چوڑی گینگ کی وارداتیں، جنہوں نے ملتان کی خواتین میں دہشت پھیلا دی

ایک انوکھے گینگ کی کہانی جو کسی طور قابو میں نہیں آ رہا تھا، کیوں کہ اس کی پشت پناہی ’گھر کا بھیدی‘ کر رہا تھا۔

ملزم راہ چلتی خواتین کی ہاتھوں سے چوڑیاں کاٹ لیتے تھے (پکسا بے)

چوہدری شبیر انسپکٹر کا شمار ملتان کے بہترین ایس ایچ اوز میں ہوتا تھا، اس لیے انہیں ہمیشہ ایسے تھانوں میں تعینات کیا جاتا جہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہوتی۔ چوہدری شبیر اپنی تعیناتی کے چند دنوں میں ہی اپنی محنت، بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت سے بہت سے اندھے مقدمات کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جاتے۔

وہ ملزمان کو گرفتار کر کے قانون کے حوالے کرتے اور علاقے میں جرائم پیشہ افراد اور ان کے سہولت کاروں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیتے۔

اگر میں یہ کہوں کہ چوہدری شبیر افسران بالا کی مجبوری تھا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔

میری تعیناتی بطور ایس ایچ او تھانہ کینٹ تھی جبکہ چوہدری شبیر کا گھر اسی تھانے کی حدود میں تھا چنانچہ ہر دوسرے روز آتے جاتے ہوئے ان سے ملاقات اور گپ شپ ہو جاتی۔

چوہدری شبیر اپنی قابلیت کی بنا پر اسسٹنٹ سب انسپکٹر سے ترقی کرتا ہوا انسپکٹر کے عہدے تک پہنچے تھے اس لیے ان کے پاس پولیسنگ کا وسیع تجربہ تھا، لہٰذا ہمیں جب بھی کوئی پیشہ ورانہ مشکل پیش آتی تو ہم انہی سے مشورہ کرتے اور ہر دفعہ ان سے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملتا۔ رفتہ رفتہ ہماری دوستی گہری ہوتی گئی اور ہماری ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ کم ہوتا گیا۔

اسی دوران اچانک چوہدری صاحب کے علاقے میں ’چوڑی گینگ‘ متحرک ہو گیا۔

یہ گینگ چار افراد پر مشتمل تھا۔ جو دو موٹر سائیکلوں پر آتے۔ شہر کے پوش ایریا کی گلیوں یا چھوٹے پارکوں میں چہل قدمی کرتی خواتین کو گن پوائنٹ پر روکتے اور اپنے پاس موجود کٹر کی مدد سے ان خواتین کے ہاتھوں میں پہنی ہوئی سونے کی چوڑیاں بے دردی سے کاٹتے اور آناً فاناً تنگ و تاریک گلیوں میں غائب ہو جاتے۔

اب تو ان وارداتوں کا تسلسل، اتنا زیادہ بڑھ چکا تھا کہ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے پوری ملتان پولیس کو چیلنج کر رکھا ہو۔

ہر واردات کے بعد پورے علاقے کی گھنٹوں ناکہ بندی کروائی جاتی۔ پورے علاقے میں ’کارڈن اینڈ سرچ‘ آپریشن کیا جاتا، مگر ملزمان کا کوئی اتا پتہ نہ چلتا۔

حیران کن بات وارداتوں کا ہونا نہیں بلکہ حیرانی تو اس بات کی تھی کہ چوہدری شبیر جیسا تگڑا اور منجھا ہوا پولیس آفیسر اس گینگ کا سراغ لگانے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام اور بے بس دکھائی دے رہا تھا۔

شہر میں خوف و ہراس اس قدر پھیل چکا تھا کہ خواتین اور بچیاں، چوڑی گینگ کے ڈر سے گھروں سے باہر نہ نکلتیں تھیں۔

ادھر چوہدری صاحب بھی مصروف ہو گئے تھے۔ ان سے ملاقات تو درکنار، ہفتوں شکل تک دکھائی نہ دیتی۔ ہماری ملاقات کو بھی ایک ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا تھا۔ ہاں فون پر ہر چوتھے، پانچویں روز میں ضرور ان کے ساتھ حال احوال بانٹتا اور انہیں اپنی خدمات پیش کرتا انہیں حوصلہ دیتا۔

ایک روز ان کو اپنے قریب سے گزرتے دیکھا تو سرکاری گاڑی کو روک لیا۔ چوہدری صاحب کو زبردستی اپنے کمرے میں کھینچ لایا۔ ان کے لیے چائے منگوائی اور لمبی گپ لگائی۔

چوہدری شبیر کا وزن چند دنوں میں اس قدر گر چکا تھا کہ وہ دور سے پہچان میں ہی نہیں آ رہے تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ ’چوہدری صاحب آپ نیک نیتی کے ساتھ ملزمان کی سراغ رسانی میں لگے ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ مالک کامیابی ضرور دے گا اور کوئی نہ کوئی واردات کا سرا ضرور مل جائے گا جو ملزمان تک لے جائے گا، بس آپ اس قدر ٹینشن نہ لیں کہ اپنی جان کو عذاب میں ڈال لیں۔‘

چوہدری شبیر ایک خوددار پولیس آفیسر تھے انہوں نے ایک گہری ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگا، ’یار میرے نزدیک چوری، فراڈ، دھوکہ دہی اتنے بڑے جرائم نہیں ہیں کیونکہ وہ دوسرے انسان کی غفلت، بے دھیانی یا نیند کی حالت میں کیے جاتے ہوتے ہیں۔ انسان کو نقصان کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ ہو چکا ہوتا ہے لیکن ڈکیتی میرے نزدیک قتل سے بھی بڑا جرم ہے جو ایک ہوش مند انسان کو مجبور کر کے، اسے خوف میں مبتلا کر کے کیا جاتا ہے۔ اس لیے پولیس آفیسر ہوتا ہی وہ ہے جو ایسے ظالموں کے ساتھ دشمنی مول لے اور ان کا قلع قمع کرے تاکہ خلق خدا سکھ کا سانس لے اور انہیں پروٹیکشن اور تحفظ کا احساس ہو۔‘

میں چوہدری صاحب کی دل سے نکلی ہوئی دردمندانہ باتوں کو سن رہا تھا۔

اسی دوران ایک عجیب اتفاق ہوا کہ وائرلیس پر سی پی او ملتان کی طرف سے پیغام سنایا گیا کہ چوہدری صاحب کو معطل کر کے پولیس لائن ٹرانسفر کر دیا گیا ہے اور مجھے بطور ایس ایچ او تھانہ گلگشت تعینات کر دیا گیا ہے۔ چوہدری صاحب کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔

میری پوزیشن نازک ہو گئی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں چوہدری صاحب نہ یہ سمجھ لیں کہ میں نے کوئی سفارش لڑا کر انہیں ہٹایا ہے، اور اب ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے آن پہنچا ہوں۔ میں نے صفائی دینے کی کوشش کی کہ ’چوہدری صاحب اس پوسٹنگ میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔‘

وہ کہنے لگے کہ ’مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ پوسٹنگ میری جگہ آپ کی ہوئی ہے بس آپ پر ایک قرض ہے وہ آپ نے چکانا ہے، اور وہ قرض ’چوڑی گینگ کی گرفتاری‘ کا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چوہدری شبیر صاحب نے مجھے گلے سے لگایا اور مبارک باد دی۔ میں نے کہا، ’چوہدری صاحب، مجھے مبارکباد نہیں، دعاؤں کی ضرورت ہے تاکہ میں آپ کا یہ قرض، اپنا فرض سمجھ کر چکا سکوں۔‘

اگلے روز میں نے چوہدری شبیر صاحب کے ساتھ ایس ایچ او گلگشت کا چارج سنبھال لیا۔ چوہدری صاحب نے مجھے چوڑی گینگ کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق، ملزمان کے حلیے، ان کے آنے اور جانے کے ممکنہ راستے اور اکٹھی کی گئی معلومات پر مبنی فائل میرے سپرد کی۔

چوہدری صاحب نے اپنا نجی ملازم ارشد سکھیرا بھی میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ یہ بہت اچھا ڈرائیور، بہت اچھا باورچی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس علاقے کو بخوبی جانتا بھی ہے کیونکہ یہ گذشتہ تین چار سال سے ہر ایس ایچ او گلگشت کے ساتھ بطور پرائیویٹ ملازم کام کرتا ہے مجھے بھی سابقہ ایس ایچ او ہی سے ورثے میں ملا تھا۔

خیر میں نے عملہ اکٹھا کر کے چائے کا اہتمام کیا۔ چوہدری صاحب کو پورے اہتمام کے ساتھ الوداع کیا اور خود اس کیس کی تفتیش میں مگن ہو گیا۔ چوڑی گینگ کی فائل پڑھ کر مجھے احساس ہو رہا تھا کہ چوہدری شبیر صاحب نے اس کیس پر کس قدر محنت کی ہے۔

ارشد سکھیرا کو میں نے اس کی رائے جاننے کے لیے اپنے پاس بلایا اور اس سے معلومات لینے لگا۔

ارشد نے کہا کہ ’سر جی ملزمان باہر کے نہیں لگتے یہ یہیں کے کوئی آوارہ لڑکے ہیں جو شوقیہ طور پر اس طرح کی واردات کچھ دن کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔‘

چوڑی گینگ کی فائل سے جو ایک چیز اور میرے علم میں آئی وہ یہ تھی کہ ملزمان 125 موٹر سائیکلوں کے ٹینکی اور ٹاپے کو اکثر تبدیل کرتے اور یہی بات میری اس گینگ کا شکار ہونے والی مختلف خواتین سے دریافت کے دوران بھی سامنے آئی۔

میں نے خفیہ طور پر اپنے ایک قابلِ اعتماد تھانیدار کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ علاقہ تھانے میں چھوٹے موٹر سائیکل مکینوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرے اور اردگرد سے بھی معلومات اکٹھی کرے کہ کون سا مکینک موٹر سائیکلوں کے ٹینکی ٹاہے تبدیل کرتا ہے اور کون سے لوگ اس کے پاس اکثر، اس کام کے لیے آتے جاتے ہیں۔

گلگشت کی تنگ گلیوں کے اندر میں نے چار نوجوان کانسٹیبلوں کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ عام کپڑے پہن کر موٹر سائیکلوں پر علاقے کا گشت کریں اور 125 موٹر سائیکل رکھنے والوں کی معلومات اکٹھی کریں۔

میں نے خود دو چار دکانداروں کی ڈیوٹیاں لگائیں کہ انہیں بھی اگر کوئی مشکوک بندہ نظر آئے تو اطلاع دیں۔

میں ہر زاویے سے اور ہر ممکنہ طریقے سے ملزمان کی کھوج میں لگ چکا تھا جہاں سے بھی کوئی معلومات سامنے آتی میں اس کی پوری جانچ پڑتال کرتا۔ اس کو چوڑی گینگ والی فائل میں جمع کرتا جاتا۔ ویسے بھی میں نے اس فائل پر priority1 کا ٹیگ لگایا ہوا تھا۔

ایک حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ اگرچہ ملزمان ٹریس نہیں ہوئے تھے لیکن وارداتوں کا سلسلہ تقریباً تھم چکا تھا۔

میں جیسے ہی گھر آتا تو ارشد سکھیرا (ذاتی ملازم) مجھ سے چوڑی گینگ کا ضرور پوچھتا۔ میں ہمیشہ اسے یہی بتاتا کہ بہت قریب پہنچ چکا ہوں، جلد ملزمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔

ایک دن میں تھانے جانے کے لیے گھر سے نکل رہا تھا کہ مجھے میرے اسسٹنٹ سب انسپکٹر کا فون آیا کہ وہ مجھے فوری طور پر مل کر کچھ بتانا چاہتا ہے۔ میں نے اسے آنے کو کہا اور خود گھر کے باہر اس کا انتظار کرنے لگا۔

پہلے تو اس نے آئیں بائیں شائیں کر کے چکر دینے کی کوشش کی لیکن جب میں نے تھانیداروں والے موڈ میں آ کر کہا، ’ٹھیک ہے، تم کچھ مت بتاؤ۔ میں تمہیں چوڑی گینگ کی طرف سے اب تک کی گئی 18 ڈکیتی کی وارداتوں میں چالان کر دیتا ہوں۔ ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر جائے گی۔‘

اس نے پہنچتے ہی کہا، ’سر، ہمارے علاقے میں ایک ہی ایسا مکینک ہے جو اس طرح کے دو نمبر کام کرتا ہے اس کی دوکان باٹا چوک کی پچھلی طرف والی گلی میں ہے اور اس کے پاس آج بھی بہت سے رنگوں کے ٹینکی ٹاہے پڑے ہوئے ہیں۔‘

میں نے اے ایس آئی سے کہا کہ وہ فوری طور پر اس مکینک کو میرے پاس لے کر آئے، میں اس مقدمے میں اسے خود شامل تفتیش کروں گا۔

مکینک میرے سامنے لایا گیا تو میں نے سب کو کمرے سے نکال دیا اور اس مکینک سے پوچھ گچھ کرنے لگا۔

پہلے تو اس نے آئیں بائیں شائیں کر کے چکر دینے کی کوشش کی لیکن جب میں نے تھانیداروں والے موڈ میں آ کر کہا، ’ٹھیک ہے، تم کچھ مت بتاؤ۔ میں تمہیں چوڑی گینگ کی طرف سے اب تک کی گئی 18 ڈکیتی کی وارداتوں میں چالان کر دیتا ہوں۔ ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر جائے گی۔‘

میں اس کے چہرے کے تاثرات کا غور سے جائزہ لے رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ دھمکی سے اس کے پاؤں اکھڑ گئے تھے۔ لوہا گرم دیکھ کر میں نے ایک اور چوٹ لگائی اور محرر کو بلا کر کہا، ’اس مکینک کو حوالات میں لے جاؤ اور 18 ڈکیتی کے مقدمات جو چوڑی گینگ کے خلاف درج ہوئے ان سب میں اسے چالان کر دو!‘

بس اتنا کہنا تھا کہ وہ معافیاں مانگتے ہوئے کہنے لگا، ’سر، میں صرف ون ویلنگ کرنے والے لڑکوں کو موٹر سائیکل کی ٹینکی بدل کر دیتا ہوں۔ 125 سی سی موٹر سائیکلوں کی ٹینکی ٹاپہ تبدیل کروانے والی مہینے میں کوئی ایک آدھ پارٹی آتی ہے۔‘

میں نے اسے کہا، ’ذہن پر زور دے کر بتاؤ پچھلے چھ ماہ میں تم نے کس کس کو 125 کے ٹینکی، ٹاپے تبدیل کر کے دیے ہیں؟‘

اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا، ’میں ان کے نام تو نہیں جانتا لیکن اگر کبھی میرے سامنے آ جائیں تو میں ضرور پہچان لوں گا۔‘

ملزموں کے خاکے ہم نے بنوا رکھے تھے۔ میں نے محرر سے کہا، ’ملزمان کے خاکوں والی فائل لے آؤ۔‘

موٹر سائیکل مکینک خاکے دیکھا جا رہا تھا اور نفی میں سر ہلاتا جا رہا تھا اور میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ اچانک ایک تصویری خاکے پر اس کی آنکھوں میں یکایک چمک آئی اور اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا، ’سر جی، یہ بندہ تو کئی دفعہ میرے پاس سابق ایس ایچ او صاحب کے ملازم کے ساتھ آیا ہے۔‘

سابق ایس ایچ او چوہدری شیبر کا ملازم ارشد سکھیرا میرے پاس کام کر رہا تھا، جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ اس کے بارے میں سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں نے دوبارہ پوچھا کہ کیا وہ ارشد سکھیرے کی بات کر رہا ہے تو اس نے دوبارہ اثبات میں سر ہلایا۔

میں نے محرر سے کہا کہ اس مکینک کو الگ کمرے میں بٹھا دے اور اس کا موبائل بھی میں نے اپنی میز کی دراز میں رکھ لیا اور محرر کو ہدایت کی کہ اسے ابھی کسی سے مت ملنے دے۔ میں نے اپنے گن مین کو ساتھ لیا اور اپنے کوارٹر آ گیا۔

مجھے یہ بھی احساس تھا کہ میرے پاس وقت کم ہے، اگر لڑکوں کو خبر مل گئی تو وہ کہیں فرار نہ ہو جائیں، اس لیے مجھے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان کے چوبارے پر ریڈ کرنا تھا۔ 

 

جیسے ہی میں کوارٹر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ارشد سکھیرا اپنا بیگ اٹھا کر نکلنے کی تیاری میں ہے۔

مجھے اچانک سامنے دیکھ کر وہ بوکھلا گیا۔ میں نے جب پوچھا کہ کہاں نکل رہے تھے تو اس نے روتے ہوئے کہا کہ ’خانیوال میں میری ہمشیرہ فوت ہو گئی ہے میں گھر جا رہا ہوں۔‘ 

میں نے پوچھا، ’تمہیں فوتگی کی کس نے اطلاع دی، موبائل پر کال آئی ہے یا کسی آدمی نے آ کر بتایا ہے؟‘ وہ ادھر ادھر کی ہانکنے لگا۔ 

میں نے اسے بتایا کہ چوڑی گینگ کے ملزمان پکڑ لیے ہیں یہ سنتے ہی اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میں نے گن مین سے کہا کہ اسے گرفتار کر لو۔

یہ سن کر وہ میرے پاؤں میں گر گیا اور معافیاں مانگنے لگا۔ میں نے ذرا درشت لہجے میں کہا، ’اب اس ناٹک کا کوئی فائدہ نہیں۔ تمھاری بہتری اسی میں ہے کہ ساری تفصیلات ہوبہو بتاؤ، تب میں سوچوں گا کہ تمہاری بچت کیسے ہو سکتی ہے، ورنہ تم تو گئے۔‘

اب اس کے کس بل نکل چکے تھے۔ وہ کھل گیا اور واقعات کی تفصیل بتانے بیٹھ گیا۔ اس نے کہا کہ ’چوڑی گینگ کے چاروں ملزمان میرے گاؤں کے ہیں۔ ہم دو سال پہلے ملتان محنت مزدوری کے لیے آئے تھے۔ مجھے ڈرائیوری اور باورچی کا کام آتا تھا، لہٰذا مجھے ایک ڈی ایس پی صاحب کے گھر ملازمت مل گئی۔

’ڈی ایس پی صاحب کا تبادلہ ہوا تو اس وقت کے ایس ایچ او گلگشت نے مجھے نوکری پر رکھ لیا۔ ان چاروں ملزمان کو میں نے اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے باٹا چوک کے عقب والی گلی میں چوبارہ لے کر دیا۔ شروع میں یہ اکیلے چھوٹی موٹی وارداتیں کرتے تھے جب مجھے پتہ چلا تو میں نے انہیں واپس جانے کا کہا لیکن ان تینوں نے مجھے لالچ دیا کہ وہ مجھے پورا پانچواں حصہ دیں گے، بشرطیکہ میں انہیں پولیس کی نقل و حرکت سے آگاہ رکھوں۔

’میں ان کے دیے ہوئے لالچ میں آ گیا اور پھر وہ کھل کر وارداتیں کرنے لگے۔ جیسے ہی تھانے میں ہلچل زیادہ ہوتی یا پولیس متحرک ہوتی تو میرے بتانے پر وہ کچھ دن کے لیے ادھر ادھر ہو جاتے۔‘

میں باتیں سن رہا تھا اور اس کی چالاکی پر حیران تھا کہ کیسے اس نے اپنی پوزیشن کو استعمال کیا دل چاہتا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ اس پر ذرا تھانیداری کے پرانے اور آزمودہ ہتھکنڈے آزماؤں تاکہ اسے اعتماد کو پارہ پارہ کرنے کی سزا فوری طور پر مل جائے، لیکن دوسری طرف مجھے یہ بھی احساس تھا کہ میرے پاس وقت کم ہے، اگر لڑکوں کو خبر مل گئی تو وہ کہیں فرار نہ ہو جائیں، اس لیے مجھے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان کے چوبارے پر ریڈ کرنا تھا۔ 

میں نے تھانے فون کر کے نفری منگوائی اور ارشد سکھیرا کی نشاندہی پر باٹا چوک کے ساتھ گلی میں واقع چوبارے پر چھاپہ مارا۔ وہاں تین ملزم بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔ ہم نے انہیں دھر لیا۔ کمرے کی تلاشی سے سونے کی ٹوٹی ہوئی دو چوڑیاں اور چین برآمد کر لیے۔ اسی چوبارے سے ہمیں وہ کٹر بھی مل گیا جس کے ساتھ ملزمان راہگیر خواتین کی چوڑیاں کاٹتے تھے۔

چوتھا ملزم کھانا لینے کے لیے گیا ہوا تھا۔ میں نے سادہ کپڑوں میں دو ایلیٹ فورس کے سپاہیوں کو گلی کی نکر پر کھڑا کر دیا اور خود تینوں ملزمان کو لے کر تھانے آ گیا۔ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد چوتھا ملزم بھی چوبارہ چڑھتے ہوئے ہمارے جوانوں کے ہاتھ لگ گیا۔

ہم دوران تفتیش اس سنار کو بھی گرفتار کر لیا جو ملزمان سے ڈکیتی کا مال خریدتا تھا۔

میں نے مکینک کو حسب وعدہ تنبیہ کر کے اور ایک سٹامپ پیپر لکھوا کر ضمانت پر چھوڑ دیا، جبکہ ارشد سکھیرا سمیت تمام ملزمان کو پورے شواہد اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ چالان کر کے جیل بھجوایا۔

یہاں یہ بات بھی قارئین کو بتانا ضروری ہے کہ ایسے تمام مقدمات جو نامعلوم ملزمان کے خلاف درج ہوں اور مدعی کہتا ہو کہ ملزمان کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتا ہے تو ایسے تمام مقدمات میں چالان کیے گئے ملزمان کی جیل کے اندر شناخت پریڈ کروائی جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کی عدالتی کارروائی سمجھی جاتی ہے کیونکہ شناخت پریڈ کا عمل مجسٹریٹ کی نگرانی میں سر انجام دیا جاتا ہے۔

شناخت پریڈ میں ایک مقدمے کے ملزمان (جن کی شناخت مطلوب ہو) کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ گڈمڈ کر کے بٹھایا جاتا ہے جسے مدعی مقدمہ شناخت کرتا ہے۔

اس کیس میں بھی کیونکہ ملزمان ایف آئی آر میں نامعلوم درج تھے چنانچہ ملزمان کی شناخت پریڈ کروائی گئی۔ میری درخواست پر چند خواتین (مدعیہ) شناخت پریڈ کے لیے آمادہ ہو گئیں۔ میں نے پولیس کی حفاظت میں انہیں جیل بھجوایا۔ الغرض ان سب ملزمان کی شناخت پریڈ مکمل ہو گئی۔

مختلف مقدمات میں ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر مجموعی طور پر دس دس سال قید بامشقت اور بھاری جرمانوں کی سزائیں ہوئیں۔ لیکن میرے لیے سب سے زیادہ اطمینان کی بات یہ تھی کہ لوگوں کے اندر چوڑی گینگ کی آئے دن وارداتوں کی وجہ سے جو خوف اور پولیس پر بداعتمادی پیدا ہو رہی تھی اس کا خاتمہ ہو گیا۔

اور دوسری طمانیت کا باعث بات یہ تھی کہ وہ قرض جو چوہدری شبیر صاحب نے میرے ذمے چھوڑا تھا، اللہ کے فضل و کرم سے ادا ہو گیا۔

آج بھی میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر تفتیش کا رخ رشید سکھیرا کی جانب نہ جاتا تو شاید ملزمان کا سراغ کبھی نہ مل پاتا۔ وہ بڑے مستعد پولیس افسر تھے، لیکن شاید انہیں اس لیے یہ کیس حل کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکی کہ گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھا رہا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی