بچوں سے ’بدفعلی‘ کی ویڈیوز بنانے والے گینگ کا پتہ کیسے چلا؟

جنوبی پنجاب کے شہر ساہیوال میں بچوں سے بدفعلی کی ویڈیوز بنانے والے گینگ کے چار ملزمان میں سے ایک نے انکشاف کیا ہے کہ ان ہی کا ایک ساتھی مقامی صحافیوں کے ساتھ مل کر انہیں بلک میل کرتا رہا ہے۔

19 فروری 2020 کو شہر  پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے بچوں پر  جنسی تشدد کے خلاف مظاہرے کے دوران لی گئی تصویر (انڈپینڈنٹ اردو)

جنوبی پنجاب کے شہر ساہیوال میں بچوں سے بدفعلی کی ویڈیوز بنانے والے گینگ کے چار ملزمان میں سے ایک نے انکشاف کیا ہے کہ ان ہی کا ایک ساتھی مقامی صحافیوں کے ساتھ مل کر انہیں بلک میل کرتا رہا ہے۔

ملزم طارق جاوید کے مطابق ان کے ایک ساتھی احتشام نے 2018 میں ان کے فون کا میموری کارڈ چوری کر لیا تھا جس کے بعد وہ ساہیوال کے چند مقامی صحافیوں ( جن کا تعلق مختلف اخباروں اور نیوز چینلز سے ہے) کے ساتھ مل کر انہیں بلک میل کرتا رہا اور ان سے لاکھوں روپے وصول کیے۔

ان کے مطابق ’جب پیسے ختم ہوگئے تو اس کے بعد یہ معاملہ منظر عام پر آیا ہے۔‘

واضح رہے کہ 10 ستمبر 2021 کو ساہیوال کے تھانہ فرید ٹاؤن پولیس سٹیشن نے القریش ٹاؤن نور شاہ روڈ پر قائم فائن میرج سینٹر سے ایک گینگ کو گرفتار کیا گیا ہے جو بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنے اور اس عمل کی ویڈیو بنانے میں ملوث تھا۔

اس معاملے کی ایف آئی آر تھانہ فرید ٹاؤن میں انویسٹی گیشن آفیسر سب انسپیکٹر عمر دراز کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 377، 377B، اور 292C کے تحت درج کر لی گئی ہے۔

پولیس نے گینگ کے چاروں افراد کو حراست میں لے لیا ہے جبکہ ان ملزمان کے پاس سے ایک یو ایس بی برآمد ہوئی ہے جس میں بچوں سے بدفعلی کی 46 ویڈیوز ہیں جن میں بچوں کی تعداد سات سے آٹھ اور ان کی عمریں آٹھ سے 14 برس کے درمیان ہیں۔

تھانہ فرید ٹاؤن کے ایس ایچ او ساجد صادق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس واقعے کی اطلاع سپیشل برانچ نے ڈی پی او ساہیوال صادق بلوچ کو دی تھی جس کے بعد ہم نے کارروائی شروع کی اور فائن میرج بیورو سے چار ملزمان، طارق جاوید، ریاست علی، آصف رانا اور احتشام کو گرفتار کیا۔

ساجد صادق کا کہنا تھا کہ ’ملزمان سے ملنے والی ویڈیوز میں موجود بچوں کی شناخت نہیں ہو سکی کیونکہ یہ نابالغ بچے ہیں اور اس میں نادرا بھی مدد نہیں کر سکتا کیونکہ بچوں کے فارم ب پر ان کی تصاویر نہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان ملزمان میں سے ایک لاری اڈے کے باہر ہاکر کا کام کرتا ہے۔ ’ملزم کے مطابق وہ بچوں کو وہاں سے بہلا پھسلا کر لایا کرتا تھا‘ جبکہ ایک اور ملزم نے بتایا کہ ’وہ بچوں کو موٹر سائیکل پر لفٹ دینے کے بہانے گھیر کر لایا کرتا تھا۔‘

ساجد صادق کے مطابق ان بچوں کو فائن میرج بیورو لے جایا جاتا اور وہاں ان کے ساتھ بدفعلی کی جاتی تھی۔

ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ’ملزمان کو ان بچوں کے ٹھکانے کا کوئی علم نہیں وہ راہ چلتے بچوں کو اپنا شکار بناتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب اس کیس کے تفتیشی افسر سب انسپیکٹر عمر دراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’ملزمان سے برآمد ہونے والی ویڈیوز 2018 کی ہیں اس کے بعد انہوں نے بدفعلی کا عمل تو نہیں روکا لیکن ویڈیوز بنانی بند کر دیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ملزم طارق جاوید کے بیان کے مطابق گینگ کے چاروں افراد کا 2018 میں جھگڑا ہوا اور ان کا ایک ساتھی حافظ احتشام مرکزی ملزم طارق کا میموری کارڈ لے کر چلا گیا تھا اور باقیوں کو بلیک میل کرتا رہا اور ’اس کے بعد اس نے میڈیا کے کچھ لوگ ساتھ ملا لیے اور طارق نے انہیں لاکھوں روپے دیے تاکہ وہ اپنا منہ بند رکھیں۔‘

عمر دراز نے بتایا کہ ’ملزم کے بیان کے مطابق میڈیا والے افراد مشہور چینلز سے تعلق رکھتے ہیں۔‘

’احتشام نے طارق سے کہا کہ انہوں نے میموری کارڈ سے اپنی ویڈیوز ضائع کر دی ہیں لیکن طارق کی ویڈیوز اس کے پاس ہیں اور اسی بات پر وہ انہیں بلیک میل کرتا رہا۔‘

تفتیشی افسر کے مطابق ’جب طارق کے پاس پیسے دینے کی سکت نہ رہی تو اس نے کسی جاننے والے سے بات کی کہ ان سے یہ غلطی ہو گئی ہے۔‘

انہوں نے اسے بتایا کہ طارق نے جس شخص کو یہ بات بتائی اس نے ساری بات پولیس کو بتا دی جس کے بعد یہ کارروائی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان سے برآمد ہونے والی ویڈیوز کو پنجاب فارینزک سائنس ایجنسی بھجوایا جائے گا اور پھر ان ملزمان کو بھی پی ایف ایس اے بھجا جائے گا تاکہ ان کے چہروں کی پہچان کا ٹیسٹ ہو جائے کہ ویڈیو میں نظر آنے والے چہرے انہیں کے ہیں۔

’ہم نے سوچا ہے کہ ویڈیوز میں موجود بچوں کی تصاویر کو گروپ کر کے وائرل کیا جائے کیونکہ اس کے علاوہ ان بچوں کا سراغ لگانا ممکن نہیں۔‘

 

ان کا کہنا ہے کہ ’ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایسا نہیں لگ رہا کہ یہ ملزمان بچوں کی ویڈیوز کسی دوسرے ملک یا کسی اور استعمال کے لیے بناتے تھے۔‘

متاثرہ بچوں کی غیر موجودگی سے ملزمان کو کیا فائدہ ہوگا؟

اس حوالے سے ایڈوکیٹ ہائی کورٹ احمر مجید جو بچوں کے حقوق کے لیے بھی کام کرتے ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کیس میں 377B، 292-377 C، پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

ان دفعات می 377B  اور 292C  چائلڈ پورنوگرافی کے خلاف دفعات ہیں، دونوں میں 14 سے 20 سال قید کی سزا اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں ہیں۔

ان کے مطابق: ’عموماً ان کیسسز میں ایسا ضروری نہیں ہے کہ سب متاثرہ بچے پیش ہوں۔ خاص طور پر چائلڈ پورنوگرافی میں اگر پولیس ویڈیوز کا فارینزک ٹیسٹ ٹھیک سے کروالیتی ہے اور اس میں موجود ملزمان کی شناخت ثابت ہو جاتی ہے اور یہ کہ ویڈیو بھی اصل ہے تو ایسے کیس میں بچے اگر نہیں بھی سامنے آتے تو ان دفعات کے تحت انہیں سخت سزا ہو سکتی ہے۔‘

احمر مجید ایڈوکیٹ کے مطابق: ’اگر کوئی بچہ سامنے آجاتا ہے تو اس صورت میں ان کو دفعہ 377 کے تحت بھی غیر قدرتی عمل کے زمرے میں سزا ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اس کیس میں گذشتہ سات آٹھ ماہ کے دوران ان کے خلاف بچوں سے بدفعلی کی کوئی ایف آئی آر سامنے آجاتی ہے تو اس میں ان پر دفعہ 375 اور 376 جو ریپ کی دفعات ہیں وہ بھی لگائی جاسکتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ خاص طور پر اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 کے تحت ایسے کیس میں جرم کے مرتکب شخص کے لیے سزائے موت ہے۔ اس کے علاوہ کرمنل امینڈمنٹ بل 2016 ہے اس میں بھی لکھا گیا ہے کہ اگر بچے کے ساتھ جنسی زیادتی ہوگی تو اس میں سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہے۔

 بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی چند این جی اوز کا مرکزی حصہ رہنے والی سدرہ ہمایوں نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اچھی بات ہے کہ یہ گینگ پکڑا گیا اور ایسے کئی اور گینگز ہوں گے۔ میرے خیال میں اس وقت ریاست باآسانی ایسے تمام کیسسز میں مدعی بن سکتی ہے اور اسے بننا بھی چاہیے۔‘

سدرہ ہمایوں کہتی ہیں کہ ’بچوں کے حوالے سے ریاست اور بحیثیت شہری ہمارا ایک رویہ ہے، ہم اپنے بچوں سے پیار نہیں کرتے۔ آپ دیکھیں تو یہ بچے ہیں جن میں سے بہت سے بچے گھروں سے بھاگے ہوئے ہوں گے یا گمشدہ ہوں گے یا اغوا شدہ بچے ہیں۔ ان بچوں کے والدین کون ہیں؟‘

انہوں نے سوال کیا کہ ’ان بچوں کی ماؤں نے ان بچوں کے لیے سخت قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ دوسری بات یہ کہ ہماری ریاست کے لیے بچے ترجیح کیوں نہیں ہیں بچے ہمارا مستقبل ہیں۔‘

یہ کیس اپنی نوعیت کا پہلا کیس نہیں ہے۔ 2015 میں بھی صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں سیکڑوں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور ان کی ویڈیوز بنانے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے میڈیا سیل کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو مہیا کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق 2020 میں ملک بھر میں 89 بچے جنسی زیادتی اور پورنوگرافی کا شکار ہوئے جن میں 66 بچے اور 23 بچیاں شامل تھیں جبکہ 2019 میں ان کیسسز کی تعداد 70 تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان