بھارت: ’بارش‘ کے لیے لڑکیوں کو ’برہنہ پریڈ‘ کرانے کا واقعہ

وسطی بھارت کے قحط زدہ گاؤں میں کم از کم چھ کم عمر لڑکیوں کو مبینہ طور پر بے لباس کر کے گھمایا گیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس رسم کا مقصد ’بارش کے دیوتاؤں‘ کو خوش کرنا ہے۔

یہ تصویر 2013 میں حیدرآباد میں نیشنل گرل چائلڈ ڈے کے موقع پر بنائی گئی تھی (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

وسطی بھارت کے قحط زدہ گاؤں میں کم از کم چھ کم عمر لڑکیوں کو مبینہ طور پر بے لباس کر کے گھمایا گیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس رسم کا مقصد ’بارش کے دیوتاؤں‘ کو خوش کرنا ہے۔

یہ واقعہ بھارت کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے بنیا نامی گاؤں میں پیش آیا جہاں مقامی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس عمل سے بارش ہو گی اور خشک سالی جیسی صورت حال سے نجات ملے گی۔

بھارت میں بچوں کے حقوق کے سب سے بڑے ادارے نیشنل کمیشن فارپروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے ضلع داموہ کی انتظامیہ سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ مذکورہ گاؤں اسی ضلعے میں واقع ہے۔

داموہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈی آر تنیور نے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کو بتایا ہے کہ پولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے اور پتہ چلا کہ ’لڑکیوں کو زبردستی برہنہ کیا گیا ہے‘ تو کارروائی کی جائے گی۔ تنیور نے بھارتی جریدے انڈیا ٹوڈے کو بتایا کہ دیہاتی بچیوں کی مرضی سے یہ رسم ادا کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو جنہوں نے کاندھے پراشیا کو کوٹنے کے لیے استعمال ہونے والے بھاری ڈنڈے اٹھا رکھے تھے، برہنہ حالت میں چلایا گیا۔ لڑکیوں نے گھر گھر جا کر آٹا، دالیں اور دوسری اجناس مانگیں۔ رسم کے مطابق یہ اشیا بعد میں عوامی باورچی خانے کو عطیہ کر دی جاتی ہیں جو ایک مندر کے قریب بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ویڈیوز میں مبینہ طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکیوں نے اپنے کاندھوں پر لکڑی کے ڈنڈے اٹھا رکھے ہیں جن کے ساتھ مینڈک بندھا ہوا ہے اور خواتین کہہ رہی ہیں کہ ’ان کا عقیدہ ہے کہ اس طرح بارش ہو گی۔‘

ڈسٹرکٹ کلکٹر ایس کرشن چیتنیا نے مزید بتایا ہے کہ بچیوں کے والدین بھی اس رسم کی ادائیگی میں ملوث ہیں اور اب تک کسی مقامی شخص نے واقعے کی شکایت درج نہیں کروائی۔ چیتنیا نے پی ٹی آئی کو بتایا: ’اس قسم کے معاملات میں انتظامیہ صرف لوگوں کو اس توہم پرستی کے بے کار ہونے کے بارے میں آگاہی دے سکتی ہے اور انہیں سمجھا سکتی ہے کہ ایسے عمل سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔‘

مدھیہ پردیش میں عجیب و غریب ‘رسوم‘ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ 2018 میں دو مینڈکوں کی ’باضابطہ طور پر‘ اس امید میں شادی کروائی گئی تھی کہ اس سے علاقے میں بارش ہو جائے گی۔ شادی کی تقریب میں خواتین اور بچوں کی ترقی کی اس وقت کی ریاستی وزیر للیتایادو نے بھی شرکت کی تھی۔

2017 کے اوائل میں ریاست میں ہم جنس پرست جوڑے کی شادی کروائی گئی جو ملک میں غیرقانونی فعل ہے۔ یہ ’بارش کے دیوتاؤں‘ کو خوش کرنے کے لیے ایک علامتی عمل تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا