دنیا کی سب سے ڈراؤنی فلم کون سی ہے؟

1955 میں پہلی بار نمائش پذیر ہونے والی فلم ’ایڈنبرا‘ آج بھی سامعین کے دلوں میں کیوں اس قدر خوف بھر دیتی ہے اور جدید سنسنی خیز فرانسیسی فلموں پر اس کے کتنے گہرے اثرات ہیں؟

لے دیابولیک کی دو مرکزی کردار (فیئریوز: Cinédis)

ہنری جورجس کلوزو کی دہشت انگیز فلم ایڈنبرا فلمی میلے میں گذشتہ اتوار کو دکھائی گئی۔ 1955 میں پہلی بار نمائش پذیر ہونے والی فلم آج بھی سامعین کے دلوں میں کیوں اس قدر خوف بھر دیتی ہے اور جدید سنسی خیز فرانسیسی فلموں پر اس کے اثرات کتنے گہرے ہیں؟

جب فرانسیسی ہدایت کار ہنری جورجس کلوزو اپنی غیر روایتی نفسیاتی لرزہ خیز فلم ’لے دیابولیک‘ (1955) بنا رہے تھے تو ان کی منشا تھی کہ فلم کے سیٹ پر جس قدر ممکن ہے ماحول زیادہ سے زیادہ تلخ ہو۔

مبینہ طور پر انہوں نے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ عملے کے سامنے ایسی مچھلی رکھ دی جسے کی تاریخ فروخت کافی پہلے گزر چکی تھی۔

اس واقعے کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن فلم کے آغاز میں ایک منظر کے دوران ہدایت کار کی بیوی کیمرے پر اس طرح دکھائی گئی کہ وہ اپنے سامنے پڑی خوراک پر قے کرنی والی ہے جو اسے زبردستی کھانے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

فلم میں ویرا کلوزو ایک خوبصورت لیکن نحیف کرسٹینا ڈیلاسیل کا کردار ادا کرتی ہیں جن کے بے ڈھنگے اور جھگڑالو شوہر مشل (پال موریس) پیرس کے قریب ایک ناگوار اقامتی اسکول کے انتظامی سربراہ ہیں۔

یہ سکول کرسٹینا کی ملکیت ہے لیکن وہ پوری طرح اپنے شوہر کے تابع ہیں۔ حتی کہ وہ گھٹیا اور بیزار کن معلمہ نکول (سمون سینورے) کے ساتھ ان کا سر عام معاشقہ بھی خامشی سے برداشت کرتی ہیں۔

جب دوپہر کے کھانے پر گلی سڑی مچھلی سامنے رکھی جاتی ہے تو مشل کرسٹینا کو آخری لقمہ تک کھانے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ حکم دیتے ہوئے کہتا ہے ’نگلو نگلو۔‘ وہ قے کرنے کے لیے بالکل تیار لگتی ہے لیکن کرتی ہوبہو وہی ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔

2003 میں ایڈنبرا انٹرنیشنل فلم فیسٹول کے منتظمین نے کلوزو کی یاد میں دیگر چیزوں کے علاوہ لے دیابولیک کی نمائش بھی کی اور اسے ’دنیا بھر میں ابھی تک بنائی گئی خوفناک ترین فلموں میں سے ایک‘ قرار دیا۔

ممکن ہے ان کی بات بالکل درست ہو لیکن صحیح معنوں میں دراصل یہ ’ہارر‘ فلم ہے ہی نہیں۔ مگر فلم کی انتہائی ڈراؤنی فضا اور غیر روایتی پن سے انکار ممکن نہیں۔

یہ وہ خصوصیات ہیں جو ہدایت کار کی اپنی ذات کا حصہ تھیں۔ وہ گرم مزاج اور نہایت خود پسند انسان تھے جنہیں اپنے ساتھیوں کو زچ کر کے کام نکلوانے کا ہنر آتا تھا۔

کلوزو کی 1960 میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’لا ویریتے‘ سے کیریئر کی شروعات کرنے والی برجیٹ باردو ان کے بارے میں کہتی ہیں ’ایک منفی انسان جو خود سے اور اپنے اردگرد موجود دنیا سے خفا رہتے۔‘

ان کے سوانح نگار کرسٹوفر لوئڈ ان کے طریقہ کار کا ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنے اداکاروں کی خوشنودی حاصل کرنے اور بالعموم ان سے بہترین کام لے لینے میں کامیاب ہو جاتے تھے ’لیکن اکثر و بیشتر ابتدا میں خوشگوار تعلق آخر تک سخت محاذ آرائی اور خاموش عداوت میں بدل چکا ہوتا۔‘

کلوزو نے اپنی بیماری اور بری قسمت کے ہاتھوں خود ایک تلخ زندگی گزاری اور یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ ان کی فلمیں انسانیت کے سیاہ اور مردم بیزار پہلو کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ دھوکہ دہی سے بھی خوب آگاہ تھے۔

ان کے فلمی کیریئر کا آغاز اس وقت ہوا جب فرانس پرجرمنوں کا قبضہ تھا اور فرانسیسی فلم انڈسٹری نازیوں کی گرفت میں تھی جہاں وہ ہٹلر کے پروپیگنڈا چیف جوزف گوئبلز کی قائم کردہ کمپنی کانٹینینٹل کے لیے فلمیں بنا رہے تھے۔

آزادی کے بعد جرمنوں کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے کلوزو کو چار سال کے لیے سینیما میں کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

لے دیابولیک دراصل پیئر بولیو اور ٹامس نارسیاچ کے تحریر کردہ ناول ’شی ہو واز نو مور‘ کی عکس بندی تھی، جرائم کہانیاں لکھنے والے مصنفین کی وہی جوڑی ہے جن کی بعد میں آنے والی کتاب ’فرام امنگ دا ڈیڈ‘ سے متاثر ہو کر الفریڈ ہچکاک نے شاہکار فلم ’ورٹیگو‘ بنائی۔

یہ فلم اپنے اختتامی مراحل میں ایک غیر متوقع پینترے کی وجہ سے مشہور ہے۔ سینیما کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ عجیب اور حیران کن اختتام والی چند فلموں میں سے ایک ہے۔ بعض نقاد بھڑک کر رہ گئے کہ ایسا فنکارانہ پینترا تقریباً دغابازی اور پہلے کی ساری کہانی کو بے وقعت کرنے کے مترادف ہے۔

فلمی تاریخ دان روئے آرمز لکھتے ہیں کہ ’جس نفسیاتی حقیقت نگاری پر فلم کے پہلے منظر کی بنیاد رکھی گئی یہ چالاکی اس کا ستیا ناس مار دیتی ہے۔ آخری چال فلم کا دوبارہ دیکھنا بے معنی بنا دیتی ہے اور اسی کی وجہ سے کلوزو کا گہرا یاسیت پسندانہ پہلو فرسودہ اور واہیات محسوس ہوتا ہے۔‘

اس کے برعکس ایک نقطہ نظر کے مطابق یہ اختتام فلم کے باقی مجموعی خوفناک منطقی تاثر سے میل کھاتا ہے۔ یہ کلوزو کے انسانی فطرت سے متعلق گہرے یاسیت پسندانہ نقطہ نظر اور ان کی زبردست حس مزاح پر مہر ثبت کرتا ہے۔

اختتامی مناظر میں وہ اچانک موڑ بیک وقت خوفناک اور لایعنی ہے۔ یہ سامعین کو ایک ساتھ سہمنے اور گھبرا کر کھسیانی ہنسی ہنسنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

لے دیابولیک ایسی دنیا کی منظر کشی کرتی ہے جہاں کچھ بھی سلامت نہیں۔ کہانی میں اہم کردار ادا کرنے والا سکول کا تیراکی والا تالاب غلیظ پتوں اور گندگی سے ڈھکا ہوا ہے۔

طلبہ کو سکول میں پیش کیا جانے والا کھانا ایسا کراہت آمیز ہوتا ہے کہ اس کے مقابلے میں فلم ’نکولاس نکلبی‘ میں پیش کردہ سکول ڈوتھ بوائز ہال کا کھانا کسی عمدہ ریستوران سے منگوایا لگنے لگتا ہے۔

سکول کے بچے (جن میں سے ایک کا کردار مستقبل کے توانا پاپ سٹار جانی ہیلی ڈے نے ادا کیا ہوا ہے) جان بوجھ کر ایک دوسرے سے بے رحم طریقے سے پیش آتے ہیں۔

سارے کے سارے بڑے افراد آوازار ہیں۔ اسسٹنٹ ٹیچرز شکایت کرتے ہیں کہ شراب کم اور پتلی ہے۔ سینورے کا کردار نکول پہلی بار انتہائی شاندار سیاہ عینک لگائے نظر آتی ہیں جو موقع محل سے بالکل لگا نہیں کھاتی، خزاں کا موسم عروج پر ہے لیکن وہ اپنے شادی شدہ محبوب کی جانب سے لگائے گئے زخموں کے نشانات چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو وہ یوں وضاحت کرتی ہیں کہ ’میں اٹھتے ہوئے ٹھوکر کھا کر گر پڑی تھی۔‘ کرسٹینا اپنے ظالم خاوند کی موجودگی میں بزدل چوہے کی طرح دبک کر رہتی ہے۔

خاوند بھی کوئی زیادہ خوش انسان نہیں جو بری طرح مالی تنگ دستی کا شکار ہے، سکول کی ایسی ملازمت میں پھنس چکا ہے جہاں مزید ترقی کے امکانات نہیں، اپنی بیوی سے نفرت کرتا ہے جس کے ساتھ وہ چل نہیں سکتا اور اپنی محبوبہ کو بظاہر وہ گھٹیا سمجھتا ہے۔

فلم کے ابتدائی مناظر میں دو عورتیں اسے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہوتی ہیں۔ خاموش اور انتہائی مذہبی عورت کرسٹینا جسے دل کی بیماری لاحق ہے وہ کسی طرح بھی قتل کے منصوبے کا فطری حصہ نہیں لگتی لیکن کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوتا۔

لے دیابولیک کی عظمت سادگی اور پرکاری میں پوشیدہ ہے۔ کلوزو اس کی سیٹنگ بالکل سادہ رکھتے ہیں۔ فلم کی بنت میں کہیں بھی چمک دمک نہیں۔

وہ اپنے مواد کو ڈاکومنٹری کے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ سکول بالکل بدحالی کا شکار ہے۔ اس پر کیا گیا رنگ پھیکا پڑ رہا ہے۔ آسمان ہمیشہ سرمئی رہتا ہے۔ تاہم وہ آہستہ آہستہ کچھ نہایت بھیانک جذبات کا باریک بینی سے جائزہ لینے لگتے ہیں۔

کردار مسلسل شدت پسندانہ اور عجیب و غریب رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سکول کا ایک بچہ خوشی سے نہایت گندے تالاب میں سے چابیاں ڈھونڈ لانے کے لیے اتر جائے گا جو نکول نے گرائی ہیں۔ مشیل کو کوئی پروا نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو مارتا ہے۔

دو اہم ترین نسوانی کرداروں کا باہمی تعلق جان بوجھ کر مبہم چھوڑ دیا گیا ہے۔ بولیو نارسیاچ کے ناول میں خواتین ایک دوسرے سے محبت کے رشتے میں بندھی ہیں۔

جبکہ فلم میں ان کے درمیان ایک عجیب رفاقت ہے جو اس شخص کی مشترکہ نفرت کی پیدا کردہ محسوس ہوتی ہے جسے وہ قتل کرنے کا منصوبہ بناتی ہیں۔ ویرا کلوزو جس قدر کمزور ہے سینورے کا کردار اتنا ہی سخت جان ہے۔

ہدایت کار نے کیمرے کے پیچھے اپنی اہلیہ سے اتنا ہی بے رحم سلوک کیا جتنا ان کے شوہر نے پردہ سکرین پر۔ یہ ان کا خود کو مرکزی کردار میں متعارف کروانے کے لیے بہت اہم موقع تھا اور وہ کوئی منجھی ہوئی اداکارہ نہیں تھیں۔

فلمی تاریخ دان سوزن ہیورڈ لکھتی ہیں کہ کلوزو نے ویرا کو ’نو ماہ تک مختلف ڈراموں کے حصے یاد کروائے جن میں اس نے کبھی کام نہیں کیا مگر انہوں نے وہ ٹیپ پر ریکارڈ کر لیے اور اس کی ادائیگی درست کروانے کے لیے استعمال کیے۔‘

ویرا کے شریک مرکزی کردار سینورے اور موریس منجھے ہوئے اداکار تھے جنہوں نے ہمیشہ اس کی نااہلی اور بدحالی پر اپنی الجھن چھپانے کی کوشش نہیں کی۔

اس کے چہرے پر زردی، افسردگی اور گھبراہٹ دراصل اس کی دلی کیفیات کا عکس تھی بالخصوص جب وہ بدبودار مچھلی کھا چکی تھیں۔

اس کے باوجود فلم مردوں کی انا پر گہری ضرب لگاتی ہے۔ پیسوں کے لیے شوہر اپنی بیمار بیوی پر انحصار کرتا ہے۔ اس کا جارحانہ پن اس کی خود ترحمی اور عدم تحفظ کے تضاد سے جنم لیتا ہے۔

کہانی میں جیسی بھی پیچیدگیاں اور تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں اسے ہر حال میں نہایت بھیانک جسمانی تکلیف اور شرمندگی کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔

 قتل کی باریک جزئیات کے ذریعے کلوزو پوری طرح موت سے لطف اندوز ہوتے ہیں: کسی کو مارنے کے لیے درکار زہر کی مقدار، ڈوبنے میں کتنی دیر لگتی ہے، اور کسی شخص کی لاش ٹھکانے لگانے کے راستے میں آنے والی نقل و حمل کے مسائل جیسا کہ اسے چھپانے کے لیے اتنی ہی لمبائی کا غلاف ڈھونڈنا، ایک اتنی بڑی ٹوکری جس میں وہ سما جائے اور پھر ایک چھوٹی سی کار میں اسے دور دراز جگہ پر لے جانا۔

لے دیابولیک نے اپنی پہلی نمائش کے دوران باکس آفس پر بہترین کامیابی سمیٹی لیکن نقاد خاموش رہے جن میں سے اکثر کا خیال تھا یہ ایک معمولی اور منفی اثرات کی حامل فلم ہے۔

تاہم اس کا اثر و رسوخ بھرپور اور دیر پا ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ آج بھی امریکی مصنف ہارلن کوبین کے ’ٹیل نو ون،‘ ’نو سیکنڈ چانس‘ اور ’جسٹ ون لُک‘ جیسے ناولوں پر بننے والی فرانس کی صدمہ انگیز جذباتی فلمیں اور ٹی وی سیریز میں ویسے ہی کہانی کے اندر اچانک پینترا بدلتا اور خوف کے لمحات دیکھنے کو ملتے ہیں جو کلوزو کی مشہور ہیبت انگیز خونی فضا کا خاصہ رہے۔

کہا جاتا ہے کہ الفریڈ ہچکاک بھی اسی ناول پر فلم بنانا چاہتے تھے مگر انہیں حقوق حاصل نہ ہو سکے۔ وہ بھی اس فلم کے بہت بڑے مداح تھے۔

بعد میں خود انہوں نے بولیو نارسیاچ کے ناول پر ’ورٹیگو‘ بنائی لیکن ان کی ایک اور مشہور فلم ’سائیکو‘ پر بھی لے دیابولیک کے اثرات یقیناً نظر آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک فلم میں قتل پانی کے ٹب میں ہوتا ہے تو دوسری میں شاور کے نیچے۔ دونوں میں کہانی اچانک ایک جیسے پرہول انداز میں پینترا بدلتی ہے۔ ہچکاک کا کردار نارمن بیٹس کلوزو کی تخلیق کردہ کائنات میں نہایت آسانی سے موزوں بیٹھتا ہے۔

یہ فلم اس کے بعد بھی کئی بار بنی جن میں زیادہ مشہور شیرن سٹون اور ازابیل اجانی جیسے ستاروں سے سجی 1996 والی ہے۔ یہ ذرا زیادہ رنگین اور روایتی قسم کی فلم تھی لیکن اصل ناول میں موجود خواتین کی ہم جنس پرستی ممکنہ حد تک پوری طرح پردے پر آ گئی۔

بعد میں بننے والی فلموں میں سے کوئی ایک بھی اصل فلم کی صدمہ انگیز فضا کو دہرا نہ سکی۔

فلم کے اختتام پر کریڈٹس کے بعد کلوزو سامعین سے ایک تحریری جملے میں کہتے ہیں ’شیطانی حرکت سے گریز کریں! اپنی دوستوں کو اس کی کہانی بتا کر ان کے لیے فلم کا مزا کرکرا مت کری۔‘

66 برس بعد آج تک اس حکم کی تعمیل کی جا رہی ہے اور یہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ آج بھی فلم بینوں کو اسے دیکھ کر زور دار جھٹکا لگتا ہے۔

لے دیابولیک 22 اگست بروز اتوار چھ بجے شام ایڈنبرا فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم