں جانے دوں گا۔‘

اس نے یہ بات اس محبت سے کہی کہ میں وہاں بیٹھنے پر مجبور ہو گیا۔ اس دوران میں اس سے مختلف لوگوں کے بارے میں حال احوال لیتا رہا۔ اچانک میرے ذہن میں بابا خاکی شاہ کا خیال آیا۔ می ںنے شفیق سے پوچھا کہ ’اس مجذوب خاکی شاہ کو کہیں دیکھا ہے؟‘

اس نے کہا، ’بابے کا تو پچھلے سال دسمبر میں انتقال ہو گیا تھا۔‘

میں نے تفصیل پوچھی تو شفیق نے بتایا کہ ’وہ دسمبر میں میرے حمام پر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک نیا سلا ہوا لٹھے کا سوٹ تھا۔ وہ حمام میں کافی دیر نہاتا رہا، پھر اس نے مجھ سے سر پر مشین پھروائی، داڑھی سیٹ کروائی اور یہیں حمام میں اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور سگریٹ کی خالی ڈبیا پر لکھا ہوا فون نمبر مجھے دیا اور کہا کہ یہ اس کے بیٹے کا نمبر ہے اسے فون کر کے اس پتے پر آنے اور اسے لے جانے کا کہوں۔‘

’سر جی میں نے پی سی او سے کال کر کے اس نمبر پر اطلاع دی اور انہیں اپنی دکان کا پتہ دیا۔ شام تک دو بڑی لینڈ کروزر گاڑیاں اسے لینے کے لیے آئی تھیں۔

’سر جی، اس کا نام خاکی شاہ نہیں تھا۔ اس کے بیٹے نے بتایا کہ اس کا نام سیٹھ مراد حسین تھا اور اس کا فیصل آباد میں کپڑے کا کارخانہ تھا۔ جو اب اس کے بیٹے چلاتے تھے۔ بابے خاکی شاہ کے بیٹے نے اپنا کارڈ اور نمبر بھی مجھے دیا تھا اور جاتے ہوئے زبردستی پانچ ہزار روپے بھی میری جیب میں ڈال گیا تھا، اور جاتے وقت یہی کہہ رہا تھا، ’میری بارات آنے والی ہے، مجھے سسرال جانا ہے۔‘

بابا خاکی شاہ کے یہاں جانے کے تقریباً دو ماہ کے بعد میں  فیصل آباد گیا تھا اور اس فیکٹری کے ایڈریس پر بھی گیا تھا۔ بابا خاکی شاہ کے بیٹوں نے بتایا کہ جس رات وہ انہیں لے کر گھر فیصل آباد پہنچے اسی رات صبح تہجد کے وقت ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ میں آبدیدہ ہو کر اس کی باتیں سن رہا تھا

مجھے سمجھ آ رہی تھی کہ وہ مجذوب کس بارات اور کون سے سسرال کی بات کر رہا تھا۔

کوئی نہیں جانتا کہ وہ فقیر روحانی طور پر کس مقام پر فائز تھا۔ لیکن وہ میرا محسن تھا اس نے بروقت میری رہنمائی کی تھی۔ اگر اس سے ملاقات نہ ہوتی تو شاید میرا پولیس کے فرائض اور انصاف کے بارے میں نظریہ وہ نہ ہوتا جو اب ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی