تھانہ سیتل ماڑی میں اندھے قتل کی لرزہ خیز داستان

اس قتل کا ذکر قومی اسمبلی تک بھی پہنچ گیا جس کے بعد مجھ پر شدید دباؤ پڑ گیا کہ جلد از جلد اسے حل کروں، مگر قاتل کا کوئی سراغ ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔

(پکسا بے)فائل فوٹو

24 رمضان المبارک کو افطار سے تقریباً ایک گھنٹہ بعد میں تراویح ڈیوٹی چیک کرنے کے لیے تھانے سے نکل رہا تھا کہ میری گاڑی میں لگے وائرلیس سیٹ پر کسی مدرسے میں قتل کے وقوعے کی اطلاع دی جانے لگی۔

اطلاع سنتے وقت میرا ذہن کہیں اور تھا، جیسے ہی ’سوفٹی روڈ‘ کا نام آیا میں چونک گیا کیونکہ یہ علاقہ ملتان میں میرے تھانے سیتل ماڑی کی حدود میں واقع تھا۔

عید کی آمد آمد تھی۔ اس دوران روزمرہ کے معمولات کے ساتھ ساتھ مساجد میں نماز ڈیوٹی، تراویح ڈیوٹی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ سحر، افطار اور تراویح کے وقت، مساجد پر مامور ڈیوٹی کو چیک کرنا اور بذریعہ وائرلیس افسران بالا کو بروقت مطلع کرنا، ایس ایچ او کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

جوں جوں عید قریب آنے لگتی ہے اس ذمہ داری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بازاروں میں خریداروں کا رش بڑھنے لگتا ہے اور کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے یہاں بھی پولیس فورس تعینات کی جاتی ہے۔

اس دوران اپنے علاقے کی حدود میں قتل کی واردات ہو جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایس ایچ او پر کیا گزرتی ہو گی۔ اس لیے میں نے ڈرائیور کو فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچنے کی ہدایت کی۔

مذکورہ مدرسہ تھانہ سیتل ماڑی سے بذریعہ گاڑی پانچ منٹ کی مسافت پر تھا، لہٰذا میں بہت جلد جائے واردات پر پہنچ گیا۔

یہ ایک نیا تعمیر شدہ مدرسہ تھا جس کے ساتھ ملحقہ مسجد تھی جس کا دروازہ اکثر کھلا رہتا اور نماز کے اوقات میں نمازیوں کی آمد و رفت جاری رہتی۔

دریافت پر ایک مدرسے کے چوکیدار (جو اسی علاقے کا رہائشی تھا) نے بتایا کہ یہ مدرسہ سعودی پلٹ تاجر حاجی عبدالغنی کا ہے جو گذشتہ چار سال سے اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے، یہاں مسلک سے بالاتر، صرف قرآن اور حفظ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے یہاں اسی علاقے کے چند بچے زیر تعلیم ہیں۔

چوکیدار نے بتایا کہ ’حاجی عبدالغنی بہت تگڑے زمیندار اور خدا ترس انسان ہیں۔ اہل علاقہ ان کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اہل علاقہ مسجد کے ساتھ ملحقہ مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز عشا کے بعد میں مسجد کا بیرونی دروازہ اندر کی طرف سے بند کر دیتا ہوں تاکہ رات کو کوئی چور مسجد کے پنکھے یا دیوار پر لگی گھڑیاں نہ اتار لے۔

’آج حسب معمول جب میں مسجد کا دروازہ بند کرنے کے لیے آیا تو اندر بنے غسل خانوں میں سے پانی کی آواز آ رہی تھی۔ مجھے لگا کہ شاید کوئی نمازی وضو کرتے ہوئے غلطی سے پانی کا نل بند کرنا بھول گیا ہے۔ میں نے جب اس غسل خانے کا دروازہ کھولنا چاہا تو وہ اندر سے بند تھا۔ میں نے بہت آوازیں دیں مگر اندر سے کوئی آواز برآمد نہ ہوئی تو میں نے مدرسے کے متولی اور قاری کو بتایا جو فوراً وہاں پہنچ گئے۔

’یہ پانچ غسل خانے ساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے اور ان سب کی اندرونی دیواریں ہوا اور روشنی کی ترسیل کے لیے تین چوتھائی اٹھائ گئی تھیں۔ میں نے ساتھ والے غسل خانے میں جا کر جب دیوار کے اوپر سے اس متعلقہ غسل خانے میں جھانکا تو میری چیخ نکل گئی۔ وہاں ایک نو دس سالہ بچے کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی۔ اور پانی کا نل چل رہا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مسجد کے متولّی نے فوراً حاجی صاحب کی ہدایت پر 15 پر کال کی اور ابھی آپ آ گئے ہیں۔‘

میں نے اس غسل خانے سے ملحقہ غسل خانے میں اپنے ایک نوعمر پھرتیلے کانسٹیبل کو اتارا تاکہ اندر سے دروازہ کھول سکے۔

جب دروازہ کھلا تو نیلے کپڑوں میں ایک نو عمر لڑکے کی لاش پڑی ہوئی تھی (بعد میں پتہ چلا کہ اس کا نام ساجد تھا)۔ اس کا گلا آدھا کٹا ہوا تھا اس کے تمام کپڑے گیلے تھے۔ جب لاش کو اٹھوایا گیا تو وہیں سے آلہ قتل یعنی ایک چھری پڑی مل گئی۔

مجھے جائے وقوعہ، بچے کی لاش اور طریقہ واردات دیکھ کر یہی شک ہوا کہ یہ بدفعلی کا کیس ہو سکتا ہے جس میں بدنامی کے ڈر سے بچے کو قتل کر دیا گیا ہو۔

میں نے سی پی او ملتان منیر چشتی صاحب کو بذریعہ فون وقوعہ کی تمام تفصیلات سے آگاہ کیا تو انہوں نے میرے خدشے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ظاہری پوسٹ مارٹم کی تاکید کی۔

میں نے فوری طور پر بچے کی لاش اپنے تھانہ کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر امام دین کے ساتھ ظاہری پوسٹ مارٹم کے لیے نشتر ہسپتال روانہ کی اور ساتھ ہی میں نے ایمرجنسی میڈیکل آفیسر نشتر اسپتال ڈاکٹر یونس بزدار کو فون کر کے اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔

بچے کی لاش ہسپتال روانہ کر کے میں موقع پر تفتیش میں مصروف ہو گیا۔ میں نے جائے وقوعہ کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ آنے جانے والے راستوں کو دیکھا۔

مدرسے کے اندر سے ایک چھوٹی سا راستہ مسجد کی طرف آتا تھا جہاں سے بچے نماز پڑھنے کے لیے یا کبھی کبھار آمد و رفت کے لیے اس راہداری کو استعمال کرتے تھے۔

مسجد کی عقبی دیوار نہایت چھوٹی اور شکستہ تھی۔ دیوار کے پیچھے ایک خالی پلاٹ تھا جس کی چار دیواری اور گیٹ لگا ہوا تھا۔ یہ پلاٹ بھی حاجی صاحب کی ملکیت تھا۔ رات کا وقت ہو چکا تھا اور پلاٹ میں کافی اندھیرا تھا۔ میں نے ٹارچ لی اور اپنے گن مین کے ہمراہ اس پلاٹ میں اتر گیا۔ پلاٹ میں ایک پرانا درخت تھا اور زمین پر بے ترتیب گھاس اگی ہوئی تھی۔

اچانک میرے گن مین کی نظر ایک گیلے کپڑے پر پڑی۔ اس نے مجھے آواز دی میں نے کپڑا اٹھایا تو وہ ایک گیلی قمیض تھی جس کے بازو خون آلود تھے۔ یہ یقیناً اس قاتل کی تھی جس نے بھاگتے ہوئے خون آلود قمیض مسجد کے عقب میں خالی پلاٹ میں پھینک دی تھی۔ میں نے قمیض اٹھائی۔ بازؤں پر لگے خون کے دھبے خشک ہو چکے تھے۔

اسی اثنا میں مجھے ڈاکٹر یونس بزدار کی کال موصول ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ کیس محض قتل کا کیس ہے، بچے کے ساتھ نہ بدفعلی ہوئی اور نہ ہی بدفعلی کی کوشش ہوئی، کیونکہ بچے کی شلوار کا ازار بند مضبوطی سے کسا ہوا تھا۔

مجھے وقتی طور پر دھچکہ سا لگا کیوں کہ میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ اب تفتیش کا رخ تبدیل ہو چکا تھا۔ تاہم آلۂ قتل اور قاتل کی خون آلود قمیض کی موقعے سے برآمدگی میرا حوصلہ بڑھا رہی تھی کہ میں جلد اصل ملزمان تک پہنچ جاؤں گا۔

میں نے مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ کی فہرست لی اور مدرسہ کے حاضری رجسٹر بھی قبضے میں لے لیے۔ جائے وقوعہ سے ملنے والی قمیض کسی 20 /22 سالہ لڑکے کی تھی۔

مدرسے کی فہرست اور حاضری رجسٹر کے مطابق مدرسے میں 17 طالب علم زیر تعلیم تھے جن میں 15 طالب علم اقامتی تھے جو قریبی دیہات سے آئے تھے۔ 12 سال سے زائد عمر کے طلبہ فقط چار تھے جن میں دو طالب علم حافظ حنان اور حافظ منان، مالک مدرسہ حافظ عبدالغنی کے سگے بھتیجے تھے۔ حافظ منان کی عمر 13 سال جبکہ حافظ حنان کی عمر 15 سال تھی۔ دیگر دو طلبہ کی عمریں 16 اور 17 سال تھیں۔

میں نے مدرسے کے مہتمم حاجی عبدالغنی، مدرسے کے قاری محمد یونس اور چوکیدار سراج دین سے الگ الگ پوچھ گچھ کی اور ان کے تفصیلی بیانات قلمبند کیے۔

مقتول ساجد ایک یتیم بچہ تھا جس کی کفالت اس کا چچا کر رہا تھا جو اپنی غربت کے باعث ایک سال قبل اسے مدرسے میں چھوڑ گیا تھا۔ میں نے مدرسہ میں اقامتی 15 طلبہ سے فرداً فرداً پوچھ گچھ کی لیکن مجھے کوئی سراغ میسر نہ آ سکا۔

میں نے جائے وقوعہ سے ملنے والی قمیض دونوں 12 سال سے زائد عمر کے طلبہ کو پہنائی مگر وہ ان کی جسامت کے اعتبار سے بہت بڑی تھی۔ مدرسے کے قاری کو جب قمیص پہنائی تو بظاہر لمبائی کے اعتبار سے پوری تھی لیکن بازو نسبتاً چھوٹے تھے۔

بعض کیسوں میں پولیس پر اوپر سے شدید دباؤ پڑنا شروع ہو جاتا ہے کہ  ملزموں کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے، 36 گھنٹوں میں پکڑا جائے، وغیرہ۔ حالانکہ ایسے موقعوں پر پولیس پر بلاوجہ دباؤ سے وہ جلدبازی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جس سے الٹا کام بگڑ بھی سکتا ہے۔

 

اگلی صبح جب اس وقوعے کی خبر اخبارات میں چھپی تو ہر طرف اس کے چرچے شروع ہو گئے۔ حتیٰ کہ قومی اسمبلی میں بھی اس کی بازگشت پہنچ گئی اور وہاں بھی اس وقوعے کے حوالے سے سوال اٹھائے گئے۔ سی پی او صاحب کو اسمبلی کے اگلے اجلاس میں پیش ہو کر اس وقوعہ کی تفتیش سے متعلقہ رپورٹ پیش کرنے کے احکامات دیے گئے

پولیس کے لیے یہ مرحلہ بہت جاں گسل ہوتا ہے جب کوئی جرم عوامی ہو کر اس کا چرچا گلی کوچوں تک پہنچ جائے۔ ایک طرف تو آپ پوری کا دماغ پوری طرح سے تفتیش اور تحقیقات میں مگن ہوتا ہے، جس کے لیے پوری طرح کا سکون اور تحمل چاہیے، اوپر سے شدید دباؤ پڑنا شروع ہو جاتا ہے کہ  جلدی کرو، جلدی کرو، ملزموں کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے، 36 گھنٹوں میں پکڑا جائے، وغیرہ۔ حالانکہ ایسے موقعوں پر پولیس پر بلاوجہ دباؤ سے وہ جلدبازی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جس سے الٹا کام بگڑ بھی سکتا ہے۔  

اسی دوران ایک معاملہ بھی اٹھ کھڑا ہوا جس سے ملتان پولیس پر تنقید اور دباؤ میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ کیونکہ قتل مدرسے میں ہوا تھا لہٰذا اسے فرقہ واریت کا رنگ دیا جانے لگا۔

میں نے مدرسے کے مہتمم حاجی عبدالغنی سے ملاقات کی اور انہیں ان کے دونوں بھتیجوں کو ساتھ تھانے لے جانے کی اجازت چاہی تاکہ ان سے زیادہ زیادہ سے معلومات حاصل کر کے مقدمے کا جلد از جلد سراغ لگایا جا سکے۔

حاجی صاحب نے نہ صرف اپنے دونوں بھتیجوں کو ساتھ لے جانے کی اجازت دی بلکہ یہاں تک کہا کہ اس مقدمے کو حل کرنے اور قاتلوں تک پہنچنے کے لیے اگر میرے گھر کے افراد کی ضرورت ہو تو انہیں بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ میں نے حاجی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دلایا کہ بہت جلد اصل قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لاؤں گا۔

میں نے دونوں لڑکوں حافظ حنان اور منان کو تھانے میں ہی ایک کمرہ دے دیا اور آتے جاتے انہیں بلا کر مدرسے میں زیر تعلیم طلبہ اور اس کیس سے متعلقہ مشتبہ افراد سے متعلق پوچھ گچھ کرتا رہتا۔

حاجی صاحب کا بڑا بھتیجا حافظ حنان بالکل اللہ میاں کی گائے تھا جو زیادہ وقت تھانے کے کمرے میں سویا رہتا اور جب اس سے کچھ پوچھا جاتا تو اس کے جوابات بچگانہ نوعیت کے ہوتے۔ اس کے بالکل برعکس اس کا چھوٹا بھائی حافظ منان، جس کی عمر 13 سال تھی، وہ انتہائی شاطر اور ذہین لڑکا تھا اور سارا دن تھانے کے اندر گھومتا رہتا اور مسلسل جاگتا رہتا۔

وقوعے کو پانچ روز گزر چکے تھے اور ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ میں نے شام کے وقت حافظ منان کو اپنے کمرے میں بلایا اور اسے پاس بٹھا کر اس سے مدرسے اور مہتمم مدرسہ حاجی صاحب کے حوالے سے پوچھ گچھ کرنے لگا۔

اچانک اس نے انتہائی پر اعتماد لہجے میں کہا، ’پولیس یہ کیس کبھی حل نہیں کر سکے گی۔‘

میں یہ سن کر دنگ رہ گیا۔ مجھے اس کے بے ساختہ لہجے پر حیرت ہوئی۔ میں نے وجہ جاننا چاہی کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے؟

حافظ منان نے کہا، ’بالکل اسی نوعیت کے دو واقعات پہلے رونما ہو چکے ہیں مگر پولیس ان کا کوئی سراغ نہیں لگا سکی۔‘

میرے مزید کریدنے پر اس نے بتایا کہ ’ایک وقوعہ 1996 دسمبر میں ہوا تھا جب ہمارے گاؤں کا ایک نوجوان جو نشہ کرتا تھا لاپتہ ہو گیا۔ اسے دو تین دن تک ڈھونڈتے رہے لیکن اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ چوتھے دن صبح ہمارے گاؤں کے نالے میں اس کی لاش اوندھے منہ پڑی تھی۔ جب لاش کو سیدھا کیا گیا تو اس کا گلا چھری سے کٹا ہوا تھا۔ تھانہ سیتل ماڑی کی پولیس اس کا کوئی سراغ نہ لگا سکی۔‘

اس وقت میرا ذہن بجلی کی رفتار سے دوڑ رہا تھا اور میں اس کی بتائی ہوئی ساری تفصیلات کو اپنی ڈائری میں لکھتا چلا گیا۔

دوسرے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ ’ستمبر 2001 میں ہمارے گاؤں کے ایک شخص رشید گجر کے ہاں فیصل آباد سے مہمان آیا۔ رات دس بجے رشید گجر اپنے موٹر سائیکل پر اس مہمان کو لاری اڈہ ملتان فیصل آباد کی بس پر سوار کروا کر واپس گھر آ گیا۔ اگلی صبح جب وہ گھر سے باہر نکلا تو اسی مہمان کی لاش اس کے گھر کے سامنے خالی پلاٹ میں پڑی تھی اور اس کا گلا کٹا ہوا تھا۔ اس کا مقدمہ بھی تھانہ سیتل ماڑی کی پولیس حل نہیں کر سکی۔‘

میں نے منان کو واپس کمرے میں بھیج دیا، اور فوری طور پر محرر کو بلوا کر 1996 اور 2001 کے ایف آئی آر رجسٹر منگوائے اور متعلقہ مہینوں کے ریکارڈ کی چھان بین کرنے لگا۔ میری حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ واقعی دونوں واقعات کی ایف آئی آرز تو موجود ہیں لیکن دونوں مقدمات کی فائلیں عدم پتہ ہونے کی وجہ سے بند کر دی گئی ہیں۔

میں تھانے کے باہر لان میں ٹہلنے لگا۔ میرے ذہن میں سوالات برہم مکھیوں کی بھنبھنا رہے تھے۔ مجھے حافظ منان کی معلومات پر حیرت تھی۔ 13 سال کا بچہ جو مدرسے میں زیر تعلیم ہے، اسے قتل جیسے سنگین واقعات میں اس قدر دلچسپی کیسے ہو سکتی ہے کہ دونوں واقعات اسے پوری جزئیات کے ساتھ یاد ہوں اور وہ ان کے سرے آپس میں جوڑنے کا بھی اہل ہو؟

میں نے ذہن میں ایک پلان ترتیب دیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔

میں نے محرر سے کہہ کر جائے واردات سے ملنے والی قمیض منگوا لی اور حافظ منان کو اچانک بلوا کر قمیض پہنائی۔ قمیض ہر لحاظ سے اس کی پیمائش کے عین مطابق تھی۔ میں نے محرر کو کمرے سے باہر بھیجا اور غصے کی حالت طاری کر کے کھڑا ہو گیا۔

میں نے اسے پر اعتماد لہجے میں کہا، ’منان، مجھے پتہ چل گیا ہے کہ یہ قتل تمہی نے ہی کیا ہے، اگر تم مجھے سارا قصہ خود بتا دو تو میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دوں گا، ورنہ تمہاری کوئی بات ہرگز نہیں سنی جائے گی۔‘

اگر کوئی اور 13 سالہ لڑکا ہوتا تو اس پر یہ سن کر کپکپی طاری ہو جاتی، مگر آپ کو بھی یہ جان کر حیرت ہو گی کہ نہ صرف وہ اطمینان سے بیٹھا رہا بلکہ الٹا اس نے مجھ سے سوال پوچھنا شروع کر دیے۔

’تھانے دار صاحب، آپ کے پاس قمیص فٹ ہونے کے علاوہ کیا ثبوت ہے کہ یہ قتل میں نے کیا ہے؟‘

میں نے اپنے ترتیب شدہ پروگرام کے تحت اسے کہا، ’منان بیٹا، تمہیں پتہ ہے آج جمعرات ہے۔ میں ہر جمعرات کو نماز مغرب کے بعد سیاہ کپڑا سر پر لے کر ایک خاص قسم کا وظیفہ کرتا ہوں جس کے بعد میرے سامنے قاتل کی تصویر آ جاتی ہے۔ آج بھی میں نے اس کیس کے حوالے سے وہی وظیفہ کیا اور تمہاری تصویر میرے سامنے آ گئی ہے۔‘

حافظ منان کی استقامت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس نے فوراً اگلا سوال داغ دیا، ’فرض کریں اگر قتل لاہور سے کرائے کے قاتل منگوا کر کیا گیا ہو تو پھر آپ قاتل کی شناخت کیسے کریں گے؟‘

اس سوال نے میرے ہوش اڑا دیے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی جوابی جرح نے میرے قدم اکھاڑ دیے۔  

میں نے سوچا کہ اگر اس موقع پر میں نے اپنے حواس قائم نہ رکھے اور اسے بھرپور جواب نہ دیا تو یہ صاف مکر جائے گا اور یہ کیس مزید الجھن کا شکار ہو جائے گا۔

میں نے پر اعتماد لہجے میں کہا، ’اگر کوئی کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کرواتا ہے تو وظیفے میں اس شخص کا چہرہ نظر آتا ہے جس نے قاتل منگوائے ہوں۔‘ میں نے ساتھ ہی اسے کہا کہ ’اب میرے پاس ضائع کرنے کے لیے مزید وقت نہیں لہٰذا وہ تھرڈ ڈگری کے لیے تیار ہو جائے اور اب کوئی رعایت نہیں ہو گی۔‘

یہ وہ لمحہ تھا جب حافظ منان نے زبان کھول دی۔ اس نے واردات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’میرا تایا حاجی عبدالغنی طویل عرصے تک سعودی عرب میں کاروبار کرتا رہا اور اس نے کروڑوں روپے کمائے۔ سعودی عرب سے واپسی پر اس نے کئ مربع اراضی خریدی اور بعد میں یہ مسجد اور مدرسہ بنوایا، جبکہ میرا والد سبزی منڈی میں سبزی فروش ہے جو مکمل طور پر میرے تایا کے زیر اثر ہے۔

’میرے تایا حاجی صاحب کے بچے انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں جبکہ اس نے ہمیں دونوں بھائیوں کو زبردستی اپنے مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ مدرسہ بند ہو جائے اور ہماری جان چھوٹ جائے۔ اس مدرسے کو بدنام کرنے کے لیے میں نے بقر عید پر منگوائی گئی چھری کو گھر سے اٹھایا اور اسے مدرسے کے کچن میں چھپا دیا۔

’رات کو اکثر بچے یہاں کچھ دیر کے لیے چھپن چھپائی کھیلتے تھے۔ وقوعہ کی رات صرف دو بچے مسجد میں کھیل رہے تھے۔ میں نے چھری اپنی شلوار کے نیفے میں چھپائی اور چپکے سے مسجد کے اندر چھپ کر کھڑا ہو گیا۔ جیسے ہی ساجد واش روم کی جانب گیا تو میں نے پھرتی سے اسے اندر دھکا دیا اور اندر سے دروازہ بند کر کے بغیر وقت ضائع کیے اس کی گردن پر چھری پھیر دی اور ساتھ ہی میں نے پانی کا نل پوری طرح کھول دیا تاکہ پانی کے شور سے کسی کو شک نہ ہو۔

’اس کے بعد میں دیوار پھلانگ کر دوسرے باتھ روم میں داخل ہوا۔ میری قمیض کے بازو خون سے بھر چکے تھے میں نے قمیض اتاری اور جاتے ہوئے مسجد کے ساتھ تاریک خالی احاطے میں پھینک دی۔‘

 میں اس سفاک قاتل کے قتل کی تفصیلات سن رہا تھا اور میرا خون کھول رہا تھا کہ ابھی اسے زمین میں زندہ گاڑ دوں لیکن قانون کے محافظ ہونے کے ناطے مجھے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اسے قانون کے حوالے کرنا تھا۔

میں اس کی نشاندہی پر اس قمیض کے ساتھ کی شلوار اس کے گھر سے برآمد کی۔ جس درزی نے ان کپڑوں کی سلائی کی تھی، اس کا تصدیقی بیان بھی ریکارڈ کر لیا۔  

مقدمے کی تمام کڑیاں مل گئی تھیں۔

اگلے روز سی پی او ملتان منیر چشتی صاحب نے اس وقوعہ کی تفتیش کے حوالے سے پریس کانفرنس کی اور تفتیشی ٹیم کو انعامات سے نوازا۔ اللہ کا کرم ہے کہ تمام تر سیاسی اور عوامی دباؤ کے باوجود یہ اندھا قتل بہت کم وقت میں ٹریس ہو گیا۔

نوٹ: بعض جگہوں پر نام تبدیل کر دیے گئے ہیں، البتہ تفصیلات اصل وقوعے کے مطابق ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی